Featured Post

عقائد میں احتیاط کے تقاضے

عقائد میں احتیاط کے تقاضے 1 : یا محمد یا رسول اللہ کہنا شرک نہیں 2:  ایک شبہ اور اس کا ازالہ 3: اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دعا ...

Saturday, February 24, 2018

جہاد فی سبیل اللہ،قتال چھوڑنے کا وبال اورقتال کی نفی کرنے والوں پر لعنت کا ذکر

1: قتال فی سبیل اللہ کرنے والی جماعت کا ذکر۔
2. قتال فی سبیل اللہ چھوڑنے کا وبال
3: قتال کی نفی کرنے والوں پر لعنت کا بیان
بعثت بین یدی الساعة بالسیف، حتیٰ یعبداللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ وجعل رزقی فی تحت ظل رمحی، وجعل الذّل والصغار علیٰ من خالف امری، ومن تشبہ بقوم فھو منھم )) 

’’مجھے قیامت تک کے لئے’’تلوار ‘‘کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ،یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے ۔اورجس نے میرے (اس) امر کی مخالفت کی ،اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی اور جس نے (میرے اس طریقے کو چھوڑکر)کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اُنہی میں (شمار)ہوگا۔‘‘

(احمد :مسندالمکثرین،طبرانی۔)



((لا تزال عصابة من امتی یقاتلون علیٰ امراللّٰہ قاھرین علیٰ عدوھم لا یضرھم من خالفھم حتیٰ تاتیھم الساعة وھم علیٰ ذلک))   

’’میری امت کاایک گروہ اللہ کے حکم کے مطابق قتال کرتا رہے گا ،یہ لوگ دشمنوں پر چھائے رہیں گے ،جس کسی نے ان کی مخالفت کی وہ انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا ،یہاں تک کہ قیامت آجائے اور اسی طریقے پر قائم رہیں گے۔‘‘

(صحیح مسلم،کتاب الامارة۔)



((من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین ‘ولا تزال عصابة من المسلمین یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناواھم الی یوم القیامة)) 

’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیدیتا ہے اور قیامت تک مسلمانوں میں سے ایک جماعت حق پر لڑتی رہے گی اور اپنے سے الجھنے والوں پر غالب رہے گی ۔‘‘

(صحیح مسلم۔)



’’ مسلسل میری امت میں سے ایک جماعت لڑتی رہے گی حق پر غالب رہے گی اپنے مخالفین پر یہاں تک کہ وہ آخر میں مسیح دجال (سے قتال کرے گی)‘‘

(ابوداؤد،با ب دوام الجھاد۔)



’’میری امت سے ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ حق کے لئے لڑتا اور غالب رہے گا ۔آخر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے اس (گروہ )کے امیر ان سے کہیں گے ’’آئیے ہماری امامت کیجئے‘‘تو وہ کہیں گے ’’نہیں اللہ نے اس امت کو یہ شرف بخشا ہے کہ تم ہی آپس میں ایک دوسرے کے امیر ہو‘‘۔

(مسلم واحمد ،بروایت عن جابر بن عبد اللّٰہ ؓ۔)




ترک جہاد پر قرآن و حدیث میں شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں
ترجمہ : اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوچ کرو تو زمین پر گرے جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو، دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے۔
)التوبۃ:۳۸()۲(

ترجمہ :اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کرےگا اور تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
)التوبۃ:۳۹()۳(

ترجمہ:اور تم اس فتنہ سے بچتے رہو جو تم میں سے خاص ظالموں پر ہی نہ پڑے گا، اور جان لو کہ بے شک اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔
) سورۃ الانفال آیت 25()۴(

ترجمہ :جو لوگ پیچھے رہ گئے وہ رسول اللہ کی مرضی کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوتے ہیں اور اس بات کو ناپسند کیا کہ اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہا کہ گرمی میں مت نکلو، کہہ دو کہ دوزخ کی آگ کہیں زیادہ گرم ہے، کاش یہ سمجھ سکتے۔سو وہ تھوڑا سا ہنسیں اور زیادہ روئیں، ان کے اعمال کے بدلے جو کرتے رہے ہیں۔سو اگر تجھے اللہ ان میں سے کسی فرقہ کی طرف پھر لے جائے پھر تجھ سے نکلنے کی اجازت چاہیں تو کہہ دو کہ تم میرے ساتھ کبھی بھی ہرگز نہ نکلو گے اور میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے نہ لڑو گے، تمہیں پہلی مرتبہ بیٹھنا پسند آیا سو پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔اور ان میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو، بےشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔)سورہ التوبہ آیت81/82/83/84(



حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم خرید و فروخت میں مشغول ہو جاؤ گے اور گائے کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی سے دل لگا لو گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط فرما دے گا اور اس وقت تک تم سے اس ذلت کو نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف نہیں لوٹ آؤ گے
۔)ابوداؤد(
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جب جہاد کو چھوڑ کر کھیتی باڑی اور اس طرح کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوں گےتو ذلت اور پستی ان کا مقدر بن جائے گی اور وہ اس ذلت سے اسی وقت چھٹکارا پاسکیں گے جب کافروں سے جہاد کریں گے ان سے نفرت اور سختی کا برتاؤ کریں گے، دین کو نافذ کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے اور کفر اور کافروں کو مغلوب کرنے کیلئے محنت کریںگے ] یاد رکھئے [ یہ سب کچھ ان کے ذمے ] اللہ تعالیٰ کی طرف سے [ لازم ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ 
حتی ترجعوا الی دینکم ] 
یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ[ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دنیا داری میں پڑکر جہاد کو چھوڑ دینا دین اسلام کو چھوڑنا اور اس سے الگ ہونا ہے ] استغفراللہ [ اسی سے اندازہ لگائیےکہ ترک جہاد کتنا بڑااور کھلا گناہ ہے۔٭ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایک بار جہاد کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حق ادا کردیا۔
جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر ہو ہم نے تو کافروں کیلئے آگ تیار کررکھی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ آپ سے یہ حدیث سننے کے بعد اب کون جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھے گا؟ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جہاد چھوڑے گا جس پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے دردناک عذاب تیار کررکھا ہوگا یہ آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو جہاد کو نہیں مانتے ہوں گے۔ میرے رب نے یہ عہد کر رکھا ہے اور اس عہد کو وہ نہیں توڑے گا کہ ان منکرین جہاد میں سے جو بھی اس سے ملے گا وہ اسے ایسا عذاب دے گا جو جہاں والوں میں سے کسی اور کو نہیں دے گا۔ یہ حدیث ابن عساکر نے روایت کی ہے۔ ] اور یہ حدیث بہت ضعیف ہے[٭ 
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک سال بعد لوگوں کو خطبہ دیا اس وقت آپ کاگلہ رونے کی وجہ سے رندھا ہوا تھا اور آپ فرما رہے تھے
اے لوگو! میں نے پچھلے سال اسی مہینے میں اسی منبر پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے جو قوم بھی اللہ کے راستے میں جہاد چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کردیتا ہے اور جو قوم امر بالمعروف اور نہی عنالمنکر چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمومی عذاب مسلط فرما دیتا ہے )شفاء الصدور
یہ حدیث بھی ضعیف ہے 
اسی روایت کو طبرانی نے اچھی سند کے ساتھ مختصر روایت کیا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمومی عذاب کو مسلط فرما دیتے ہیں۔
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے خلافت کی بیعت کی تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان فرمائی جس میں یہ الفاظ بھی تھے جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر فقر ]یعنی دوسروں کی محتاجگی [ کو مسلط فرما دیتے ہیں۔ اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ہم نے تو بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ جہاد نہیں کرتے مگر پھر بھی وہ اغنیاء ہیں ] یعنی کسی کے محتاج نہیں ہیں [ ۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے اصل غنی تو وہ ہے جس کا دل غنی ہو جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ
 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے پرواہی )اور وسعت( زیادہ مال و اسباب کی بدولت نہیں ہے بلکہ اصل بے پرواہی تو دل کی بے پرواہی ہے۔ ] کہ دل میں محتاجگی اور لالچ نہ ہو[۔
          آج ہم لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ جہاد چھوڑ کر اور مال غنیمت سے محروم ہو کر وہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں محتاجگی، حرص اور بخل کے امراض ڈال دئیے ہیں چنانچہ وہ اپنے مال کے واجب حقوق ] زکوٰۃ وغیرہ تک [ ادا نہیں کرتے بلکہ مختلف طریقوں سے حرام کھاتے ہیں جیسا کہ ناجائز ٹیکس ] رشوت [ وغیرہ اور دنیا کا ادنیٰ سے ادنیٰ مال بھی ان کی نظر میں بڑی اہمیترکھتا ہے اور حرص و لالچ نے انہیں ذلیل و رسوا کر رکھا ہے اگرتم ان کے حالات پر غور کرو تو ان میں سے اکثر کو دیکھو گے کہ وہ طرح طرح کی ذلتوں کا شکار ہیں اور وہ زیادہ پانے کی لالچ اور نقصان سے بچنے کیلئےمعلوم نہیں کس کس کے سامنے جھکتے ہیں اور کس کس کی بندگی کرتے ہیں اور اگر یہ لوگ غنی ہوتے تو انہیں کسی کے آگے جھکنے کی ضرورت کیوں پیش آتی یہ لوگ ظاہری طور پر اگرچہ مالدار نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں یہ فقیر اور محتاج ہیں، ظاہری طور پر یہ لوگ معزز ہیں مگر ذلت ان کے دل ودماغ پر مسلط ہوچکی ہےجبکہ وہ شخص جو اپنی روزی تلوار] مال غنیمت [ کے ذریعے حاصل کرتا ہے اسے اس طرح کی ذلت یا پریشانیوں کا بالکل سامنا نہیں ہوتا کیونکہ اسے جو کچھ ملتا ہے اس میں اللہ کے سوا کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ] اسی لئے وہ ہر کسی سے آزاد رہتا ہے [ اور پھرچونکہ مال غنیمت بغیر شبہہ کے خالص حلال مال ہے اس لئے اسے استعمال کرنے سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور لالچ، حرص، بخل وغیرہ جیسے اندھیرے خود بخود مٹ جاتے ہیں۔ چنانچہ مجاہد اگرچہ ظاہری طور پر غریب وفقیر نظر آتا ہے مگر اس کا دل غنی ہوتا ہے اس کے اوپر اگرچہ مسکینی کی چھاپ نظر آتی ہے لیکن اس کا دل عزت و عظمت کا دھنی ہوتاہے ] 

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شخص نے خود بھی جہاد نہ کیا اور نہ کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کیا اور نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کی اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے اسے کسی دردناک مصیبت میں مبتلا فرما دے گا 
) ابو داؤد(

’’سلمہ بن نفیل سے روایت ہے ‘کہتے ہیں کہ(فتح مکہ کے بعد)میں رسول اکرم ﷺ کی مجلس بابرکت میں بیٹھاتھا کہ ایک آدمی کہنے لگا: اللہ کے رسول لوگوں نے گھوڑے باندھ لئے ہیں اور ہتھیار رکھ دیئے ہیں کہتے ہیں اب کوئی جہادنہیں،بس اب جنگ ختم ہوچکی ہے۔رسول اکرم ﷺنے چہرہ مبارک آگے کیا ‘فرمانے لگے :’’جھوٹ کہتے ہیں، ابھی تو جنگ جاری ہے ‘میری امت میں تو ایک امت ہمیشہ حق پر قتال کرتی رہے گی ‘ان کیلئے اللہ کچھ قوموں کے د لوں میں ٹیڑھ پیدا کردے گا(تاکہ وہ ان سے لڑیں)مگر انہی سے ان کو رزق بھی فراہم کرے گا حتی کہ قیامت آجائے گی اور حتی کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا ‘اور قیامت تک کے لئے اللہ نے گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دی ہے(یعنی اب جہاد قیامت تک جاری رہے گا)‘‘۔ 

(سنن نسائی۔)



افسوس !آج مسلمان دنیا کے دھندوں میں مشغول ہوکر ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘کے اس مفہوم کوسرے سے بھو ل ہی گئے یا جہاد کے معانی ہی کو تبدیل کرکے اُس کو اپنے معانی پہنا دئے ،لہٰذا آج مسلمان ہر جگہ ظلم و ستم کا شکار ہیں ،قومیں ایک دوسرے کو اُن پر ٹوٹ پڑ نے کی دعوت دے رہی ہیں ۔
رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا:

’’جب تم سودی کاروبار کرنے لگ جاؤگے اور بیلوں کی دم کو پکڑے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاؤ گے اور((تَرَکْتُمُ الْجِھَادَ))جہاد کو چھوڑ دوں گے تو اللہ تم پر ذلت مسلط کردے گا اور اسے اس وقت تک دور نہیں کرے گا ،یہاں تک کہ تم اپنے ’’دین‘‘(یعنی جہاد فی سبیل اللہ)کی طرف لوٹ آؤ۔‘‘

’’قریب ہے کہ (کفر کی )قومیں تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دے کر بلائیں گی جس طرح بھوکے ایک دوسرے کو دستر خوان پر دعوت دے کر بلاتے ہیں‘‘۔اس پر ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ کیا اس وقت ایسا ہماری قلت ِ تعداد کی وجہ سے ہوگا ؟آپﷺنے فرمایا :’’(نہیں،)بلکہ اس وقت تو تم زیادہ تعداد میں ہوگے ،لیکن تم سیلابی پانی کے جھاگ کی طرح ہوگے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے ضرور ہی تمہاری ہیبت ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں ’’وھن‘‘ ڈال دیں گے۔‘‘تو پوچھنے والے نے پوچھا :یارسول اللہ!یہ وھن کیا ہوگا؟ فرمایا:

((حُبُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَةُ الْمَوْتِ ))

’’ دنیا کی محبت اور موت کو ناپسند کرنا ‘‘ ۔

ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں :صحابہ نے پوچھا :یارسول اللہﷺ!یہ وھن کیا ہوگا؟آپ ﷺ نے فرمایا :

(( حُبُّکُمُ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَتُکُمُ الْقِتَالَ))

’’تمہارا دنیا سے محبت کرنا ’’قتال‘‘ کو ناپسند کرنا ۔‘‘ 

(ابوداؤد باب کتاب الملاحم ، مسندِ احمد واسنادہ صحیح۔)


یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس فریضہ سے مختلف بہانوں اور تاویلات کرکے روکنے والے ’’آئمة المضلین‘‘سے مسلمانوں کو خبردار کردیا تھا:

’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا۔اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کےعلماء یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے ۔لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ’’جہاد کا بہترین زمانہ‘‘ہوگا ۔صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ!کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ’’ہاں وہ جس پر اللہ کی لعنت،فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو!یہی لو گ جہنم کا ایندھن ہوں گے‘‘۔ 

(السنن الواردة فی الفتن ج:۳ص:۷۵۱،کنز العمال۔)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں:جس شخص نے نہ جہاد کیا اور نہ اس نے دل سے جہاد کی سچی نیت کی وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرے گا ) مسلم(



حضرت ابو رجاء الجزری حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ ’’اب کوئی جہاد نہیں ہے ‘‘۔تو جب ایسا دور آجائے تو تم جہاد کرنا کیونکہ وہ’’ افضل‘‘جہاد ہوگا‘‘۔ 


(کتاب السنن ج :۲ص:۱۷۶۔)



1 comment:

  1. اعلیٰ ماشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاد کی راہ پر پھر سے کھڑا فرمائے آمین

    ReplyDelete