فہرست مضمون1: فرض کفایہ یا اقدامی جہاد
2: فرض کفایہ کی شرائط3: فرض عین یا دفاعی جہاد
4: قیدیوں کو چھڑوانا
جہاد فی سبیل اللہ کی اقسام و احکام
جہاد فی سبیل اللہ کی دو اقسام فقہا اور سلف نے یہ بیان کی ہیں:
1 ۔فرضِ کفایہ یا اقدامی جہاد
2۔ فرضِ عین یا دفاعی جہاد
فرضِ کفایہ یا اقدامی جہاد کے معنی اور اس کا شرعی حکم
اقدامی جہاد جس کو ’’جہاد الطلب ‘‘ بھی کہاجاتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ
’’طلب الکفار فی بلادھم‘‘،
یعنی خود جنگ کی ابتداء کر تے ہوئے کفار کے علاقے میں گھس کر ان پر حملہ کرنا ،جب کہ وہ مسلمانوں کے خلاف قتال کے لئے تیاری بھی نہ کررہے ہوں ۔ایسے حالات میں جہاد فرضِ کفایہ ہوتا ہے،جس کی ادائیگی کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ
(۱) سرحدوں پر اہل ایمان کی اتنی تعداد ہر وقت موجود رہے جو سرزمین اسلام کے دفاع اور اللہ کے دشمنوں پر دہشت بٹھانے کے لئے کافی ہو۔
(۲) سال میں کم از کم ایک مرتبہ مسلمان فوج کو کفار کے خلاف لڑنے کے لئے ضرور بھیجا جائے جبکہ کفار کا مسلمانوں کے خلاف کوئی لڑنے کا کوئی ارادہ بھی نہ ہو۔
لہٰذا مسلمانوں کے امام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ’’دار الحرب ‘‘ کی سمت لشکر روانہ کرے اور رعایا کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اما م کے ساتھ تعاون کرے ۔لیکن اگر امام کسی لشکر کو نہیں بھیجتا تو گناہ کا بوجھ اسی پر ہوگا۔
(حاشیة امام ابن عابدین الشامی :۳/۱۳۸۔)
اسی طرح فقہاء کرام سال میں ایک مرتبہ لشکر بھیجنے کے مسئلے کو ’’جزیے ‘‘کے مسئلے پر قیاس کرتے ہیں۔علمائے اصول فرماتے ہیں
’’الجھاد دعوة قھریة فتجب اقامة بقدر الامکان حتی لایبقی الامسلم او مسالم‘
’’جہاد قوت وغلبہ کے ذریعے دعوت پھیلانے کا نام ہے ۔پس جہاد کو استطاعت بھر قائم کرنا فر ض ہے یہاں تک کہ کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو مسلمان نہ ہویا پھر مسلمانوں سے مصالحت (یعنی جزیہ دینے پر ) آمادہ نہ ہوچکاہو۔‘‘
(حاشیة الشروانی وابن القاسم علی تحفة
المحتاج علی المنھاج :۹/۲۱۳۔)’
’ اقدامی جہاد ‘‘ کی چند شرائط
فقہائےکرام نے بیان کی ہیں جو درجِ ذیل ہیں
(۱) سرپرست کی اجازت ہو۔
(۲)بعض کے ہاں طاقت کا توازن ہو۔
(۳)امیرِ عام ہو۔
(۴)دعوت الی الاسلام ہو۔
یاد رہے جہاد جس’’دعوت‘‘پر موقوف ہے اس کے تین جملے ہیں :
(۱) اسلام قبول کرلو
(۲)جزیہ دو ،اگر نہیں
(۳)تو قتال کے لئے تیار ہوجاؤ۔
رسول الملاحم،حضرت محمدﷺ کی دعوت کیا تھی ؟
((امرت ان اقا تل الناس حتیٰ یقولوا:لاالہ الا اللّٰہ فقد عصم منی نفسہ ومالہ الا بحقہ ،وحسابہ علی اللّٰہ ))
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرو کہ وہ لاالہ الا اللہ کہیں۔پس جس نے لاالہ الا اللہ کہہ دیا تو اس نے اپنے جان ومال کو مجھ سے بچالیا،مگر کسی حق کے بدل ۔اور اس کا حساب اللہ پر رہے گا‘‘۔
(صحیح البخاری،کتاب الجھاد۔)
نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا اکثر جہاد اقدامی تھا۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو اقدامی جہاد کی تلقین فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اقدامی جہاد ہوتا رہے تو دفاعی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے لیکن جب مسلمان اقدامی جہاد کے فریضے غفلت کرتے ہیں تو انہیں دفاعی جہاد پر مجبور ہونا پڑتا ہے جیسا کہ اس دور میں ہو رہاہے۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ علمائے اصول کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ’’فرض کفایہ ‘‘مقرر مدت میں ادا نہ کیا جائے تو وہ ’’فرض عین ‘‘ہوجاتا ہے ،جیسے نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے لیکن اگر مقررہ مدت میں کچھ لوگ اسے ادانہ کریں تو پھر وہ تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہوجاتی ہے جب تک کہ کچھ لوگ اُس کو ادانہ کرلیں۔
دفاعی جہاد جس کو ’’جہاد الدفع‘‘ بھی کہتے ہیں ،اس سے مراد((دفع الکفار من بلادنا))’’کفار کو مسلمانوں کے علاقوں سے باہر نکالنے کے لئے جہاد۔دفاعی جہاد فرض عین، بلکہ’’ اہم ترین فرض عین ‘‘ہے ۔چار صورتیں ایسی ہیں جن میں دفاعی جہاد تعین کے ساتھ ہر ایک مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے
’اذا دخل الکفار بلدة من بلاد المسلمین ‘‘
’’جب کفار مسلمانوں کے کسی بھی علاقے میں گھس آئیں ‘‘۔
موجودہ دور کے کچھ دانشور حضرات جو کہ’’ریسرچ اور تحقیق‘‘کے شعبے سے وابستہ ہونے کے دعویدار ہیں ،اپنی تلبیسی استدلال کے ذریعے یہ بات عامۃ المسلمین میں پھیلارہے ہیں کہ جہاد اگر ’’فرض عین ‘‘ہوبھی جائے تو وہ تمام مسلمانوں پر کبھی ’’فرض عین ‘‘نہیں ہوتا بلکہ اس کی ادائیگی صرف مسلمان حکمران اور ان کی افواج پرفرض ہے ،عام مسلمانوں کی تو صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف تقریرو تحریر،پرنٹ میڈیا اور آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن سیاسی و احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کے ذریعے دباؤڈالیں مگر خود اس جہاد میں شریک ہونا اُن پر فرض نہیں ۔اسی طرح یہ ریسرچ اور تحقیق کے دعوے دار جہاد کے فرض عین کو صرف اُن مصنوعی لکیروں تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ معاہدہ سائیکس پیکونے ہمارے لئے کھینچی تھیں یا جان انتون نامی برطانوی یا کسی اور فرانسیسی کافر نے جن کا تعین کیا تھا!لیکن ان مفکرین کے ان تلبیسی استدلال اور تاویلات کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ۔عامۃ المسلمین کے لئے ان’’آئمة المضلّین‘‘سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔
چنانچہ اب ہم کچھ احادیث مبارکہ دیکھیں گے اور اس ضمن میں یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے سلف و صالحین و فقہاءکرام نے جہاد کے
فرضِ عین ہونے کو کیسے سمجھا ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے ،اس لئے نہ تو خود اس پر زیادتی کرے،اور نہ دوسروں کا نشانہ ٔ ظلم بننے کیلئے بے یارومددگار نہیں چھوڑدے۔‘‘
(بخاری۔مسلم۔)
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان بندے
کوکسی ایسے موقع پر بے یارومددگار چھوڑ دے گا ،جس میں اس کی عزت پر حملہ ہو ،اور اس کی آبرو اُتاری جارہی ہو ،تو اللہ تعالیٰ اس کوبھی ایسی جگہ اپنی مدد سے محروم رکھے گا جہا ں وہ اس کی مدد کا خواہش مند ہوگا ۔
(سنن ابی داؤد۔)
امام ابن تیمیہ

فرماتے ہیں
’’وأما قتال الدفع فھو اشد انواع دفع الصائل عن الحرمة والدین فواجب اجماعا،فالعدو الصائل الذی یفسد الدین وا لدنیا لاشیئ أوجب بعد الایمان من دفعہ،فلا یشترط لہ شرط(کلزاد والراحة)بل یدفع بحسب الامکان ،وقد نص علی ذلک العلماء ،أصحابنا و غیرھم۔
’’اور جہاں تک بات ہے ’’دفاعی قتا ل‘‘ کی تو حرمتوں اور دین پر حملہ آور دشمن کو پچھاڑنے کے لئے یہ قتا ل کی اہم ترین قسم ہے اور اسی لئے اس کے فرض ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ایمان لانے کے بعد سب سے’’اہم ترین فریضہ‘‘دین و دنیا کو برباد کرنے والے حملہ آور دشمن کو پچھاڑنا ہے ۔اس کی فرضیت کے لئے کوئی شرائط نہیں (مثلاً زادِراہ اور سواری موجود ہونے کی شرط بھی ساقط ہوجاتی ہے)بلکہ جس طرح بھی ہو دشمن کو پچھاڑا جائے گا ۔یہ بات علماءنے صراحتاً کہی ہے ،خواہ ہمارے مذہب ِ فقہی کے علماء ہوں ،یا دیگر فقہی مذاہب کے‘‘۔
(الفتاوی الکبری ۴/۵۲۰۔)
امام ابن عابدین شامی فرماتے ہیں کہ’
’اگر دشمن کسی بھی اسلامی سرحد پر حملہ آور ہوجائے تو (وہاں بسنے والوں پر )جہادفرضِ عین ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح ان کے قرب وجوار میں بسنے والے پر بھی جہاد فرضِ عین ہوجاتا ہے۔البتہ جولوگ ان سے پیچھے ،دشمن سے فاصلے پر بستے ہوں ،تو جب تک ان کی ضرورت نہ پڑجائے،مثلاً :جس علاقے پر حملہ ہوا ہے اس کے قرب وجوار میں رہنے والے لوگ دشمن کے خلاف مزاحمت کرنے میں بے بس ہوجائیں،یا بے بس تو نہ ہوں لیکن اپنی سستی کی وجہ سے جہاد نہ کریں ،تو ایسی حالت میں ان کے گرد بسنے والوں پر بھی جہاد ،نماز اور روزے کی طرح ’’فرضِ عین ‘‘ہوجاتا ہے اور اسے ترک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔پھر فرضیت کا یہ دائرہ اس کے بعد اور پھر اس کے بعد والوں تک حسب ضرورت پھیلتا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی تدریج سے بڑھتے ہوئے ایک وقت مشرق و مغرب میں بسنے والے ہر مسلمان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے‘‘۔
(حاشیة ابن عابدین :۳/۲۳۸۔)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
پس اگر دشمن مسلمانوں پر حملے کا ارادہ کرے تو اسے دفع کرنا سب پر فرض ہوگا ، اُن پر بھی جو حملے کا ’’ہدف‘‘ ہو اور اُن پر بھی جو حملے کو ہدف نہ ہوں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ
اور وہ اگر دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے‘‘۔
(الانفال:۷۲۔)
اور جیسا کہ نبی ﷺ نے بھی (کئی احادیث مبارکہ میں )مسلمانوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔یہ حکم سب کے لئے ہے ،خواہ کوئی باقاعدہ تنخواہ دار فوجی ہو یا عام مسلمان ،ہر ایک پر حسب استطاعت جان ،مال سے دفاعی جہاد کرنا فرض ہے ،چاہے (افراد اور اسلحہ کی )قلت ہو یا کثرت ،سواری میسر ہویا پیدل ہی نکلنا پڑے۔بالکل اسی طرح جیسے غزوۂ خندق کے موقع پر جب دشمن نے مسلمانوں کا رُخ کیا تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی‘‘۔
(مجموع الفتاویٰ :۲۸/۳۵۸۔)
مسلمانوں کے تمام علاقوں کو ایک ہی ملک‘‘قرار دیتے ہوئے امام ابن تیمیہ
فرماتے ہیں
جب دشمن اسلامی سرزمین میں گھس آئے تو بلا شبہ اسے نکال کر باہر کرنا قریبی آبادیوں پر،اور اگر وہ نہ کرسکیں تو اس کے بعد والی قریبی آبادیوں پر ’’فرض‘‘ ہوجاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کے تمام علاقوں کی حیثیت دراصل ایک ہی ’’ملک ‘‘ کی سی ہے۔ایسی حالت میں والد اور قرض خواہوں کی اجازت کے بغیر نکلنا فرض ہوجاتا ہے‘‘۔
(الفتاوی الکبریٰ :۴/۶۰۸۔)
امام عبداللہ عزام شہید نے اپنے مشہور فتوے میں فرمایا
اتفق السلف والخلف وجمیع الفقھاء والمحدثین فی جمیع العصور الاسلامیة أنہ:اذا اعتدی علی شبر من أراضی المسلمین أصبح الجھاد فرض عین علی کل مسلم ومسلمة ،بحیث یخرج الولد دون اذن والدہ والمرأة دون اذن زوجھا۔
تمام سلف و خلف اور اسلامی تاریخ کے ہر دور میں تمام فقہاء اور محدثین اس بات پر متفق رہے ہیں کہ
اگر مسلمانوں کے سرزمین کے کسی گز بھر حصے پر بھی حملہ ہو،تو جہاد ہر مسلمان مردو عورت پر ’’فرضِ عین‘‘ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں بیٹا باپ کی اور عورت
شوہر کی اجازت کے بغیر نکلیں گے‘‘۔
مقدمہ از ’’ایمان کے بعد اہم ترین فرضِ
عین ‘‘ص:۵۴۔
امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں
’’اور تمام مسلمانوں کے اعتقاد میں یقینی طور پر یہ بات ہے کہ’’ دارالاسلام ‘‘کی سرحدوں پر رہنے والے جب دشمن سے خوف زدہ ہوں اور دشمن کے مقابلے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور اپنے شہروں ،جانوں اور اہل خانہ کے بارے میں خوف کا شکار ہوں تو تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ ان کی مدد کے لئے اتنے لوگ نکلیں کہ جو دشمن سے دفاع کے لئے کافی ہوں اور یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں امت میں کوئی اختلاف نہیں ۔اس لئے کہ اس وقت کسی بھی مسلمان کا یہ قول نہیں ہوتا کہ ان کی مدد سے کنارہ کشی حلال ہے تاکہ کفار مسلمانوں کے خون اور ان کے بچوں کو قید کرنے کو حلال سمجھنے لگیں‘‘۔
(احکام القرآن:۴/۳۲۱۔)
درجِ بالا احادیث اورفقہا و سلف کے فتاویٰ و اقوال اور آخر میں امام جصاص نے امت کے اجماع واتفاق سے یہ فتویٰ جاری کیا کہ کفار سے خوف ہو اور خوف زدہ علاقے کے باشندے قوت و طاقت اور وسائل میں مقابلے کے لئے کافی نہ ہوں تو پوری امت پر ان سے تعاون اور دشمن سے ان کا دفاع فرض ہے۔
اب جبکہ بات ’’خوف ‘‘تک نہیں رہی بلکہ عملاً دنیا بھر کے کافر مسلمانوں کے خون ،مال،عزت اور اولاد سب کو مباح سمجھے ہوئے ہیں اور تختۂ مشق بنائے ہوئے ہیں تو ایسے وقت میں کیا جہاد کو ’’فرضِ کفایہ ‘‘ قرار دینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس فریضہ کی ادائیگی سے منہ موڑنے کے مترادف نہیں؟؟
’’اذا استنفر الامام افراداًأو قوماًوجب علیھم النفیر‘‘
’’جب امام کچھ افراد یا کسی قوم سے جہاد کے لئے نکلنے کا مطالبہ کرے ،تو ان سب پر فرض ہوجاتا ہے کہ نکلیں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اِذَااسُتَنْفَرْتُمْ فَانْفِرُوْا))
’’جب تم سے جہاد میں نکلنے کے لئے کہا جائے تونکل جاؤ‘‘۔
(صحیح بخاری:کتاب الجہاد والسیر:وجوب النفیر وما یجب من الجھاد والنیة۔)
جب مسلمانوں سے نکلنے کا مطالبہ ہوتو اس حکم کو شریعت کی اصطلاح میں ’’نفیر عام ‘‘کہا جاتا ہے اور یہ دو صورتوں میں فرض ہوجاتا ہے:
(۱) جب امام جہاد کے لئے پکارے یا
(۲) جب مسلمانوں کو مدد کی ضرورت پڑجائے ،خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے۔
اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ’موطا امام مالک ‘‘کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’یہ ضروری نہیں کہ کوئی خاص شخص مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکارے کہ آؤ جہاد کرو۔مقصود یہ ہے کہ ایسی حالت پیدا ہوجائے جو ’’نفیر‘‘ کا تقاضہ کررہی ہو۔پس جب کافر وں نے بلادِ اسلامیہ (پر حملے کا )قصد کیا اور مسلمانوں اورکافروں میں لڑائی شروع ہوگئی تو جہاد ’’فرض ‘‘ہوگیا،اور جب دشمنوں کی طاقت ان ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور مسلمانوں کی شکست کا خوف ہوا،تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانانِ عالم پر جہاد فرض ہوگیا ،خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے ۔یہی حال تما م فرائض کا ہے ۔نماز کا جب وقت آجائے تو خواہ مؤ ذن کی صدائے حی علی الصلوٰۃ سنائی دے یا نہ دے ،وقت کا آنا وجوب کے لئے کافی ہوتا ہے‘‘۔
اس مسئلے کو مزید واضح کرتے ہوئے
امام ابن العربی فرماتے ہیں
ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں جب ’’نفیرِ عام‘‘(یعنی ہر ایک کا نکلنا)فرض ہوجائے۔لہٰذا دشمن جب مسلمانوں کی کسی سرزمین پر حملہ آور ہوں یا ان کے کسی علاقے کو گھیر لے توجہاد ’’تعین ‘‘کے ساتھ ہر ایک پر فرض ہوجاتا ہے اور تمام لوگوں کے لئے جہاد کرنا اور اس کی خاطر گھروں سے نکلنا لازم ہوجاتا ہے ۔ایسے میں اگر وہ ادائیگی ٔ فرض میں کوتا ہی کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔پس اگر نفیرِ عام کا حکم اس وجہ سے ہوکہ دشمن ہمارے کسی علاقے پر قبضہ کرلے یا مسلمانوں کو پکڑ کر قیدی بنالے تو سب پر جہاد فرض ہوجاتا ہے کہ وجۂ جہاد کے لئے نکلیں،اور ہر حال میں نکلیں ،خواہ ہلکے ہو یا بوجھل،سوار ہوں یا پیدل ،غلام ہو یا آزاد.جس کے والد زندہ ہوں وہ ان کی اجازت کے بغیر نکلے اور جس کے والد فوت ہوچکے وہ بھی نکلے (اور جہاد کرتا رہے)یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب آجائے ،مسلمانوں کی سرزمین سے دشمن کا شر دور ہوجائے ،اسلامی سرحدیں محفوظ ہوجائیں ،دشمن رسوا ہوجائے ،سارے مسلمان قیدی آزاد ہوجائیں………اور اس بارے میں ان علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔
لیکن (سوال یہ ہے کہ)اگر سب لوگ ہی جہا د چھوڑ کر بیٹھے رہیں تو اکیلا بندہ کیا کرے؟اسے چاہیے کہ وہ کوئی قیدی تلاش کرے اورپیسے دے کر آزاد کرائے ،اور اگر قدرت رکھتا ہو تو اکیلا ہی قتال کرے اور اگر اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو کسی مجاہد کوتیار کرے اور اسے سامان فراہم کرے‘‘۔
(احکام القرآن:۲/۹۵۴۔)
امام ابن قدامہ بھی فرماتے ہیں:
’’فان عدم الامام لم یؤخر الجھاد لأ ن مصلحتہ تفوت بتأ خیرہ‘‘
’’پس امام کی عدم موجودگی کی وجہ سے جہاد مؤخر نہ ہوگا ،کیونکہ تاخیر کرنے سے جہاد کی مصلحت فوت ہوجائے گی‘‘۔
(المغنی :۸/۲۵۳۔)
’’اذا أسر الکفار مجموعة من المسلمین‘‘
’’جب کفار کچھ مسلمانوں کو قید کرلیں ‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((فُکُوْ الْعَانِیْ))
’’قیدیوں کو رہا کرواؤ‘‘(بخاری۔)
امام قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’قیدیوں کو چھڑانا مسلمانوں پر واجب ہے،چاہے قتال کے ذریعے چھڑائیں یا اموال خرچ کرکے چھڑائیں ،اور مال کے ذریعے چھڑانا زیادہ واجب ہے کیونکہ مال خرچ کرنا اپنی جانیں کھپانے سے کم تر اور زیادہ آسان ہے‘‘۔
(تفسیر القرطبی،سورة النساء: ۷۵۔)
امام المجاہدین عبد اللہ بن مبارک اپنے اشعار میں فرماتے ہیں :
کیف القرار و کیف أ مسلم والمسلمات مع العدوالمعتدی
قرار کہاں ہے ؟اور ایک مسلمان پرسکون کیسے ہوسکتا ہے جب کہ مسلمان عورتیں سرکش دشمن کی قید میں ہیں۔
الضاربات خدودھن برنة الداعیات نبیھن محمد
جو چیخ وپکار کے ساتھ اپنے رخسار پیٹتی ہیں اور اپنے نبی محمد ﷺ کو پکار تی ہیں ۔
القائلات اذا خشین فضیحة جھدالمقالة لیتنا لم نولد
ذلت و رسوائی کے خوف سے وہ سخت ترین بات کہتی ہیں کہ اے کاش!ہم پید اہی نہ ہوتیں۔
مانستطیع ومالھا من حیلة الا التستر من اخیھا بالید
نہ وہ طاقت رکھتی ہیں اور نہ ہی کوئی حیلہ کرسکتی ہیں سوائے اس بات کے کہ ہاتھ کے ساتھ اپنے بھائی سے پر دہ کریں۔
سیر اعلام النبلاء 408/8.

No comments:
Post a Comment