کیلئے کتنی سخت وعید، کتنی بڑی رسوائی اور کتنا دردناک وبال ہے یہ آیات اگرچہ کچھ خاص ]منافق[ لوگون کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن ان میں ان تمام افراد کے لئے سخت تنبیہ اور وعیدہے جو ان منافقوں جیسے کام کریں گے اور منافقوں کی طرح فرض جہاد سے پیچھے رہ جائیں گے۔ بس اسی سے اندازہ لگا لو کہ جہاد کا چھوڑنا کتنا برا کام ہے ]کہ مسلمان کو منافقوں کی صف میں شامل کردیتا ہے [ اور اس پر کتنی سخت وعید ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم خرید و فروخت میںمشغول ہو جاؤ گے اور گائے کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی سے دل لگا لو گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت کو مسلط فرما دے گا اور اس وقت تک تم سے اس ذلت کو نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف نہیں لوٹ آؤ گے۔)ابوداؤد(مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جب جہاد کو چھوڑ کر کھیتی باڑی اور اس طرح کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوں گےتو ذلت اور پستی ان کا مقدر بن جائے گی اور وہ اس ذلت سے اسی وقت چھٹکارا پاسکیں گے جب کافروں سے جہاد کریں گے ان سے نفرت اور سختی کا برتاؤ کریں گے، دین کو نافذ کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے اور کفر اور کافروں کو مغلوب کرنے کیلئے محنت کریںگے ] یاد رکھئے [ یہ سب کچھان کے ذمے ] اللہ تعالیٰ کی طرف سے [ لازم ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ حتی ترجعوا الی دینکم ] یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ[ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دنیا داری میں پڑکر جہاد کو چھوڑ دینا دین اسلام کو چھوڑنا اور اس سے الگ ہونا ہے ] استغفراللہ [ اسی سے اندازہ لگائیےکہ ترک جہاد کتنا بڑااور کھلا گناہ ہے۔٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایک بار جہاد کیا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حق ادا کردیا۔فَمَنْ شَآئَ فَلْےُؤْ مِنْ وَمَنْ شَآئَ فَلْےَکْفُرْ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِےْنَ نَارًا۔]جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر ہو ہم نے تو کافروں کیلئے آگ تیار کررکھی ہے[ حضرت انسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ آپ سے یہ حدیث سننے کے بعد اب کون جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جہاد چھوڑے گا جس پر اللہ کی لعنتاور اس کا غضب ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے دردناک عذاب تیار کررکھا ہوگا یہ آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو جہاد کو نہیں مانتے ہوں گے۔ میرے رب نے یہ عہد کر رکھا ہے اور اس عہد کو وہ نہیں توڑے گا کہ ان منکرینجہاد میں سے جو بھی اس سے ملے گا وہ اسے ایسا عذاب دے گا جو جہاں والوں میں سے کسی اور کو نہیں دے گا۔ یہ حدیث ابن عساکر نے روایت کی ہے۔ ] اور یہ حدیث بہت ضعیف ہے[٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکے بارے میں روایت ہے کہ آپ نےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ایک سال بعد لوگوں کو خطبہ دیا اس وقت آپ کاگلہ رونے کی وجہ سے رندھا ہوا تھا اور آپ فرما رہے تھے: اے لوگو! میں نے پچھلے سال اسی مہینے میں اسی منبر پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے جو قوم بھی اللہ کے راستے میں جہاد چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کردیتا ہے اور جو قوم امر بالمعروف اور نہی عنالمنکر چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمومی عذاب مسلط فرما دیتا ہے )شفاء الصدور( ]یہ حدیث بھی ضعیف ہے [اسی روایت کو طبرانی نے اچھی سند کے ساتھ مختصر روایت کیا ہے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمومی عذاب کو مسلط فرما دیتے ہیں۔امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے خلافت کی بیعت کی تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان فرمائی جس میں یہ الفاظ بھی تھے جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر فقر ]یعنیدوسروں کی محتاجگی [ کو مسلط فرما دیتے ہیں۔ اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ہم نے تو بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ جہاد نہیں کرتے مگر پھر بھی وہ اغنیاء ہیں ] یعنی کسی کے محتاج نہیں ہیں [ ۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے اصل غنی تو وہ ہے جس کا دل غنی ہو جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے پرواہی )اور وسعت( زیادہ مال و اسباب کی بدولت نہیں ہے بلکہ اصل بے پرواہی تو دل کی بے پرواہی ہے۔ ] کہ دل میں محتاجگی اور لالچ نہ ہو[ آج ہم لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ جہاد چھوڑ کر اور مال غنیمت سے محروم ہو کر وہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں محتاجگی، حرص اور بخل کے امراض ڈال دئیے ہیں چنانچہ وہ اپنے مال کے واجب حقوق ] زکوٰۃ وغیرہ تک [ ادا نہیں کرتے بلکہ مختلف طریقوں سے حرام کھاتے ہیں جیسا کہ ناجائز ٹیکس ] رشوت [ وغیرہ اور دنیا کا ادنیٰ سے ادنیٰ مال بھی ان کی نظر میں بڑی اہمیترکھتا ہے اور حرص و لالچ نے انہیں ذلیل و رسوا کر رکھا ہے اگرتم ان کے حالات پر غور کرو تو ان میں سے اکثر کو دیکھو گے کہ وہ طرح طرح کی ذلتوں کا شکار ہیں اور وہ زیادہ پانے کی لالچ اور نقصان سے بچنے کیلئےمعلوم نہیں کس کس کے سامنے جھکتے ہیں اور کس کس کی بندگی کرتے ہیں اور اگر یہ لوگ غنی ہوتے تو انہیں کسی کے آگے جھکنے کی ضرورت کیوں پیش آتی یہ لوگ ظاہری طور پر اگرچہ مالدار نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں یہ فقیر اور محتاج ہیں، ظاہری طور پر یہ لوگ معزز ہیں مگر ذلت ان کے دل ودماغ پر مسلط ہوچکی ہےجبکہ وہ شخص جو اپنی روزی تلوار] مال غنیمت [ کے ذریعے حاصل کرتا ہے اسے اس طرح کی ذلت یا پریشانیوں کا بالکل سامنا نہیں ہوتا کیونکہ اسے جو کچھ ملتا ہے اس میں اللہ کے سوا کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ] اسی لئے وہ ہر کسی سے آزاد رہتا ہے [ اور پھرچونکہ مال غنیمت بغیر شبہہ کے خالص حلال مال ہے اس لئے اسے استعمال کرنے سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور لالچ، حرص، بخل وغیرہ جیسے اندھیرے خود بخود مٹ جاتے ہیں۔ چنانچہ مجاہد اگرچہ ظاہری طور پر غریب وفقیر نظر آتا ہے مگر اس کا دل غنیہوتا ہے اس کے اوپر اگرچہ مسکینی کی چھاپ نظر آتی ہے لیکن اس کا دل عزت و عظمت کا دھنی ہوتاہے ] اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی اکافرین [٭یہ تو مجاہد کا حال ہوا لیکن اس کے برعکس وہ لوگ جو مشتبہ طریقوں سے مال کماتے ہیں اور اپنیلالچی طبیعت کی وجہ سے مخلوق کے محتاج ہوتے ہیں وہ ظاہری طور پر معزز نظر آتے ہیں مگر طرح طرح کی ذلتیں ان کے دلوں پر براجمان ہوتی ہیں۔٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے راستے میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور جو شخص جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیگا اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کردے گا اور مصیبتیں اس پر چڑھ دوڑیں گی اور پستی اس پر چھا جائے گی اور وہ مشقت کی تکلیفمیں ڈالا جائے گا اور اپنا حق لینے ] یعنی انصاف [ سے محروم کر دیا جائے گا۔)شفاء الصدور(٭ حضرت اسلم رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہاد ہمیشہ میٹھا ] پسندیدہ[ اور تروتازہ رہے گا جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی اور لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا جب ان میں سے کچھ قرآن پڑھنے والے لوگ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے پس جوشخص اس زمانے کو پائے ] تو یاد رکھے کہ [ وہی زمانہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب جہاد کا زمانہ نہیں رہا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ لوگ یہ بات کہیں گے جن پر اللہ کی بھی لعنت ہوگی اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی بھی۔ )شفاء الصدور(٭ حضرت ابن عمرو القرشی سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک گناہگار آدمی کے گناہ اسے جہاد سے اسی طرح روکے رکھتے ہیں جس طرح قرض خواہ اپنے مقروض کو۔)شفاء الصدور(٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیانفرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں مر گیا کہ نہ تو اس نے جہاد کیا اور نہ اس کےدل میں جہاد کا شوق ابھرا تو وہنفاق کے ایک حصے پر مرا۔)صحیح مسلم(٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے )خود بھی( جہاد نہ کیا اور نہ کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کیا اور نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوں کی بھلائیکے ساتھ دیکھ بھال کی تو اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے اسے کسی مصیبت میں مبتلا فرما دیں گے۔)ابوداؤد۔ ابن ماجہ(مکحول )موقوفاً( روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ جس گھر ] یعنی خاندان [ میں سے کوئی بھی جہاد میں نہ نکلے اور نہ وہ کسی مجاہد کو سامان جہاد فراہم کریں اور نہ کسی مجاہد کے پیچھے اس کے گھر والوںکی دیکھ بھال کریں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے ان کو کسیسخت مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔ )مصنف عبدالرزاق(فائدہ ۔ ۔ ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اگر سارے لوگ جہاد سے عمومی طور پر غفلت کررہے ہوں تو اس وقت ] ان وعیدوںسے بچنے کیلئے اور جہاد کے فریضے کو اداء کرنے کیلئے[ اکیلاآدمی کیا کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس اکیلے آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی ایک مسلمان قیدی کا فدیہ دیکر اسے کافروں سے چھڑالے۔ اس طرح اس نے اس سے زیادہ کام کیا جتنا وہ اور لوگوں کےساتھ مل کر کر سکتا تھا کیونکہ اگر کئی لوگ مل کر اس قیدی کو چھڑاتے تو سب کے ذمے تھوڑا تھوڑا مال آتا مگر اب اس شخص نے اکیلے وہ سارا مال اداء کیا ] اور خوب اجر کمایا [ اسی طرح اسے چاہئے کہ اگر ممکن ہو تو اکیلا نکل کر لڑے یاپھر کسی مجاہد کو سامان جہاد اور خرچہ وغیرہ فراہم کرے۔)الجامع لاحکام القرآن(
اے مسلمان تجھے کس چیز نے جہاد سے روک رکھا ہے؟اے جہاد کے فریضے کو چھوڑنے والے، اے توفیق اور حق کے راستوں سے ہٹنے والے تو کن محرومیوں میں جاگرا ہے اور کس قدر حق سے دورجا پڑا ہے کاش تو بھی بہادروں کے ساتھ معرکوں میں حصہ لیتا تو بھی اللہ کے راستے میں جان ومال لٹاتا مگر تجھے اس سعادت سے روک رکھا ہے یا تو لمبی امیدوں نے یا موت کے خوف نے یا تجھ پر اپنے محبوب مال اور خاندان کی جدائی شاق ہے یا تیرے لئے اپنےبیٹوں، خادموں اور اہل خاندان کے جھرمٹ سے نکلنا مشکل ہے۔ اے جہاد سے محروم رہنے والے یا تو تیری محرومی کا سبب تیرا کوئی پیارا بھائی یا محبوب دوست ہے یا پھر تو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے میں ایسا لگ گیا ہے کہ جہاد تجھے یاد بھی نہیں رہا۔یا تو اپنی خوبصورت اور باوقار بیوی کی وجہسے رکا ہوا ہے یا تیری عزت اور تیرا منصب تیرے پاؤں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ یا تو اپنی خوبصورت کوٹھی اور سائے دار باغات میں مست ہوچکا ہے یا پھر شاہانہ لباس اور لذیذ کھانے تجھے جہاد میں نہیں نکلنے دیتے۔ ان چیزوں کے علاوہ اور کچھ ایسا نہیںجو تجھے تیرے رب سے دور کردے اور اگر ان چیزوں نے تجھے تیرے رب سے دور کررکھا ہے تو یہ تیرے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ کیا تو نے اپنے رب کا یہ فرمان نہیں سنا :)ترجمہ( اے ایمان والو! تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں]جہاد کیلئے [ نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو۔ سو دنیا کی زندگی کا نفع اٹھانا تو آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے۔)التوبہ:۳۸(تنبیہ : غور سے سنو! ان ناقابل تردید دلائل کو جو میں تمہیں بتارہا ہوں اور غور کرو ان واضح دلیلوںپر جو میں تمہیں سنا رہا ہوں تب تمہیں یقین ہوجائے گا کہ تمہیں جہاد سے روکنے والی سوائے تمہاری محرومی اور بدنصیبی کے اور کوئی چیز نہیں ہے اور تمہارے پیچھے رہ جانے کا سبب نفس اور شیطان کے سوااور کوئی نہیں ہے۔ اگر تو جہاد سے اس لئے دور ہے کہ تو نے لمبی لمبی امیدیں باندھ رکھی ہیں اور اچانک موت سے ڈرتا ہے تو تو ایسی چیز سے بچنے کی کوشش کررہا ہے جس سے تو کبھی نہیں بچ سکتا اور تو ایسے راستے ] یعنی موت[ سے ڈررہا ہے جس پر تو نے ایک دن چلنا ہی ہے اللہ کی قسم میدانوں میں آگے بڑھ کر لڑنے سے عمر کم نہیں ہوتی اور نہ جہاد چھوڑنے سے عمر بڑھ جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:) ۱ (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ۔) الاعراف:۳۴ (اور ہر ایک فرقے کیلئے ]موت کا [ ایک وقت مقر ر ہے جب وہ آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کر سکتے ہیں نہ جلدی۔دوسری جگہ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے:) ۲ (وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونََ۔) المنافقون ۔ ۱۱ (اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو خدا اس کو ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:) ۳ (كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ۔)العنکبوت:۵۷(ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے۔اے دھوکے میں پڑے ہوئے انسان!یاد رکھ موت کی ایک خاص سختی ہوتی ہے اور روح نکلنے کا وقت بہت سخت ہے لیکن تم اسے ابھی نہیں سمجھتے اور قبر میں عذاب بھی ہوتا ہے اور اس عذاب سے صرف نیک لوگ محفوظرہتے ہیں۔ قبر میں دو سخت فرشتےسوال بھی کریں گے ] تب کیا ہوگ اسے قرآن مجید ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے ۔[) ۴ (يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ۔)ابراہیم:۲۷(خدا مومنوں)کے دلوں( کو )صحیح اور( پکی بات سے دنیا کی زندگیمیں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی )محفوظ رکھے گا( اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کردیتا ہے۔پھر اس خوفناک منظر کے بعد خوش قسمت لوگ ہمیشہ کی نعمتوں اور بدنصیب لوگ سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں گے مگرشہید کے لئے امن ہی امن ہے اوراسے مذکورہ بالا خطرناک حالات میں سے کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شہید کو قتل کے وقت صرف اتنا درد ہوتا ہے جتنا چیونٹی کے کاٹنے کا۔)ترمذی، نسائی، ابن ماجہ(اے مسلمان بھائی! اب کونسی چیز ہے جو تجھے اس سعادت کو حاصل کرنے سے روک رہی ہے جسے پانے کے بعد تو عذاب قبر سے بھی بچ جائے گا اور اللہ کے ہاں بھی کامیاب ہو کر بہترین ٹھکانا پائے گا اور قبر کے سوال سے بھی محفوظ رہے گا۔ اور اس کے بعد کی شدتاور ہولناکیوں سے بھی تیری حفاظت رہے گی کیونکہ شہداء تو زندہ ہوتے ہیں اپنے رب کی طرفسے ملنے والی روزی کھاتے پیتےہیں نہ انہیں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم وہ تو ان نعمتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں سے کھاتے پیتے ہیں۔ دیکھو کتنا بڑا فرق ہے شہادت کی عزت والیموت اور بستر کی دردناک موت کے درمیان ۔ ۔ ۔اگر تم یہ کہتے ہو کہ میرا خاندان اور میرا مال میرے بچے اور میرے عیال مجھے جہاد سے روک رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ واضح فرمان سن لو:)۵(وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى)سبا:۳۷(اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں۔اور یہ فرمان بھی تمہارے سامنے رہنا چاہئے:) ۶ (زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ۔)آل عمران:۱۴(لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہے ] مگر [ یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں۔ اور اللہ کے پاس بہت اچھا ٹھکانا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:) ۷ (اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الأمْوَالِ وَالأوْلادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُالْغُرُورِ۔)الحدید:۲۰(جان لو! دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت )و آرائش( اور تمہارے آپس میں فخر)وستائش( اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب )وخواہش( ہے )اس کی مثال ایسی ہے( جیسے بارش کہ )اس سے کھیتی اگتی اور( کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر )اے دیکھنے والے( تو اس کو دیکھتا ہے کہ)پک کر( زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں)کافروں کیلئے( عذاب شدید اور)مومنوں کیلئے( اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔٭ حدیث شریف میں ہے کہ اگر دنیا کی قدروقیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تووہ کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔ )ترمذی(٭ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جنت کی تم میں سے کسی ایک کے کوڑے جتنی جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں ایک صبحو شام کا لگانا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سے بہتر ہے۔ )صحیح بخاری(] اے جہاد چھوڑنے والے[ کیا تجھے اس عظیم الشان بادشاہت] جو تجھے جنت میں ملے گی [ سے وہی رشتے دار روک رہے ہیں جو کچھ عرصہ بعد مرجائیں گے یا آپس کے اختلافات میںپڑ کر جدا جدا ہو جائیں گے یا انہیں زمانے کے مصائب بکھیر دیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یادرکھ کہ جب تو ان رشتے داروں کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتا تو وہ تیرے مخالف ہو جاتے ہیں اور جب تیرے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ تجھے چھوڑ دیتے ہیں اور حالات کے تھپیڑے ان کے دل سے تیری محبت کو نکال دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کی طرح تیرے رشتے دار بھی قیامت کے دن تجھ سے بھاگتے پھر رہے ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہشہوگی کہ وہ اپنے سارے گناہ اور بوجھ تیرے سر ڈال کر خود نجاتپا جائے ] تو کیا یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی تو نے ان رشتے داروں کی خاطر جہاد چھوڑ کر محرومی کو گلے لگا رکھاہے۔[کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مال کیمحبت تجھے آڑے آرہی ہو جس کے ہوتے ہوئے سب تیرے ہوتے ہیں اور اگر وہ تیرے پاس نہ ہو تو بہت سارے اپنے بھی جدا ہوجاتے ہیں ہاں وہی مال جس کے بارے میں تجھ سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ یہ کہاں سے کمایا تھا اور کہاں خرچ کیاتھا وہی قیامت کا دن جس میں خوف کی وجہ سے بچے بوڑھےہوجائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اس دن مجرموں کی شناخت ہوجائے گی اور انہیں چوٹی کے بالوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا۔ ہاں وہی قیامت کا دن جس میں مالدار لوگوں سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا جبکہ فقراء مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوکر مزے اڑائیں گے مگر اے مالدار! اس دن تو اپنے مال کی وجہ سے روک لیا جائے گا اور تیرے لئے خطرہ ہوگا کہ کہیں تو دوزخ کے داروغے مالک کے حوالے نہ کردیا جائے۔اے مسلمان کیا تو اس مال کی جدائی گوارا نہیں کرتا جو اگر تیرے پاس تھوڑا ہو تو تیری فکریں اور تکلیفیں کم ہوجاتی ہیں اور اگر وہ زیادہ ہو تو وہ تجھے سرکش بنا دیتا ہے اور اگر تو مر جائے تو یہ مال تیرے پیچھے تیری رسوائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ آج اگر تو دنیا کے دھوکے میں آکر اسی پر جھکا ہوا ہے تو یاد رکھ تو نے ایک نہ ایک دن اسے چھوڑنا ہے۔٭ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں دنیا کی پوری حقیقت نہ دکھاؤں؟ میںنے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مدینے کی وادیوں میں سےایک وادی میں ایک کوڑے کے ڈھیر پر لے آئے اس )کوڑے کے ڈھیر( میں مردہ انسانوں کی کھوپڑیاں، انسانی غلاظتیں، پرانے چیتھڑے اور مردہ جانوروں کی ہڈیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ یہ سر)کسی زمانے میں( انہیں چیزوں کا حرص رکھتے تھے جن کا حرص تم رکھتے ہو اور ان سروں میں وہ ساری امیدیں ] اور امنگیں[ روشن تھیں جو آج تم نے لگا رکھی ہیں مگر آج یہ سر بغیر کھال کے ہڈیاں ہیں پھر کچھ عرصے بعد یہ گل کر خاک ہوجائیں گی اور یہ غلاظتیں ان کے رنگا رنگ کھانے ہیں جنہیں انہوں نے جہاں سے ہو سکا کمایا پھر ان کھانوں کو اپنے پیٹ میں ڈال دیا اور وہ اس شکل میں ہوگئے کہ اب لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں اور یہ بوسیدہ چیتھڑے ان کے زیب و زینت والے عمدہ لباس تھے مگر آج ہوائیں انہیں اڑاتی پھر رہی ہیں اور یہ ہڈیاں ان کے وہ جانور تھے جن پر وہ ملکوں اور شہروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ پس جو دنیا پر رونا چاہے اسے چاہئے کہ روئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم برابر روتے رہے یہاں تک کہ ہمارا رونا شدت پکڑ گیا۔ )احیاء علوم الدین(اور اگر تو اپنے پیارے بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو کر ] جہاد سے دور ہے [ تو اللہ کے اس فرمان کویاد رکھ:) ۸ (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُعِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ۔ )التغابن۔۱۵(تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور اللہ کے ہاں بڑا اجرہے۔اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ہر بیٹے پر اس کے ماں باپ ،بھائی اور چچا سے زیادہ شفیق ہے تم بتاؤ جب یہ بچہ باپ کی پیٹھ میں اورماں کے پیٹ کے اندھیروں میں تھا تو وہاں اس کی پرورش تم کررہے تھے یا اللہ تعالیٰ؟ ذرا سوچو کیا تمہارا وہی بیٹا تمہیں آج جنت کی نعمتوں اور اللہ کے قرب سے دور کررہا ہے جو اگر چھوٹا ہو تو تم اس کے بارے میں پریشان رہتے ہو۔ جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو تم اس کے غم میں مبتلا ہوتے ہو اگر وہ صحت مند ہوتا ہے تو تمہیں اس کا خدشہ لگا رہتا ہے اگر وہ بیمار ہوجائے تو تمہارا دل صدمے میںمبتلا ہوجاتا ہے تم اگر اسے تنبیہ کرتے ہو تو وہ غصے ہوتا ہے اور بدکتا ہے اگر تم اسے نصیحت کرتے ہو تو پریشان اور غمگین ہو جاتا ہے اور تو اور تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا بھی لگا رہتا ہے کہ دوسروں کے لڑکوں کی طرح وہ بھی تمہارا مکمل نافرمان نہ ہوجائے۔ تم میدان جنگ میں آگے بڑھنا چاہو تو بیٹے کی یاد تمہیں بزدل بنا دیتی ہے اگر تم سخاوت کرنا چاہو تو اس کی فکر تمہیں بخیل بنا دیتی ہے اوراگر تم دنیا سے بے رغبت ہونا چاہو تو وہ تمہیں دنیاداری میں لگا دیتا ہے اس کی وجہ سے تمہارے اوپر بڑی آزمائشیں آتی ہیںجبکہ تم اسے ایک احسان شمار کرتے ہو اس کی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں جبکہ تم اسے بھی نعمت سمجھتے ہو۔ تم خود کو غم میں ڈال کر اسے خوش رکھتے ہو اور اپنا گھاٹا کر کے اسے نفع پہنچاتے ہو اور اپنی جیب ہلکی کرکے اس کی جیب بھرتےہو اور اس کی خاطر طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہو اور اس کی وجہ سے تنگی میں پڑے رہتے ہو۔ اے ] غافل [ مسلمان! اپنے بیٹے کی فکر اپنے دل سے نکال کر اسے اس کے سپرد کردے جس نے تجھے بھی پیدا کیا اور اسے بھی۔ اور اپنے پیچھے اس کی روزی کے بارے میں اس پر بھروسہ کر جو اس کا بھی رازق ہے اور تمہارا بھی۔ آج اگر تم نے اسے اللہ کے سپرد نہ کیا تو مرنے کے بعد تو تم اسے کچھ بھی نہیں دے سکتے تب بھی وہ اللہ ہی کے سپرد ہوگا۔وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ۔)المائدہ:۱۸(اللہ کی قسم تم نہ تو اپنے نفع نقصان اور زندگی موت کے مالک ہو اور نہ اس کی۔ تم تو اس کی عمر اور روزی میں تھوڑا سا اضافہ بھی نہیں کر سکتے تمہیں جب اچانک موت اپنا لقمہ بنالے گیتو تم اپنی قبر میں جالیٹو گے اورا پنے اعمال میں گرفتار ہوجاؤ گے۔اور تمہارا پیارا بیٹا تمہارے بعد یتیم ہوجائے گا اور تمہارے وہ وارث جو زندگی میں تمہارے دوست رہے ہوں یا دشمن تمہارا سارا مال تقسیم کرلیں گے اور تمہارے اہل و عیال بکھر جائیںگے تب تم کہو گے ہائے کاش میں بھی شہداء کے ساتھ ہوتا اور بڑی کامیابی پاتا۔ تب تجھ سے کہا جائے گا کہ وہ کامیابی تو بہت دور ہوگئی اور تو ان سعادتوں سے محروم ہوکر بڑی حسرتوں میں جا پڑا اور اب تو اپنی نیکیوں اور گناہوں کے ساتھ تنہا ہوگیا۔اے غافل مسلمان! ذرا غور سے سن اللہ تعالیٰ تجھے ان دھوکوں سے نکالنے کیلئے جن میں تو پڑا ہوا ہے کیا تنبیہ فرما رہے ہیں:) ۹ (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ۔)لقمان:۳۳(لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آسکے بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا )شیطان( تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔یاد رکھ تیرا بیٹا اگر خوش بختوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے اور اسے جنت میں عنقریب اکٹھا فرما دیں گے اور اگر وہ بدبخت ہے تو ابھی سے یاد رکھ کہ جنت والے دوزخ والوں کے ساتھ اور خیر والے شروالوں کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوتے۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ تجھے شہادت کا رتبہ عطا فرمائیں تو قیامت کے دن تو اس کی شفاعت کر سکے اور تیری آج کی اس سےجدائی اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔اے مسلمان! اس چیز کی اپنے اندر حرص پیدا کر اور اس میں خوب محنت کر جو تجھے عذاب سے بچا سکے ورنہ کل تویہ حال ہوگاکہ :) ۱۰ (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ۔)عبس ۳۴۔ ۳۷ (اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے۔ ہر شخص اس روز ایک فکر میں ہوگا جو اسے)مصروفیت کیلئے( بس کرے گا۔بے شک یہ بالکل واضح بیان ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے۔] اے جہاد سے غفلت کرنے والے [ اگر تجھے اپنے کسی بھائی یا قریبی دوست یا محبوب رشتے دارکی جدائی گوارہ نہیں ہے تو پھر تو خود کو قیامت کا یہ سچا منظر یاد دلا:) ۱۱ (الأخِلاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلا الْمُتَّقِينَ۔ )الزخرف:۶۷()جو آپس میں( دوست )ہیں( اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار )کہ باہم دوست ہی رہیں گے(اگر تیری دوستی اللہ کیلئے ہے توپھر تم دونوں جنت کے اونچے مقامات پر اکٹھے ہوجاؤ گے ہاں! ان نعمتوں میں جو ہمیشہ رہنے والی ہوں گی اور اگر یہ دوستی اللہ کیلئے نہیں ہے تو پھر اس دن سے پہلے اس دوستی کو توڑ دو جس دن ہر شخص کا حشر اس کے یاروں کے ساتھ ہوگا۔ قیامت کے دن تو ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا اگر وہ اللہ سے ڈرنے والا ہے تو تمہیں فائدہ پہنچائے گا اور اگر وہ خود بدبخت ہے تو پھر تمہیں بھی نقصان پہنچائے گا اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ اس دنیاکے اکثر دوست ظالم اور بے وفا نکلتے ہیں اور مصیبت کے وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ان میں سے اکثر اس وقت تک دوست ہیں جب تک تم خوش حال ہو، مالدار ہو۔ اوراگر تم تنگ دستی کا شکار ہوئے تو وہ تمہارے دشمن ہوجائیں گےاور امتحان کے وقت تجھ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کردیں گے اگر تمہیں ان باتوں میں شک ہے تو کڑے امتحان کے بعد تمہیں ان پر ضرور یقین آجائے گا ہاں اگر اس برے ماحول میں بھی تمہیںاتفاقاً کوئی مخلص دوست مل گیا ہے جو وفا کا پکا اور دوستی کا سچا ہے تو پھر تمہیں آج کی جدائی پر غم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تم جیسوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:) ۱۲ (وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ۔)الحجر : ۴۷ (اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کو ہم نکال )کر صاف کر( دیں گے)گویا( بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔پس ایسے قریبی دوست تمہارے لئے جہاد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں کیونکہ ممکن ہے کہ تم دونوں جلد جدا ہو جاؤ۔ تب تم دوست سے بھی محرومہو جاؤ گے اور جہاد کے اجر عظیم سے بھی۔ اور اونچے درجات تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گےتب تم پچھتاؤ گے مگر یہ پچھتانا کچھ کام نہ آئے گا۔٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا اےمحمد) صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں دنیا میں جتنا رہ لو تمہیں ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہو محبت کرو بے شک تم نے اس سے جدا ہونا ہے اور جو چاہو عمل کرو تم نے اس کا بدلہ پانا ہے۔ )بیہقی(ان مختصر سے الفاظ پر غور کرو جن میں موت، دوستوں سے جدائی اور ہر عمل پر بدلے کا تذکرہ ہےکیا اس تنبیہ کے بعد بھی کسی تنبیہ کی ضرورت ہے۔] اے جہاد سے دور بھاگنے والے [ کیا تجھے تیرا عہدہ تیرا منصب اور تیری عزت جہاد میں نہیں نکلنے دیتی ہائے کاش تو غور کرتا کہ یہ منصب کسی ایسے شخص سے چھن کر تجھے ملا ہے جو اس کی محبت میں گرفتار تھا اور یہ عہدہ تیر ے لئے کسی ایسے شخص نے خالی کیا ہے جو کل تک اس پر بہت خوشتھا ۔ یاد رکھ ! اس عہدے اورمنصب نے جس طرح تجھ سےپہلے والوں کے ساتھ وفا نہیں کی تجھ سے بھی نہیں کرے گا اوربالا آخر تجھے پریشانی اورمحرومی کا تلخ احساس دیکر چھوڑ دے گا تیرے لئے آج کی اس معمو لی سی عزت اور مقام کوچھوڑنا مشکل ہے اوراس کی وجہ سے تو کتنے بڑے مقام سے محروم ہورہا ہے۔ یاد رکھ وہ آخری آدمی جو جنت میں داخل کیا جائے گا اسے دنیا کے بڑے بادشاہوں سے بڑھ کر بادشاہت اوراس دنیا سے دس گناہ بڑی جنت ملے گی ۔ یہ تو ادنیٰ جنتی کا حال ہے ذرا سوچو کہ انبیاء صدیقین شہداء اورصالحین کا کیا مقام ہوگا۔ مگر آجتو اس عہدے اورمقام کی خاطر مررہا ہے جو تجھے ہمیشہ تھکاوٹ اور پریشانی میں ڈالتا ہے اور جس کا انجام بہت برا ہے اور ا س کی وجہ سے تیرے دشمنوں اور حاسدوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان کے دلوں میں تیری دشمنی پل رہی ہے اورجب یہمنصب تجھ سے چھن جائے گا تو تیرے دشمن تجھ پر قہقہے لگائیں گے اورتیرے نو کر خادم تجھ سے رخ موڑ جائیں گے اورتیرے پا ؤں چومنے والے تیری شکل دیکھنا گوارا نہیں کریں گے اورتو غم کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ جنت میں ایک معزز فرشتہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لے کر آئے گا جس میں لکھا ہوگا کہ یہ فرمان اس زندہکی طرف سے ہے جس پر موت آنے والی نہیں اس زندہ کی طرف جس پر اب موت نہیں آئے گی۔اے میرے بندے میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے اب میں تمہیں بھی ایسا بنارہا ہوں کہ تم جس چیز سے کہو گے ہو جاوہ ہو جائے گی۔٭ اور ایک روایت میں ہے کہ سب سے ادنیٰ جنتی وہ ہوگا جس کے سامنے پندرہ ہزار خادم ]حکم بجا لانے کے لئے [کھڑے رہیں گے اور ان میں ہر خادم کے تاج کا ادنیٰ موتی ایسا ہوگا جس کی روشنی سے مشرق منور ہوجائیں گے۔٭ایک اور حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ ادنیٰ درجے کا جنتی وہ ہوگا جس کے پاس اسی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ہوں گی اوراس کے لئے قیمتی موتیوں زمرد اوریاقوت کا اتنا بڑا محل بنایا جائے گا جو جابیہ ]شام [ سے صنعاء ]یمن [ تک ہوگا ]یعنی ان دو علاقوں کے درمیان جتنی مسافت ہے اس کا ایک محل اتنا بڑا ہوگا۔ )ترمذی(ذرا غور سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھی سنو۔)۱۳(وَالْمَلائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۔) الرعد ۲۳۔۲۴(اور فرشتے )بہشت کے( ہر دروازےسے ان کے پاس آئیں گے )اور کہیں گے ( تم پر رحمت ہو ) یہ تمہاری ( ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب )گھر (ہے۔اللہ تعالیٰ کی قسم یہ وہ نعمتیں ہیں جو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں اور عمل کرنے والوں کوا ن کے لئے بڑھ چڑھ کر عملکرنا چاہیے۔] اے جہاد سے منہ موڑ نے والے [ کیا تجھے تیرا خوبصورت محل ، اس کے سائے دار باغیچے، اس کی عالیشان عمارت ، اس میں موجودنوکر خادم اوراس کی آرائشیں جہادسے رو کے ہوئی ہیں۔ ہائے کاش تو غور کرتا کہ یہ تو مٹی، پتھر، گارے ، لوہے،لکڑی اوربانسوں کا بناہو ا ایسا گھر ہےجس کی اگر ہر روز صفائی نہ کی جائے تو اس میں کوڑا کرکٹ جمع ہوجاتا ہے اگر اس میں روشنی نہ جلائی جائے تو وہ سخت تاریک ہوجاتا ہے اگر اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو وہ گر جاتا ہے اور اگر دیکھ بھال کی جائے تو ایک نہ ایک دن اس نے ویرانے میں تبدیل ہوجاناہے ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ محل مٹی ہوجائے گا اس کے رہنے والے بکھر جائیں گے اور اس کے آثار تک مٹ جائیں گے اور اسکا نام تک بھلا دیا جائے گا۔٭ ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو ارشاد فرمایا تم جو عمارتیں بناؤ گے وہ ایک دن ویران ہوجائیں گی اورجو بچے جنو گے وہ ٭ ایک روایت میں ہے کہ ایکفرشتہ ہر دن یہ آواز لگاتا ہے تم بچے جنتے ہو مرنے کے لیے اور عمارتیں بناتےہو ویران ہونے کے لئے ۔ ) بیہقی (اے دھوکے میں پڑے ہوئے انسان ! آج تمہارےلئے موقع ہے کہ اپنے اس تباہ وویران ہوجائے والے محل کے بدلے ]جنت میں [ ایسے اونچے محلات لے لو جن کی تابندگی ہمیشہ کے لئے ہوگی اور جن میں نہریں بہتی ہوں گی اورجن میں پھلوں کی شاخیں جھکی ہوئی ہوں گی اور جن کی خوشیاں ہمیشہ دوبالا ہوتی رہیں گی۔ یہ محلات سونے چاندی کی اینٹوں کے ہوں گے ان میں رہنے والوں کو نہ کبھی تھکاوٹ پہنچے گی نہکوئی اورمصیبت اوران کی مٹی مشک کی ہوگی اوران کے کنکر موتی اورجواہرات کے ہوں گے ان میں جو نہریں بہتی ہیں وہ دودھ، شہد اورکوثر کی ہوں گی یہ محلات کہیں تو ستر میل لمبے موتیوں کو اندر سے تراش کر بنائے جائیں گے اور کہیں یہ سبز اورچمکدار زمرد کے ہوں گے اورکہیں سرخ یاقوت کے۔ایمان والوں کے لئے ان محلات کےہرحصے میں ایسی حوریں اورخادم ہوں گے جو دوسرے حصے کی حوروں اورخادموں کو دوری کی وجہ سے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہاں کے بستر ریشم کے بنے ہوئے ہوں گے اوردو بستروں کے درمیان ان کی بلندی چالیس سال کی مسافت کی ہوگی۔ وہاں نہ تو نیند آئے گی نہ اونگھ بلکہ اہل جنت ان بستروں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں گے اورایک دوسرے سے گفتگو کررہے ہوں گے وہاں ہر وقت دستر خواں بچھے رہیں گے اورایسے تازہ پھلوں سے انکی مہمان نوازی کی جائے گی جونہ ختم ہونے والے ہوں گے اورنہ ضائع ہونے والے وہ جو پھل چاہیں گے وہی کھائیں گے اورپسندیدہ پرنددوں کے گوشت سے ان کی خاطر تواضع کی جائے گی۔جہاں تک ان کے مشروبات کا سوال ہے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔) ۱۴ (مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِيذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ۔ )المطفین۔ ۲۵۔۲۶(شراب خالص سر بمہر جس کی مہر مشک کی ہوگی ۔ تو )نعمتوں کے(شائقین کو چاہیے کہ اسی میں رغبت کریں۔وہاں نہ کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی نہ پیشاب کی وہ نہ تھوکیں گے اورنہ ناک سے رینٹھ نکالیں گے۔ وہ جو کچھ کھائیں گے اس کا اثر ان کی کھال پر ظاہر ہوگا جی ہاں ایسا پسینہ جو موتیوں کی شکل میں مشک کی طرح خوشبودار ہوگا اورپھر ان کے پیٹ پہلے جیسے ہو جائیں گے۔ ]یعنی پسینے کے آتے ہی کھانا ہضم ہوجائے گا[وہاں کے خادم ایسے ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔) ۱۵ (إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًاوَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَسَعْيُكُمْ مَشْكُورًا)الدھر ۱۹۔۲۰۔۲۱۔۲۲(جب تم ان پر نگا ہ ڈالو تو خیال کر و کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں اوربہشت میں )جہاں (آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت اورعظیم)الشان (سلطنت دیکھو گے ان)کے بدنوں (پر دیبائے سبز اوراطلس کے کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اوران کاپروردگا ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا یہتمہارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش )خدا کے ہاں (مقبول ہوئی۔یہ جنت کی وہ نعمتیں ہیں جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں آگیا ہے ورنہ وہاں تو ایسی نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا ہے۔ )بخاری(اگر تم پوچھو کہ اہل جنت کتنے عرصے تک ان عظیم الشان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیںگے تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کبھی نہیں مریں گے ایسے جوان رہیں گےجن پر بڑھاپا نہیں آئے گا نہ تو کبھی بیمار ہوں گے نہ غمگین ہمیشہ خوش رہیں گے اور ان نعمتوں کے چھن جانے یا ختمہوجانے کے خوف سے محفوظ رہیںگے۔) ۱۶ (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔)یونس۔۱۰()جب وہ ( ان میں ) ان کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو بے ساختہ( کہیں گے سبحان اللہ ۔ اور آپس میں ان کی دعا سلام علیکم ہوگی اور انکا آخری قول یہ )ہوگا( کہ خدائے رب العالمین کی حمد )اور اس کا شکر( ہے۔اب تم خو د ہی انصاف کرو کہ تمہیں جنت کی یہ عظیم الشان بادشاہت چاہیے یا دنیا کا جلد فناہونے والا محل۔ اورغور کر و کہ اگر تم شہید ہوکر اس دنیاوی محل کو چھوڑ گئے تو تمہیں آگے کیا کچھ ملے گا۔) ۱۷ (وَلا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ)فاطر۔ ۱۴(اور)خدائے( باخبر کی طرح تم کوکوئی خبر نہیں دے گا۔]اے جہاد سے محروم رہنے والے[ اگر تم یہ کہتے ہو کہ میں ابھی اپنی اور اپنے اعمال کی اصلاح میں لگا ہوا ہوں ]کہ جب میری اصلاح ہوجائے گی تو جہاد میں جاؤں گا[ تو یہ بھی ایک خطرناک دھوکہ ہے اور خواہ مخواہ کی امید ہے اللہ تعالیٰ کی قسم اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وقت نہیں ٹلتا۔)۱۸(یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللہ حَقّ ٌفَلاَ تَغُرَّنَّکُمُ الحَیوٰۃُ الدُّنْےَا وَلاَ ےَغُرُّنُّکُمْ بِاللہ الْغَرُوْرُ اِنَّ الشَّےْطٰنَ لَکُمْ عَدُوَّا اِنَّمَا یَدْ عُوْا حِزْبَہٗ لِےَکُوْ نُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔)فاطر۔ ۶-۵(لوگو!خدا کا وعدہ سچا ہے۔ تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ )شیطان ( فریب دینے والا تمہیں فریب دے ۔ شیطان تمہار ا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو۔وہ اپنے )پیروؤں کے( گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ ووزخ والوں میں ہوں۔تمہارا یہ عذر ]کہ میں اپنی اصلاح میں مصروف ہوں [ہر گز اولیاء اللہ صالحین کا طریقہ نہیں ہے بلکہ محض ایک شیطانی جال ہے۔ کیا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بڑے بڑے تابعینتجھ سے زیادہ عبادت اورقرب الٰہی کے طالب نہیں تھے لیکن اگر وہ بھی تیری طرح جہاد کو ٹالتے رہتے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے اتنے بڑے کارنامے سرانجام نہ دے سکتے اورنہ مشرکوں اورکافروں سے جہاد کر کے اتنے شہروں اورعلاقوں کو فتحکرتے ۔اے فتنے میں پڑے ہوئے انسان کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا۔) ۱۹ (انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ )توبہ۔۴۱(نکل پڑو )جہاد میں ( ہلکے اوربوجھل )یعنی ہر حال میں ( اور اللہ تعالیٰ کے رستے میں مال اورجانسے لڑو۔یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ بشرطیکہ سمجھو۔اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے عقل اورسمجھ دی ہے توپھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کر۔) ۲۰ (وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا۔ )النساء ۔ ۹۵(اور اجر عظیم کے ۔لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے۔٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ایک شخص کا جہاد کی صف میں کھڑا ہونا اپنےگھر میں رہ کر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔ )ترمذی(اے دھوکہ میں پڑے ہوئے انسان یاد رکھ کہ مجاہد کی نیند قیام الیل سے اور ہمیشہ کے روزے رکھنے سے افضل ہے۔ ان فضائل کا بیان اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آگے آئے گا۔آج تو جن اعمال میں لگا ہوا ہے کیا تجھے یقین ہے کہ یہ سب اعمال قبول ہورہے ہیں؟ کیا تیر ے سامنے قیامت کا ہولناک منظر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم تو نہیں جانتا کہ تیر ے یہ اعمال تیری بخشش کا ذریعہ بنیں گے یاہلاکت کا۔) ۲۱ (وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔)النمعل۲۵(اور وہ تمہارے پوشیدہ اورظاہر اعمال کو جانتا ہے۔) ۲۲ (وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ۔ )آل عمران۔ ۱۵۸(اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ اللہ تعالیٰ کے حضور میںضرور اکٹھے کئے جاؤ گے۔اے جہاد سے غافل انسان! کیا تیریخوبصورت بیوی اور اس کے ساتھ تیری محبت اور اس کے ساتھ رہنےکی تیری چاہت نے تجھے جہادسے محروم کر رکھا ہے ذرا بتا؟ کیا تیری بیوی دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ حسین ہے؟ کیا وہ پہلے ایک گندی منی کا قطرہ نہیںتھی؟ کیا وہ آخر میں ایک مردہ لاش نہیں بن جائے گی؟ کیا وہ اپنے پیٹ میں غلاظت لئے نہیں پھرتی ؟ اس کا حیض تجھے کتنا عرصہ اس سے دور رکھتا ہےاور اسکی نافرمانی اس کی فرمانبرداری سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کچھ دن سرمہ نہ لگائے تو اس کی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں اگر وہ زیب و زینت نہ کرے تو اس کے عیب ظاہر ہوجاتے ہیں اگر وہ کنگھا نہ کرے تو اس کے بال پرا گندہ ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ صفائی نہ کرے تو میلی کچیلی ہوجاتی ہے اگر وہ پاکی حاصل نہ کرے تو بدبو دار ہوجاتی ہے وہ زیادہ بیمار رہنے والی اوربہت تنگ کرنے والی ہے جب اس کی عمر بڑھ جاتی ہے تو وہ کسی کام کی نہیں رہتی اورجب بوڑھی ہوجاتی ہے تو بستر سے لگ جاتی ہے تواگر ساری زندگی اس پر احسان کرے تو غصے کے وقت وہ ان سبکو بھلادیتی ہے جیساکہ۔٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم ان عورتوںکے ساتھ پوری زندگی احسان کرتے رہوپھر اگر وہ تمہاری طرف سے تھوڑی سی تکلیف پاتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میں نے تو کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں پائی۔)بخاری(تجھے ہمیشہ اس کی جدائی کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور تو اس کی سرکشی سے ہمیشہ ڈرتا رہتا ہے اس کی محبت تجھے طرح طرح کی مصیبتوں ، تھکاوٹوں اورپریشانیوں میں ڈالتی ہے وہ تجھے اپنی ادنی سے ادنی خواہش پوری کرنے کے لئے ہلاکت میں ڈالنے سے دریغ نہیں کرتی ۔ وہ تجھ سے اس وقت تک محبت کرتی ہے جب تک اس کا مقصد تجھ سے پورا ہوتا رہتا ہے۔اورجب ایسانہ ہو تو وہ تجھ سے رخ پھیر لیتی ہے۔ اور تیرے علاوہکوئی اورڈھونڈنے لگتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہےکہ تم اس سے تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہو جب اسکے ٹیڑھے پن کو برداشت کرو۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایسی عورت کی محبت تجھے اس راستے سے ہٹا رہی ہے جس میں تجھے ایسی حوروں سے وصال نصیب ہوگا جو نور سے پیدا ہوئی ہیں اورجنت کے محلات میں پلی بڑھی ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم ابھی شہید کا خون خشک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ان گوری گوریبڑی بڑی آنکھوں والی حور عینا کو پالیتا ہے جن کا حسن بے مثالہے وہ پاک دامن کنوای ہیں ایسے موتی کی طرح جنہیں نہ کسی انسان نے چھوا ہے نہ کسی جن ان کی باتیں شیریں ہیں ان کا قد خوبصورت اور ان کے بال حسین ہیں وہ بڑی قدروقیمت والی ہیں ان کابرتن پاک ہے ان کی شکل و صورت بے حد حسین ہے۔ اور ان کے اخلاق بہت پیارے ہیں ان کے زیور چمکدار اورکپڑے بہت اعلیٰ ہیں وہ محبت کرنے والی ہیں اور ان میں تنگ کرنے کا مادہ ہی نہیں۔ وہ تیرے سواکسی پر نظر ڈالنے والینہیں ہیں وہ تجھ سے محبت کرنےوالی اورتیری ہر خواہش کوپورا کرنےوالی ہیں اگر ان میں سے کسی کا ناخن دنیا میں ظاہر ہوجائے تو چودھویں رات کا چاند اپنی روشنی کھودے۔ وہ اگر رات کے وقت اپنا کنگن دنیا پر کھول دیں تو دنیا بھر سے اندھیرا بھاگ جائےاگر وہ اپنی کلائی دنیا پر ظاہر کردیں تو پوری مخلوق ان کے عشق میں مبتلا ہو جائے ۔ اگر وہ آسمان وزمین کے درمیان جھانک کر دیکھ لیں تو ان دونوں کے درمیان خوشبو ہی خوشبو پھیل جائے۔ اگر وہ کڑوے سمندر میں تھوک دیں تو وہ میٹھا ہوجائےتو جب بھی انہیں دیکھے گا تیری نظروں میں ان کا حسن جمال بڑھ جائے گا ۔ کیا کسی عقلمند سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسی حسین مخلوق کے بارے میں سنے اور پھر گھر بیٹھا رہے۔اے جہاد سے غافل انسان! یہ بھی تو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لے کہ تیری اپنی دنیاوی بیوی سے جدائی یقینی ہے بلکہ یوں سمجھ کہ یہ جدائی ہو چکیہے]کیونکہ موت کا وقت مقرر ہے[ اگر وہ نیک عورت ہے تو جنت جیسی خوبصورت جگہ پر تم ضرور جمع ہوجاؤ گے وہاں تم اسے حورعین سے بھی زیادہ خوبصورت پاؤ گے اوراس میں سےوہ عادتیں اور چیزیں زائل ہوچکی ہوں گے جو تمہیں ناپسند ہیں وہاں اس کا حسن وجمال دیکھنے کے لائق ہو گا اور وہ پاکدامن کنواری اور حیض ونفاس سے پاک ،کالی آنکھوں والی اور سدا بہار حسن والی ہوگی۔ اس کا تمام ترتیڑھاپن ختم ہوجائے گا اور اس کا نور اورجمال بڑھ جائے گا اور وہ حسن وجمال اورنور میں حور عین سے بھی بڑھ کر ہوگی۔اس لئے تم آج اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اسے چھوڑ کر جہاد میںنکل پڑو۔ اللہ تعالیٰ وہ تمہیں بہتریں شکل میں لوٹا دیگا۔ بشرطیکہ وہ جنت کی مستحق ہوئی۔آخری بات یہ ہے کہ ]اے مسلمان بھائیو![ تمہیں جہاد سے دنیا کی کوئی بھی چیز غافل نہ کرنے پائے یہ دنیا رہنے کی یا آپس میں ملنے اورکچھ جمع کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں جو آج ہنستا ہے اسے کل رونا پڑتا ہے یہاں کی خوشیوں کے پیچھے غم چھپے ہوئے ہیں یہ دنیا بے وفائی ،مصیبتوں اورتھکاوٹوں کا گھر ہے جو اسے پانے کا ارادہ کرتا ہے وہ اس کے دھوکے اورجال میں پھنس جاتا ہے اوراس دنیا کی مصیبتیں اس پر چھاجاتی ہیں اورپھر وہ پچھتاتا ہے اور آنسوؤں کی جگہ آنکھوں سے خون برساتاہے۔]اے مسلمانو![ ا س غفلت سے بیدارہوجاؤ اور اس سے پہلے کہ دنیا کی گرفت تم پر مضبوط ہوجائے خود کو اس کی قید سے چھڑا لو اورتوفیق اورسعادت مندی کے راستے ]جہاد فی سبیل اللہ[ کو اختیار کرو۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت کی عظیم نعمت عطاء فرمادے۔کوشش کرو کہ کوئی بھی چیز تمہارے لئے اس راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ یاد رکھو عقلمند اور سیدھے راستے پر چلنے والا اور مضبوط عزم والا شخص وہی ہے جسے جہاد میں سے کچھ نہ کچھ حصہ نصیب ہو ا ہو۔ لیکن جو سستی اوردنیا کے دھوکے میں غرق ہوجاتا ہے اس کے قدم جہاد سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ پچھتاتا ہے مگر اس کا پچھتانا اسے کچھ کام نہیں آتا اورجب شہدا ء جنت کے اونچے بالا خانوں میں چلے جاتے ہیں تو وہ پیچھے حسرت اورافسوس کے ہاتھ ملتا رہتا ہے۔وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ۔)الاحزاب۔ ۴( اور اللہ تعالیٰ تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتاہے۔حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔)آل عمران۔ ۱۷۳(]آپ نے آٹھویں صدی ہجری کے ایک ایسے عظیم شخص کی دعوت جہادسنی جو خود ایک بڑنے عالم اورمحدث ہونے کے ساتھ ساتھ مجاہد بھی تھے اورنویں ہجریکے شروع میں وہ مسلمانوں کے ایک لشکر کی کمان کرتے ہوئے شہید ہوئے علم وعمل کے اس پیکر کے دل سے نکلی ہوئی دعوت نے یقینا آپ کے دل و دماغ پر دستک دی ہو گی اور آپ کو غفلت کی نیند سے بیدا ر کرنے کے لئے جھنجوڑ ا ہوگا۔ مصنف رحمہ اللہ کا مقصد ہرگزیہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں سے محبت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہے کہ رشتے دار اوردوست احاباب ہمیشہ بے وفا ہوتے ہیں البتہمصنف رحمہ اللہ نے یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کیہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال وجان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور اس راستے میں کسی بھی چیز کو آڑ نہیں بننے دیتا چونکہ عام طور پر بیوی بچے اورمکان ودکان اوردنیا میں رہنے اور عہدے پانے کا شوق ہی جہاد کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے اس لئے انہوں نے ان تمام چیزوں کیدوحقیقت بھی بیان فرمادی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتی ہے اور انسان زندگی بھر اللہ تعالیٰ کی غلامی چھوڑ کر ان چیزوں کی غلامی کرتے کرتےمرجاتا ہے۔ اوردنیا میں بھی گھاٹا پاتا ہے اور آخرت کے لئے بھی کچھ نہیں کماتا۔ یہ بات یقینی ہے اور تاریخ کے اوراق اس کے گواہ ہیں کہ مصنف رحمہ اللہ کا زمانہ ہمارے زمانے سے بہت بہتر تھا اس زمانے میں بھی اگرچہ مختلف مسلمان حکمران ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان تھے مگر پھر بھی عمومیحالات اتنے دردناک نہ تھے جتنے آج ہیں اس زمانے میں مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کا اقتدرتھا، مسلمان حکمران دنیا کے اکثر کفار سے جزیہ وصول کررہے تھے۔کسی نہ کسی درجے میں بلکہ آج کے اعتبار سے تو بہت اچھے درجے میں اسلام بھی نافذ تھا اور دنیا میں کہیں پر بھی مسلمان مظلوم ومجبور نہیں تھے گویا کہ وہ ایسا دور تھا جب جہاد عام طور پر رفرض کفایہ کے درجے میں رہتا ہے۔ ایسے حالات میں عام طور پر لوگوں کے جہاد میں نکلنے کی دو ہی وجہیں ہوتی تھیں ۔ ایک تو اسلام کو دنیا کے آخری کونے تک نافذ کرنے کا عزم اوراللہ تعالیٰ کے ہاں اونچے مراتب حاصل کرنے کا شوق اورولولہ۔ اوردوسرا اپنے گناہوں کو بخشوانےاورجہاد کے ذریعے اپنی برائیوں کومعاف کرانے اورجنت پانے کاجذبہ مگر اب جبکہ پندرھویں صدی ہجری کے بھی اٹھا رہ سال گزر چکے ہیں حالات بہت زیادہ بدلے ہوئے ہیں۔ آج ہر طرف اسلام بے کس، بے سہارا اورمسلمان ہرطرف مظلوم ومجبور نظر آرہے ہیں دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کیحکومتیں ہیں وہاں بھی اسلام پردردناک مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور نام کے مسلمان حکمران منافقینسے بدتر کردار اپنا کر سیکولر ازم کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مکہ، مدینہ اورحجاز کے زمینی خزانوں کی دولتیہود ونصاریٰ کی چاپلوسی میں قربان کی جارہی ہے اور اب مقدس مقامات کو کافروں کے ہاتھوںمیں یرغمال بنادیا گیا ہے۔ ترکوں جیسی اسلام کی خادم قوم کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی بیٹی کے سرسے دوپٹہ تک چھین لیا ہے اوروہ ترکی کو یورپ جیسا بیت الخلاء بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اپنی غلامی اورمظلومیت کے پچاس سالوں کا مسلسل حساب مانگ رہی ہے مگر اسے کہیں سے کوئی جواب سنائی نہیں دے رہا۔ افغانستان، وسطی ایشیاء، بوسنیا، کوسوواور فلسطین کی زمین ان لاشوں پر سے پردہ اٹھارہی ہےجو امت مسلمہ کی غفلت کی وجہ سے کفن اورنماز جنازہ کوترستی ترستی اب ہڈیوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ وہ پکار پکار کر اپنے لہو کا حساب مانگ رہی ہیں۔ سلمانرشدی اورتسلیمہ نسرین جیسے درندہ ذہن قلمکار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی ازواج مطہرات اور اسلام پر اپنے گندے ذہن کے چھینٹے پھینک کر بھی آزاد پھر رہے ہیں جبکہ ناموس رسالت کے محافظ اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتیکابدلہ لینے سے بھی قاصر ہیں حالانکہ ان کی تعدادا ب ڈیڑ ھ ارب کے قریب ہے اور تو اور مسلمان اپنے ملکوں میں بھی کافروں کی غلامی کرنے اور ان کے بوٹ صافکرنے پر مجبور ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم امت مسلمہ آج ان درد ناک حالات سے گزررہی ہے جسے سوچکر ذہن پھٹنے لگتاہے ۔ اورکلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ آج چاروں طرف سے اسلام کو نشانے لے لے کر مارا جارہا ہے۔ جبکہ اسلام کے محافظ مسلمان اندرونی اوربیرونی طور پر غلامی در غلامی کے رسوں میں جکڑے ہوئے بے بسی کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔آج اگر اعمال کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا زمانہ مصنف رحمہ اللہ کے زمانے کی بنسبت بہت زیادہ انحطاط کا شکا ر ہے اور ہر طرف گناہ ہی گناہپھیلے ہوئے ہیں آج جو انسان بچنا بھی چاہتا ہے وہ بھی نہیں بچ سکتا الامن رحم اللہ۔ سود جیسی لعنت آج ہمارے معاشرے میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے اگر سارے گناہوں کو ایک طرفرکھ دیا جائے تو ہماری تباہی کے لئے صرف یہی سود کا گناہہی کافی ہے فحاشی اورعریانی کا سیلاب آج عزتوں۔ حرمتوں اورانسانی قدروں کو بہا کر لے جارہا ہے۔ اوریورپ کے ننگے شکاری اس سیلاب کا رخ ہماری طرف پوری طرح موڑ چکے ہیں یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ آج ہم اپنے اصل راستے سے ہٹ چکے ہیں۔ اورہم اپنیطاقت اورقوت کھو چکے ہیں۔ اورآج ہم خود اپنے فیصلے نہیں کرتے بلکہ ہمارے فیصلے ہمارے دشمن کرتے ہیں اور ہم ان کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی طرح بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے وقت میں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف لوٹنا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے یہ بات ہمیں آسانی سے سمجھ آسکتی ہے بشرطیکہ ہم دل کی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کریں اوراخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کریں۔آج عرب وعجم کے مسلمانوں کی آزادی کا واحد راستہ جہاد ہے آج مسجد اقصیٰ کی خلاصی کا واحد راستہ جہاد ہے آج اسلام کو نافذ کرنے کا واحد راستہ جہادہے۔ دن مرجائیں گے۔)بیہقی(
اے مسلمان تجھے کس چیز نے جہاد سے روک رکھا ہے؟اے جہاد کے فریضے کو چھوڑنے والے، اے توفیق اور حق کے راستوں سے ہٹنے والے تو کن محرومیوں میں جاگرا ہے اور کس قدر حق سے دورجا پڑا ہے کاش تو بھی بہادروں کے ساتھ معرکوں میں حصہ لیتا تو بھی اللہ کے راستے میں جان ومال لٹاتا مگر تجھے اس سعادت سے روک رکھا ہے یا تو لمبی امیدوں نے یا موت کے خوف نے یا تجھ پر اپنے محبوب مال اور خاندان کی جدائی شاق ہے یا تیرے لئے اپنےبیٹوں، خادموں اور اہل خاندان کے جھرمٹ سے نکلنا مشکل ہے۔ اے جہاد سے محروم رہنے والے یا تو تیری محرومی کا سبب تیرا کوئی پیارا بھائی یا محبوب دوست ہے یا پھر تو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے میں ایسا لگ گیا ہے کہ جہاد تجھے یاد بھی نہیں رہا۔یا تو اپنی خوبصورت اور باوقار بیوی کی وجہسے رکا ہوا ہے یا تیری عزت اور تیرا منصب تیرے پاؤں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ یا تو اپنی خوبصورت کوٹھی اور سائے دار باغات میں مست ہوچکا ہے یا پھر شاہانہ لباس اور لذیذ کھانے تجھے جہاد میں نہیں نکلنے دیتے۔ ان چیزوں کے علاوہ اور کچھ ایسا نہیںجو تجھے تیرے رب سے دور کردے اور اگر ان چیزوں نے تجھے تیرے رب سے دور کررکھا ہے تو یہ تیرے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ کیا تو نے اپنے رب کا یہ فرمان نہیں سنا :)ترجمہ( اے ایمان والو! تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں]جہاد کیلئے [ نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو۔ سو دنیا کی زندگی کا نفع اٹھانا تو آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے۔)التوبہ:۳۸(تنبیہ : غور سے سنو! ان ناقابل تردید دلائل کو جو میں تمہیں بتارہا ہوں اور غور کرو ان واضح دلیلوںپر جو میں تمہیں سنا رہا ہوں تب تمہیں یقین ہوجائے گا کہ تمہیں جہاد سے روکنے والی سوائے تمہاری محرومی اور بدنصیبی کے اور کوئی چیز نہیں ہے اور تمہارے پیچھے رہ جانے کا سبب نفس اور شیطان کے سوااور کوئی نہیں ہے۔ اگر تو جہاد سے اس لئے دور ہے کہ تو نے لمبی لمبی امیدیں باندھ رکھی ہیں اور اچانک موت سے ڈرتا ہے تو تو ایسی چیز سے بچنے کی کوشش کررہا ہے جس سے تو کبھی نہیں بچ سکتا اور تو ایسے راستے ] یعنی موت[ سے ڈررہا ہے جس پر تو نے ایک دن چلنا ہی ہے اللہ کی قسم میدانوں میں آگے بڑھ کر لڑنے سے عمر کم نہیں ہوتی اور نہ جہاد چھوڑنے سے عمر بڑھ جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:) ۱ (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ۔) الاعراف:۳۴ (اور ہر ایک فرقے کیلئے ]موت کا [ ایک وقت مقر ر ہے جب وہ آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کر سکتے ہیں نہ جلدی۔دوسری جگہ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے:) ۲ (وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونََ۔) المنافقون ۔ ۱۱ (اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو خدا اس کو ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:) ۳ (كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ۔)العنکبوت:۵۷(ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے۔اے دھوکے میں پڑے ہوئے انسان!یاد رکھ موت کی ایک خاص سختی ہوتی ہے اور روح نکلنے کا وقت بہت سخت ہے لیکن تم اسے ابھی نہیں سمجھتے اور قبر میں عذاب بھی ہوتا ہے اور اس عذاب سے صرف نیک لوگ محفوظرہتے ہیں۔ قبر میں دو سخت فرشتےسوال بھی کریں گے ] تب کیا ہوگ اسے قرآن مجید ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے ۔[) ۴ (يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ۔)ابراہیم:۲۷(خدا مومنوں)کے دلوں( کو )صحیح اور( پکی بات سے دنیا کی زندگیمیں بھی مضبوط رکھتا ہے اور آخرت میں بھی )محفوظ رکھے گا( اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کردیتا ہے۔پھر اس خوفناک منظر کے بعد خوش قسمت لوگ ہمیشہ کی نعمتوں اور بدنصیب لوگ سخت عذاب میں ڈال دئیے جائیں گے مگرشہید کے لئے امن ہی امن ہے اوراسے مذکورہ بالا خطرناک حالات میں سے کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شہید کو قتل کے وقت صرف اتنا درد ہوتا ہے جتنا چیونٹی کے کاٹنے کا۔)ترمذی، نسائی، ابن ماجہ(اے مسلمان بھائی! اب کونسی چیز ہے جو تجھے اس سعادت کو حاصل کرنے سے روک رہی ہے جسے پانے کے بعد تو عذاب قبر سے بھی بچ جائے گا اور اللہ کے ہاں بھی کامیاب ہو کر بہترین ٹھکانا پائے گا اور قبر کے سوال سے بھی محفوظ رہے گا۔ اور اس کے بعد کی شدتاور ہولناکیوں سے بھی تیری حفاظت رہے گی کیونکہ شہداء تو زندہ ہوتے ہیں اپنے رب کی طرفسے ملنے والی روزی کھاتے پیتےہیں نہ انہیں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم وہ تو ان نعمتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں سے کھاتے پیتے ہیں۔ دیکھو کتنا بڑا فرق ہے شہادت کی عزت والیموت اور بستر کی دردناک موت کے درمیان ۔ ۔ ۔اگر تم یہ کہتے ہو کہ میرا خاندان اور میرا مال میرے بچے اور میرے عیال مجھے جہاد سے روک رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ واضح فرمان سن لو:)۵(وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى)سبا:۳۷(اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں۔اور یہ فرمان بھی تمہارے سامنے رہنا چاہئے:) ۶ (زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ۔)آل عمران:۱۴(لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہے ] مگر [ یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں۔ اور اللہ کے پاس بہت اچھا ٹھکانا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:) ۷ (اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الأمْوَالِ وَالأوْلادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُالْغُرُورِ۔)الحدید:۲۰(جان لو! دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت )و آرائش( اور تمہارے آپس میں فخر)وستائش( اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب )وخواہش( ہے )اس کی مثال ایسی ہے( جیسے بارش کہ )اس سے کھیتی اگتی اور( کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر )اے دیکھنے والے( تو اس کو دیکھتا ہے کہ)پک کر( زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں)کافروں کیلئے( عذاب شدید اور)مومنوں کیلئے( اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔٭ حدیث شریف میں ہے کہ اگر دنیا کی قدروقیمت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تووہ کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔ )ترمذی(٭ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جنت کی تم میں سے کسی ایک کے کوڑے جتنی جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں ایک صبحو شام کا لگانا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سے بہتر ہے۔ )صحیح بخاری(] اے جہاد چھوڑنے والے[ کیا تجھے اس عظیم الشان بادشاہت] جو تجھے جنت میں ملے گی [ سے وہی رشتے دار روک رہے ہیں جو کچھ عرصہ بعد مرجائیں گے یا آپس کے اختلافات میںپڑ کر جدا جدا ہو جائیں گے یا انہیں زمانے کے مصائب بکھیر دیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یادرکھ کہ جب تو ان رشتے داروں کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتا تو وہ تیرے مخالف ہو جاتے ہیں اور جب تیرے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ تجھے چھوڑ دیتے ہیں اور حالات کے تھپیڑے ان کے دل سے تیری محبت کو نکال دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کی طرح تیرے رشتے دار بھی قیامت کے دن تجھ سے بھاگتے پھر رہے ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہشہوگی کہ وہ اپنے سارے گناہ اور بوجھ تیرے سر ڈال کر خود نجاتپا جائے ] تو کیا یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی تو نے ان رشتے داروں کی خاطر جہاد چھوڑ کر محرومی کو گلے لگا رکھاہے۔[کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مال کیمحبت تجھے آڑے آرہی ہو جس کے ہوتے ہوئے سب تیرے ہوتے ہیں اور اگر وہ تیرے پاس نہ ہو تو بہت سارے اپنے بھی جدا ہوجاتے ہیں ہاں وہی مال جس کے بارے میں تجھ سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ یہ کہاں سے کمایا تھا اور کہاں خرچ کیاتھا وہی قیامت کا دن جس میں خوف کی وجہ سے بچے بوڑھےہوجائیں گے اور حاملہ عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اس دن مجرموں کی شناخت ہوجائے گی اور انہیں چوٹی کے بالوں اور قدموں سے پکڑا جائے گا۔ ہاں وہی قیامت کا دن جس میں مالدار لوگوں سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا جبکہ فقراء مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوکر مزے اڑائیں گے مگر اے مالدار! اس دن تو اپنے مال کی وجہ سے روک لیا جائے گا اور تیرے لئے خطرہ ہوگا کہ کہیں تو دوزخ کے داروغے مالک کے حوالے نہ کردیا جائے۔اے مسلمان کیا تو اس مال کی جدائی گوارا نہیں کرتا جو اگر تیرے پاس تھوڑا ہو تو تیری فکریں اور تکلیفیں کم ہوجاتی ہیں اور اگر وہ زیادہ ہو تو وہ تجھے سرکش بنا دیتا ہے اور اگر تو مر جائے تو یہ مال تیرے پیچھے تیری رسوائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ آج اگر تو دنیا کے دھوکے میں آکر اسی پر جھکا ہوا ہے تو یاد رکھ تو نے ایک نہ ایک دن اسے چھوڑنا ہے۔٭ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں دنیا کی پوری حقیقت نہ دکھاؤں؟ میںنے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مدینے کی وادیوں میں سےایک وادی میں ایک کوڑے کے ڈھیر پر لے آئے اس )کوڑے کے ڈھیر( میں مردہ انسانوں کی کھوپڑیاں، انسانی غلاظتیں، پرانے چیتھڑے اور مردہ جانوروں کی ہڈیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ یہ سر)کسی زمانے میں( انہیں چیزوں کا حرص رکھتے تھے جن کا حرص تم رکھتے ہو اور ان سروں میں وہ ساری امیدیں ] اور امنگیں[ روشن تھیں جو آج تم نے لگا رکھی ہیں مگر آج یہ سر بغیر کھال کے ہڈیاں ہیں پھر کچھ عرصے بعد یہ گل کر خاک ہوجائیں گی اور یہ غلاظتیں ان کے رنگا رنگ کھانے ہیں جنہیں انہوں نے جہاں سے ہو سکا کمایا پھر ان کھانوں کو اپنے پیٹ میں ڈال دیا اور وہ اس شکل میں ہوگئے کہ اب لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں اور یہ بوسیدہ چیتھڑے ان کے زیب و زینت والے عمدہ لباس تھے مگر آج ہوائیں انہیں اڑاتی پھر رہی ہیں اور یہ ہڈیاں ان کے وہ جانور تھے جن پر وہ ملکوں اور شہروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ پس جو دنیا پر رونا چاہے اسے چاہئے کہ روئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم برابر روتے رہے یہاں تک کہ ہمارا رونا شدت پکڑ گیا۔ )احیاء علوم الدین(اور اگر تو اپنے پیارے بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو کر ] جہاد سے دور ہے [ تو اللہ کے اس فرمان کویاد رکھ:) ۸ (إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُعِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ۔ )التغابن۔۱۵(تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور اللہ کے ہاں بڑا اجرہے۔اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ہر بیٹے پر اس کے ماں باپ ،بھائی اور چچا سے زیادہ شفیق ہے تم بتاؤ جب یہ بچہ باپ کی پیٹھ میں اورماں کے پیٹ کے اندھیروں میں تھا تو وہاں اس کی پرورش تم کررہے تھے یا اللہ تعالیٰ؟ ذرا سوچو کیا تمہارا وہی بیٹا تمہیں آج جنت کی نعمتوں اور اللہ کے قرب سے دور کررہا ہے جو اگر چھوٹا ہو تو تم اس کے بارے میں پریشان رہتے ہو۔ جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو تم اس کے غم میں مبتلا ہوتے ہو اگر وہ صحت مند ہوتا ہے تو تمہیں اس کا خدشہ لگا رہتا ہے اگر وہ بیمار ہوجائے تو تمہارا دل صدمے میںمبتلا ہوجاتا ہے تم اگر اسے تنبیہ کرتے ہو تو وہ غصے ہوتا ہے اور بدکتا ہے اگر تم اسے نصیحت کرتے ہو تو پریشان اور غمگین ہو جاتا ہے اور تو اور تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکا بھی لگا رہتا ہے کہ دوسروں کے لڑکوں کی طرح وہ بھی تمہارا مکمل نافرمان نہ ہوجائے۔ تم میدان جنگ میں آگے بڑھنا چاہو تو بیٹے کی یاد تمہیں بزدل بنا دیتی ہے اگر تم سخاوت کرنا چاہو تو اس کی فکر تمہیں بخیل بنا دیتی ہے اوراگر تم دنیا سے بے رغبت ہونا چاہو تو وہ تمہیں دنیاداری میں لگا دیتا ہے اس کی وجہ سے تمہارے اوپر بڑی آزمائشیں آتی ہیںجبکہ تم اسے ایک احسان شمار کرتے ہو اس کی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں جبکہ تم اسے بھی نعمت سمجھتے ہو۔ تم خود کو غم میں ڈال کر اسے خوش رکھتے ہو اور اپنا گھاٹا کر کے اسے نفع پہنچاتے ہو اور اپنی جیب ہلکی کرکے اس کی جیب بھرتےہو اور اس کی خاطر طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہو اور اس کی وجہ سے تنگی میں پڑے رہتے ہو۔ اے ] غافل [ مسلمان! اپنے بیٹے کی فکر اپنے دل سے نکال کر اسے اس کے سپرد کردے جس نے تجھے بھی پیدا کیا اور اسے بھی۔ اور اپنے پیچھے اس کی روزی کے بارے میں اس پر بھروسہ کر جو اس کا بھی رازق ہے اور تمہارا بھی۔ آج اگر تم نے اسے اللہ کے سپرد نہ کیا تو مرنے کے بعد تو تم اسے کچھ بھی نہیں دے سکتے تب بھی وہ اللہ ہی کے سپرد ہوگا۔وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ۔)المائدہ:۱۸(اللہ کی قسم تم نہ تو اپنے نفع نقصان اور زندگی موت کے مالک ہو اور نہ اس کی۔ تم تو اس کی عمر اور روزی میں تھوڑا سا اضافہ بھی نہیں کر سکتے تمہیں جب اچانک موت اپنا لقمہ بنالے گیتو تم اپنی قبر میں جالیٹو گے اورا پنے اعمال میں گرفتار ہوجاؤ گے۔اور تمہارا پیارا بیٹا تمہارے بعد یتیم ہوجائے گا اور تمہارے وہ وارث جو زندگی میں تمہارے دوست رہے ہوں یا دشمن تمہارا سارا مال تقسیم کرلیں گے اور تمہارے اہل و عیال بکھر جائیںگے تب تم کہو گے ہائے کاش میں بھی شہداء کے ساتھ ہوتا اور بڑی کامیابی پاتا۔ تب تجھ سے کہا جائے گا کہ وہ کامیابی تو بہت دور ہوگئی اور تو ان سعادتوں سے محروم ہوکر بڑی حسرتوں میں جا پڑا اور اب تو اپنی نیکیوں اور گناہوں کے ساتھ تنہا ہوگیا۔اے غافل مسلمان! ذرا غور سے سن اللہ تعالیٰ تجھے ان دھوکوں سے نکالنے کیلئے جن میں تو پڑا ہوا ہے کیا تنبیہ فرما رہے ہیں:) ۹ (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ۔)لقمان:۳۳(لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آسکے بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا )شیطان( تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔یاد رکھ تیرا بیٹا اگر خوش بختوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے اور اسے جنت میں عنقریب اکٹھا فرما دیں گے اور اگر وہ بدبخت ہے تو ابھی سے یاد رکھ کہ جنت والے دوزخ والوں کے ساتھ اور خیر والے شروالوں کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوتے۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ تجھے شہادت کا رتبہ عطا فرمائیں تو قیامت کے دن تو اس کی شفاعت کر سکے اور تیری آج کی اس سےجدائی اس کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔اے مسلمان! اس چیز کی اپنے اندر حرص پیدا کر اور اس میں خوب محنت کر جو تجھے عذاب سے بچا سکے ورنہ کل تویہ حال ہوگاکہ :) ۱۰ (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ۔)عبس ۳۴۔ ۳۷ (اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے۔ ہر شخص اس روز ایک فکر میں ہوگا جو اسے)مصروفیت کیلئے( بس کرے گا۔بے شک یہ بالکل واضح بیان ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے۔] اے جہاد سے غفلت کرنے والے [ اگر تجھے اپنے کسی بھائی یا قریبی دوست یا محبوب رشتے دارکی جدائی گوارہ نہیں ہے تو پھر تو خود کو قیامت کا یہ سچا منظر یاد دلا:) ۱۱ (الأخِلاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلا الْمُتَّقِينَ۔ )الزخرف:۶۷()جو آپس میں( دوست )ہیں( اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار )کہ باہم دوست ہی رہیں گے(اگر تیری دوستی اللہ کیلئے ہے توپھر تم دونوں جنت کے اونچے مقامات پر اکٹھے ہوجاؤ گے ہاں! ان نعمتوں میں جو ہمیشہ رہنے والی ہوں گی اور اگر یہ دوستی اللہ کیلئے نہیں ہے تو پھر اس دن سے پہلے اس دوستی کو توڑ دو جس دن ہر شخص کا حشر اس کے یاروں کے ساتھ ہوگا۔ قیامت کے دن تو ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا اگر وہ اللہ سے ڈرنے والا ہے تو تمہیں فائدہ پہنچائے گا اور اگر وہ خود بدبخت ہے تو پھر تمہیں بھی نقصان پہنچائے گا اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ اس دنیاکے اکثر دوست ظالم اور بے وفا نکلتے ہیں اور مصیبت کے وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ان میں سے اکثر اس وقت تک دوست ہیں جب تک تم خوش حال ہو، مالدار ہو۔ اوراگر تم تنگ دستی کا شکار ہوئے تو وہ تمہارے دشمن ہوجائیں گےاور امتحان کے وقت تجھ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کردیں گے اگر تمہیں ان باتوں میں شک ہے تو کڑے امتحان کے بعد تمہیں ان پر ضرور یقین آجائے گا ہاں اگر اس برے ماحول میں بھی تمہیںاتفاقاً کوئی مخلص دوست مل گیا ہے جو وفا کا پکا اور دوستی کا سچا ہے تو پھر تمہیں آج کی جدائی پر غم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تم جیسوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:) ۱۲ (وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ۔)الحجر : ۴۷ (اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ان کو ہم نکال )کر صاف کر( دیں گے)گویا( بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔پس ایسے قریبی دوست تمہارے لئے جہاد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں کیونکہ ممکن ہے کہ تم دونوں جلد جدا ہو جاؤ۔ تب تم دوست سے بھی محرومہو جاؤ گے اور جہاد کے اجر عظیم سے بھی۔ اور اونچے درجات تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گےتب تم پچھتاؤ گے مگر یہ پچھتانا کچھ کام نہ آئے گا۔٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا اےمحمد) صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں دنیا میں جتنا رہ لو تمہیں ایک دن مرنا ہے اور جس سے چاہو محبت کرو بے شک تم نے اس سے جدا ہونا ہے اور جو چاہو عمل کرو تم نے اس کا بدلہ پانا ہے۔ )بیہقی(ان مختصر سے الفاظ پر غور کرو جن میں موت، دوستوں سے جدائی اور ہر عمل پر بدلے کا تذکرہ ہےکیا اس تنبیہ کے بعد بھی کسی تنبیہ کی ضرورت ہے۔] اے جہاد سے دور بھاگنے والے [ کیا تجھے تیرا عہدہ تیرا منصب اور تیری عزت جہاد میں نہیں نکلنے دیتی ہائے کاش تو غور کرتا کہ یہ منصب کسی ایسے شخص سے چھن کر تجھے ملا ہے جو اس کی محبت میں گرفتار تھا اور یہ عہدہ تیر ے لئے کسی ایسے شخص نے خالی کیا ہے جو کل تک اس پر بہت خوشتھا ۔ یاد رکھ ! اس عہدے اورمنصب نے جس طرح تجھ سےپہلے والوں کے ساتھ وفا نہیں کی تجھ سے بھی نہیں کرے گا اوربالا آخر تجھے پریشانی اورمحرومی کا تلخ احساس دیکر چھوڑ دے گا تیرے لئے آج کی اس معمو لی سی عزت اور مقام کوچھوڑنا مشکل ہے اوراس کی وجہ سے تو کتنے بڑے مقام سے محروم ہورہا ہے۔ یاد رکھ وہ آخری آدمی جو جنت میں داخل کیا جائے گا اسے دنیا کے بڑے بادشاہوں سے بڑھ کر بادشاہت اوراس دنیا سے دس گناہ بڑی جنت ملے گی ۔ یہ تو ادنیٰ جنتی کا حال ہے ذرا سوچو کہ انبیاء صدیقین شہداء اورصالحین کا کیا مقام ہوگا۔ مگر آجتو اس عہدے اورمقام کی خاطر مررہا ہے جو تجھے ہمیشہ تھکاوٹ اور پریشانی میں ڈالتا ہے اور جس کا انجام بہت برا ہے اور ا س کی وجہ سے تیرے دشمنوں اور حاسدوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ان کے دلوں میں تیری دشمنی پل رہی ہے اورجب یہمنصب تجھ سے چھن جائے گا تو تیرے دشمن تجھ پر قہقہے لگائیں گے اورتیرے نو کر خادم تجھ سے رخ موڑ جائیں گے اورتیرے پا ؤں چومنے والے تیری شکل دیکھنا گوارا نہیں کریں گے اورتو غم کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔٭ ایک روایت میں آیا ہے کہ جنت میں ایک معزز فرشتہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لے کر آئے گا جس میں لکھا ہوگا کہ یہ فرمان اس زندہکی طرف سے ہے جس پر موت آنے والی نہیں اس زندہ کی طرف جس پر اب موت نہیں آئے گی۔اے میرے بندے میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے اب میں تمہیں بھی ایسا بنارہا ہوں کہ تم جس چیز سے کہو گے ہو جاوہ ہو جائے گی۔٭ اور ایک روایت میں ہے کہ سب سے ادنیٰ جنتی وہ ہوگا جس کے سامنے پندرہ ہزار خادم ]حکم بجا لانے کے لئے [کھڑے رہیں گے اور ان میں ہر خادم کے تاج کا ادنیٰ موتی ایسا ہوگا جس کی روشنی سے مشرق منور ہوجائیں گے۔٭ایک اور حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ ادنیٰ درجے کا جنتی وہ ہوگا جس کے پاس اسی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ہوں گی اوراس کے لئے قیمتی موتیوں زمرد اوریاقوت کا اتنا بڑا محل بنایا جائے گا جو جابیہ ]شام [ سے صنعاء ]یمن [ تک ہوگا ]یعنی ان دو علاقوں کے درمیان جتنی مسافت ہے اس کا ایک محل اتنا بڑا ہوگا۔ )ترمذی(ذرا غور سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھی سنو۔)۱۳(وَالْمَلائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۔) الرعد ۲۳۔۲۴(اور فرشتے )بہشت کے( ہر دروازےسے ان کے پاس آئیں گے )اور کہیں گے ( تم پر رحمت ہو ) یہ تمہاری ( ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب )گھر (ہے۔اللہ تعالیٰ کی قسم یہ وہ نعمتیں ہیں جو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں اور عمل کرنے والوں کوا ن کے لئے بڑھ چڑھ کر عملکرنا چاہیے۔] اے جہاد سے منہ موڑ نے والے [ کیا تجھے تیرا خوبصورت محل ، اس کے سائے دار باغیچے، اس کی عالیشان عمارت ، اس میں موجودنوکر خادم اوراس کی آرائشیں جہادسے رو کے ہوئی ہیں۔ ہائے کاش تو غور کرتا کہ یہ تو مٹی، پتھر، گارے ، لوہے،لکڑی اوربانسوں کا بناہو ا ایسا گھر ہےجس کی اگر ہر روز صفائی نہ کی جائے تو اس میں کوڑا کرکٹ جمع ہوجاتا ہے اگر اس میں روشنی نہ جلائی جائے تو وہ سخت تاریک ہوجاتا ہے اگر اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو وہ گر جاتا ہے اور اگر دیکھ بھال کی جائے تو ایک نہ ایک دن اس نے ویرانے میں تبدیل ہوجاناہے ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ محل مٹی ہوجائے گا اس کے رہنے والے بکھر جائیں گے اور اس کے آثار تک مٹ جائیں گے اور اسکا نام تک بھلا دیا جائے گا۔٭ ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو ارشاد فرمایا تم جو عمارتیں بناؤ گے وہ ایک دن ویران ہوجائیں گی اورجو بچے جنو گے وہ ٭ ایک روایت میں ہے کہ ایکفرشتہ ہر دن یہ آواز لگاتا ہے تم بچے جنتے ہو مرنے کے لیے اور عمارتیں بناتےہو ویران ہونے کے لئے ۔ ) بیہقی (اے دھوکے میں پڑے ہوئے انسان ! آج تمہارےلئے موقع ہے کہ اپنے اس تباہ وویران ہوجائے والے محل کے بدلے ]جنت میں [ ایسے اونچے محلات لے لو جن کی تابندگی ہمیشہ کے لئے ہوگی اور جن میں نہریں بہتی ہوں گی اورجن میں پھلوں کی شاخیں جھکی ہوئی ہوں گی اور جن کی خوشیاں ہمیشہ دوبالا ہوتی رہیں گی۔ یہ محلات سونے چاندی کی اینٹوں کے ہوں گے ان میں رہنے والوں کو نہ کبھی تھکاوٹ پہنچے گی نہکوئی اورمصیبت اوران کی مٹی مشک کی ہوگی اوران کے کنکر موتی اورجواہرات کے ہوں گے ان میں جو نہریں بہتی ہیں وہ دودھ، شہد اورکوثر کی ہوں گی یہ محلات کہیں تو ستر میل لمبے موتیوں کو اندر سے تراش کر بنائے جائیں گے اور کہیں یہ سبز اورچمکدار زمرد کے ہوں گے اورکہیں سرخ یاقوت کے۔ایمان والوں کے لئے ان محلات کےہرحصے میں ایسی حوریں اورخادم ہوں گے جو دوسرے حصے کی حوروں اورخادموں کو دوری کی وجہ سے نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہاں کے بستر ریشم کے بنے ہوئے ہوں گے اوردو بستروں کے درمیان ان کی بلندی چالیس سال کی مسافت کی ہوگی۔ وہاں نہ تو نیند آئے گی نہ اونگھ بلکہ اہل جنت ان بستروں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں گے اورایک دوسرے سے گفتگو کررہے ہوں گے وہاں ہر وقت دستر خواں بچھے رہیں گے اورایسے تازہ پھلوں سے انکی مہمان نوازی کی جائے گی جونہ ختم ہونے والے ہوں گے اورنہ ضائع ہونے والے وہ جو پھل چاہیں گے وہی کھائیں گے اورپسندیدہ پرنددوں کے گوشت سے ان کی خاطر تواضع کی جائے گی۔جہاں تک ان کے مشروبات کا سوال ہے تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔) ۱۴ (مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِيذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ۔ )المطفین۔ ۲۵۔۲۶(شراب خالص سر بمہر جس کی مہر مشک کی ہوگی ۔ تو )نعمتوں کے(شائقین کو چاہیے کہ اسی میں رغبت کریں۔وہاں نہ کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی نہ پیشاب کی وہ نہ تھوکیں گے اورنہ ناک سے رینٹھ نکالیں گے۔ وہ جو کچھ کھائیں گے اس کا اثر ان کی کھال پر ظاہر ہوگا جی ہاں ایسا پسینہ جو موتیوں کی شکل میں مشک کی طرح خوشبودار ہوگا اورپھر ان کے پیٹ پہلے جیسے ہو جائیں گے۔ ]یعنی پسینے کے آتے ہی کھانا ہضم ہوجائے گا[وہاں کے خادم ایسے ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہیں جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔) ۱۵ (إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنْثُورًاوَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَسَعْيُكُمْ مَشْكُورًا)الدھر ۱۹۔۲۰۔۲۱۔۲۲(جب تم ان پر نگا ہ ڈالو تو خیال کر و کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں اوربہشت میں )جہاں (آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت اورعظیم)الشان (سلطنت دیکھو گے ان)کے بدنوں (پر دیبائے سبز اوراطلس کے کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اوران کاپروردگا ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا یہتمہارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش )خدا کے ہاں (مقبول ہوئی۔یہ جنت کی وہ نعمتیں ہیں جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں آگیا ہے ورنہ وہاں تو ایسی نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزرا ہے۔ )بخاری(اگر تم پوچھو کہ اہل جنت کتنے عرصے تک ان عظیم الشان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیںگے تو اسکا جواب یہ ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کبھی نہیں مریں گے ایسے جوان رہیں گےجن پر بڑھاپا نہیں آئے گا نہ تو کبھی بیمار ہوں گے نہ غمگین ہمیشہ خوش رہیں گے اور ان نعمتوں کے چھن جانے یا ختمہوجانے کے خوف سے محفوظ رہیںگے۔) ۱۶ (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلامٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔)یونس۔۱۰()جب وہ ( ان میں ) ان کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو بے ساختہ( کہیں گے سبحان اللہ ۔ اور آپس میں ان کی دعا سلام علیکم ہوگی اور انکا آخری قول یہ )ہوگا( کہ خدائے رب العالمین کی حمد )اور اس کا شکر( ہے۔اب تم خو د ہی انصاف کرو کہ تمہیں جنت کی یہ عظیم الشان بادشاہت چاہیے یا دنیا کا جلد فناہونے والا محل۔ اورغور کر و کہ اگر تم شہید ہوکر اس دنیاوی محل کو چھوڑ گئے تو تمہیں آگے کیا کچھ ملے گا۔) ۱۷ (وَلا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ)فاطر۔ ۱۴(اور)خدائے( باخبر کی طرح تم کوکوئی خبر نہیں دے گا۔]اے جہاد سے محروم رہنے والے[ اگر تم یہ کہتے ہو کہ میں ابھی اپنی اور اپنے اعمال کی اصلاح میں لگا ہوا ہوں ]کہ جب میری اصلاح ہوجائے گی تو جہاد میں جاؤں گا[ تو یہ بھی ایک خطرناک دھوکہ ہے اور خواہ مخواہ کی امید ہے اللہ تعالیٰ کی قسم اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وقت نہیں ٹلتا۔)۱۸(یاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللہ حَقّ ٌفَلاَ تَغُرَّنَّکُمُ الحَیوٰۃُ الدُّنْےَا وَلاَ ےَغُرُّنُّکُمْ بِاللہ الْغَرُوْرُ اِنَّ الشَّےْطٰنَ لَکُمْ عَدُوَّا اِنَّمَا یَدْ عُوْا حِزْبَہٗ لِےَکُوْ نُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔)فاطر۔ ۶-۵(لوگو!خدا کا وعدہ سچا ہے۔ تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ )شیطان ( فریب دینے والا تمہیں فریب دے ۔ شیطان تمہار ا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو۔وہ اپنے )پیروؤں کے( گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ ووزخ والوں میں ہوں۔تمہارا یہ عذر ]کہ میں اپنی اصلاح میں مصروف ہوں [ہر گز اولیاء اللہ صالحین کا طریقہ نہیں ہے بلکہ محض ایک شیطانی جال ہے۔ کیا حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بڑے بڑے تابعینتجھ سے زیادہ عبادت اورقرب الٰہی کے طالب نہیں تھے لیکن اگر وہ بھی تیری طرح جہاد کو ٹالتے رہتے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے لئے اتنے بڑے کارنامے سرانجام نہ دے سکتے اورنہ مشرکوں اورکافروں سے جہاد کر کے اتنے شہروں اورعلاقوں کو فتحکرتے ۔اے فتنے میں پڑے ہوئے انسان کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا۔) ۱۹ (انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ )توبہ۔۴۱(نکل پڑو )جہاد میں ( ہلکے اوربوجھل )یعنی ہر حال میں ( اور اللہ تعالیٰ کے رستے میں مال اورجانسے لڑو۔یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ بشرطیکہ سمجھو۔اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے عقل اورسمجھ دی ہے توپھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کر۔) ۲۰ (وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا۔ )النساء ۔ ۹۵(اور اجر عظیم کے ۔لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے۔٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ایک شخص کا جہاد کی صف میں کھڑا ہونا اپنےگھر میں رہ کر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔ )ترمذی(اے دھوکہ میں پڑے ہوئے انسان یاد رکھ کہ مجاہد کی نیند قیام الیل سے اور ہمیشہ کے روزے رکھنے سے افضل ہے۔ ان فضائل کا بیان اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آگے آئے گا۔آج تو جن اعمال میں لگا ہوا ہے کیا تجھے یقین ہے کہ یہ سب اعمال قبول ہورہے ہیں؟ کیا تیر ے سامنے قیامت کا ہولناک منظر نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم تو نہیں جانتا کہ تیر ے یہ اعمال تیری بخشش کا ذریعہ بنیں گے یاہلاکت کا۔) ۲۱ (وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔)النمعل۲۵(اور وہ تمہارے پوشیدہ اورظاہر اعمال کو جانتا ہے۔) ۲۲ (وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ۔ )آل عمران۔ ۱۵۸(اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ اللہ تعالیٰ کے حضور میںضرور اکٹھے کئے جاؤ گے۔اے جہاد سے غافل انسان! کیا تیریخوبصورت بیوی اور اس کے ساتھ تیری محبت اور اس کے ساتھ رہنےکی تیری چاہت نے تجھے جہادسے محروم کر رکھا ہے ذرا بتا؟ کیا تیری بیوی دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ حسین ہے؟ کیا وہ پہلے ایک گندی منی کا قطرہ نہیںتھی؟ کیا وہ آخر میں ایک مردہ لاش نہیں بن جائے گی؟ کیا وہ اپنے پیٹ میں غلاظت لئے نہیں پھرتی ؟ اس کا حیض تجھے کتنا عرصہ اس سے دور رکھتا ہےاور اسکی نافرمانی اس کی فرمانبرداری سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کچھ دن سرمہ نہ لگائے تو اس کی آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں اگر وہ زیب و زینت نہ کرے تو اس کے عیب ظاہر ہوجاتے ہیں اگر وہ کنگھا نہ کرے تو اس کے بال پرا گندہ ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ صفائی نہ کرے تو میلی کچیلی ہوجاتی ہے اگر وہ پاکی حاصل نہ کرے تو بدبو دار ہوجاتی ہے وہ زیادہ بیمار رہنے والی اوربہت تنگ کرنے والی ہے جب اس کی عمر بڑھ جاتی ہے تو وہ کسی کام کی نہیں رہتی اورجب بوڑھی ہوجاتی ہے تو بستر سے لگ جاتی ہے تواگر ساری زندگی اس پر احسان کرے تو غصے کے وقت وہ ان سبکو بھلادیتی ہے جیساکہ۔٭حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم ان عورتوںکے ساتھ پوری زندگی احسان کرتے رہوپھر اگر وہ تمہاری طرف سے تھوڑی سی تکلیف پاتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میں نے تو کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں پائی۔)بخاری(تجھے ہمیشہ اس کی جدائی کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور تو اس کی سرکشی سے ہمیشہ ڈرتا رہتا ہے اس کی محبت تجھے طرح طرح کی مصیبتوں ، تھکاوٹوں اورپریشانیوں میں ڈالتی ہے وہ تجھے اپنی ادنی سے ادنی خواہش پوری کرنے کے لئے ہلاکت میں ڈالنے سے دریغ نہیں کرتی ۔ وہ تجھ سے اس وقت تک محبت کرتی ہے جب تک اس کا مقصد تجھ سے پورا ہوتا رہتا ہے۔اورجب ایسانہ ہو تو وہ تجھ سے رخ پھیر لیتی ہے۔ اور تیرے علاوہکوئی اورڈھونڈنے لگتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہےکہ تم اس سے تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہو جب اسکے ٹیڑھے پن کو برداشت کرو۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایسی عورت کی محبت تجھے اس راستے سے ہٹا رہی ہے جس میں تجھے ایسی حوروں سے وصال نصیب ہوگا جو نور سے پیدا ہوئی ہیں اورجنت کے محلات میں پلی بڑھی ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم ابھی شہید کا خون خشک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ان گوری گوریبڑی بڑی آنکھوں والی حور عینا کو پالیتا ہے جن کا حسن بے مثالہے وہ پاک دامن کنوای ہیں ایسے موتی کی طرح جنہیں نہ کسی انسان نے چھوا ہے نہ کسی جن ان کی باتیں شیریں ہیں ان کا قد خوبصورت اور ان کے بال حسین ہیں وہ بڑی قدروقیمت والی ہیں ان کابرتن پاک ہے ان کی شکل و صورت بے حد حسین ہے۔ اور ان کے اخلاق بہت پیارے ہیں ان کے زیور چمکدار اورکپڑے بہت اعلیٰ ہیں وہ محبت کرنے والی ہیں اور ان میں تنگ کرنے کا مادہ ہی نہیں۔ وہ تیرے سواکسی پر نظر ڈالنے والینہیں ہیں وہ تجھ سے محبت کرنےوالی اورتیری ہر خواہش کوپورا کرنےوالی ہیں اگر ان میں سے کسی کا ناخن دنیا میں ظاہر ہوجائے تو چودھویں رات کا چاند اپنی روشنی کھودے۔ وہ اگر رات کے وقت اپنا کنگن دنیا پر کھول دیں تو دنیا بھر سے اندھیرا بھاگ جائےاگر وہ اپنی کلائی دنیا پر ظاہر کردیں تو پوری مخلوق ان کے عشق میں مبتلا ہو جائے ۔ اگر وہ آسمان وزمین کے درمیان جھانک کر دیکھ لیں تو ان دونوں کے درمیان خوشبو ہی خوشبو پھیل جائے۔ اگر وہ کڑوے سمندر میں تھوک دیں تو وہ میٹھا ہوجائےتو جب بھی انہیں دیکھے گا تیری نظروں میں ان کا حسن جمال بڑھ جائے گا ۔ کیا کسی عقلمند سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسی حسین مخلوق کے بارے میں سنے اور پھر گھر بیٹھا رہے۔اے جہاد سے غافل انسان! یہ بھی تو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لے کہ تیری اپنی دنیاوی بیوی سے جدائی یقینی ہے بلکہ یوں سمجھ کہ یہ جدائی ہو چکیہے]کیونکہ موت کا وقت مقرر ہے[ اگر وہ نیک عورت ہے تو جنت جیسی خوبصورت جگہ پر تم ضرور جمع ہوجاؤ گے وہاں تم اسے حورعین سے بھی زیادہ خوبصورت پاؤ گے اوراس میں سےوہ عادتیں اور چیزیں زائل ہوچکی ہوں گے جو تمہیں ناپسند ہیں وہاں اس کا حسن وجمال دیکھنے کے لائق ہو گا اور وہ پاکدامن کنواری اور حیض ونفاس سے پاک ،کالی آنکھوں والی اور سدا بہار حسن والی ہوگی۔ اس کا تمام ترتیڑھاپن ختم ہوجائے گا اور اس کا نور اورجمال بڑھ جائے گا اور وہ حسن وجمال اورنور میں حور عین سے بھی بڑھ کر ہوگی۔اس لئے تم آج اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اسے چھوڑ کر جہاد میںنکل پڑو۔ اللہ تعالیٰ وہ تمہیں بہتریں شکل میں لوٹا دیگا۔ بشرطیکہ وہ جنت کی مستحق ہوئی۔آخری بات یہ ہے کہ ]اے مسلمان بھائیو![ تمہیں جہاد سے دنیا کی کوئی بھی چیز غافل نہ کرنے پائے یہ دنیا رہنے کی یا آپس میں ملنے اورکچھ جمع کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں جو آج ہنستا ہے اسے کل رونا پڑتا ہے یہاں کی خوشیوں کے پیچھے غم چھپے ہوئے ہیں یہ دنیا بے وفائی ،مصیبتوں اورتھکاوٹوں کا گھر ہے جو اسے پانے کا ارادہ کرتا ہے وہ اس کے دھوکے اورجال میں پھنس جاتا ہے اوراس دنیا کی مصیبتیں اس پر چھاجاتی ہیں اورپھر وہ پچھتاتا ہے اور آنسوؤں کی جگہ آنکھوں سے خون برساتاہے۔]اے مسلمانو![ ا س غفلت سے بیدارہوجاؤ اور اس سے پہلے کہ دنیا کی گرفت تم پر مضبوط ہوجائے خود کو اس کی قید سے چھڑا لو اورتوفیق اورسعادت مندی کے راستے ]جہاد فی سبیل اللہ[ کو اختیار کرو۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت کی عظیم نعمت عطاء فرمادے۔کوشش کرو کہ کوئی بھی چیز تمہارے لئے اس راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ یاد رکھو عقلمند اور سیدھے راستے پر چلنے والا اور مضبوط عزم والا شخص وہی ہے جسے جہاد میں سے کچھ نہ کچھ حصہ نصیب ہو ا ہو۔ لیکن جو سستی اوردنیا کے دھوکے میں غرق ہوجاتا ہے اس کے قدم جہاد سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ پچھتاتا ہے مگر اس کا پچھتانا اسے کچھ کام نہیں آتا اورجب شہدا ء جنت کے اونچے بالا خانوں میں چلے جاتے ہیں تو وہ پیچھے حسرت اورافسوس کے ہاتھ ملتا رہتا ہے۔وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ۔)الاحزاب۔ ۴( اور اللہ تعالیٰ تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتاہے۔حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ۔)آل عمران۔ ۱۷۳(]آپ نے آٹھویں صدی ہجری کے ایک ایسے عظیم شخص کی دعوت جہادسنی جو خود ایک بڑنے عالم اورمحدث ہونے کے ساتھ ساتھ مجاہد بھی تھے اورنویں ہجریکے شروع میں وہ مسلمانوں کے ایک لشکر کی کمان کرتے ہوئے شہید ہوئے علم وعمل کے اس پیکر کے دل سے نکلی ہوئی دعوت نے یقینا آپ کے دل و دماغ پر دستک دی ہو گی اور آپ کو غفلت کی نیند سے بیدا ر کرنے کے لئے جھنجوڑ ا ہوگا۔ مصنف رحمہ اللہ کا مقصد ہرگزیہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں سے محبت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی ان کا یہ مقصد ہے کہ رشتے دار اوردوست احاباب ہمیشہ بے وفا ہوتے ہیں البتہمصنف رحمہ اللہ نے یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کیہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال وجان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور اس راستے میں کسی بھی چیز کو آڑ نہیں بننے دیتا چونکہ عام طور پر بیوی بچے اورمکان ودکان اوردنیا میں رہنے اور عہدے پانے کا شوق ہی جہاد کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے اس لئے انہوں نے ان تمام چیزوں کیدوحقیقت بھی بیان فرمادی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتی ہے اور انسان زندگی بھر اللہ تعالیٰ کی غلامی چھوڑ کر ان چیزوں کی غلامی کرتے کرتےمرجاتا ہے۔ اوردنیا میں بھی گھاٹا پاتا ہے اور آخرت کے لئے بھی کچھ نہیں کماتا۔ یہ بات یقینی ہے اور تاریخ کے اوراق اس کے گواہ ہیں کہ مصنف رحمہ اللہ کا زمانہ ہمارے زمانے سے بہت بہتر تھا اس زمانے میں بھی اگرچہ مختلف مسلمان حکمران ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان تھے مگر پھر بھی عمومیحالات اتنے دردناک نہ تھے جتنے آج ہیں اس زمانے میں مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کا اقتدرتھا، مسلمان حکمران دنیا کے اکثر کفار سے جزیہ وصول کررہے تھے۔کسی نہ کسی درجے میں بلکہ آج کے اعتبار سے تو بہت اچھے درجے میں اسلام بھی نافذ تھا اور دنیا میں کہیں پر بھی مسلمان مظلوم ومجبور نہیں تھے گویا کہ وہ ایسا دور تھا جب جہاد عام طور پر رفرض کفایہ کے درجے میں رہتا ہے۔ ایسے حالات میں عام طور پر لوگوں کے جہاد میں نکلنے کی دو ہی وجہیں ہوتی تھیں ۔ ایک تو اسلام کو دنیا کے آخری کونے تک نافذ کرنے کا عزم اوراللہ تعالیٰ کے ہاں اونچے مراتب حاصل کرنے کا شوق اورولولہ۔ اوردوسرا اپنے گناہوں کو بخشوانےاورجہاد کے ذریعے اپنی برائیوں کومعاف کرانے اورجنت پانے کاجذبہ مگر اب جبکہ پندرھویں صدی ہجری کے بھی اٹھا رہ سال گزر چکے ہیں حالات بہت زیادہ بدلے ہوئے ہیں۔ آج ہر طرف اسلام بے کس، بے سہارا اورمسلمان ہرطرف مظلوم ومجبور نظر آرہے ہیں دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کیحکومتیں ہیں وہاں بھی اسلام پردردناک مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور نام کے مسلمان حکمران منافقینسے بدتر کردار اپنا کر سیکولر ازم کا راگ الاپ رہے ہیں۔ مکہ، مدینہ اورحجاز کے زمینی خزانوں کی دولتیہود ونصاریٰ کی چاپلوسی میں قربان کی جارہی ہے اور اب مقدس مقامات کو کافروں کے ہاتھوںمیں یرغمال بنادیا گیا ہے۔ ترکوں جیسی اسلام کی خادم قوم کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی بیٹی کے سرسے دوپٹہ تک چھین لیا ہے اوروہ ترکی کو یورپ جیسا بیت الخلاء بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اپنی غلامی اورمظلومیت کے پچاس سالوں کا مسلسل حساب مانگ رہی ہے مگر اسے کہیں سے کوئی جواب سنائی نہیں دے رہا۔ افغانستان، وسطی ایشیاء، بوسنیا، کوسوواور فلسطین کی زمین ان لاشوں پر سے پردہ اٹھارہی ہےجو امت مسلمہ کی غفلت کی وجہ سے کفن اورنماز جنازہ کوترستی ترستی اب ہڈیوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ وہ پکار پکار کر اپنے لہو کا حساب مانگ رہی ہیں۔ سلمانرشدی اورتسلیمہ نسرین جیسے درندہ ذہن قلمکار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی ازواج مطہرات اور اسلام پر اپنے گندے ذہن کے چھینٹے پھینک کر بھی آزاد پھر رہے ہیں جبکہ ناموس رسالت کے محافظ اپنے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتیکابدلہ لینے سے بھی قاصر ہیں حالانکہ ان کی تعدادا ب ڈیڑ ھ ارب کے قریب ہے اور تو اور مسلمان اپنے ملکوں میں بھی کافروں کی غلامی کرنے اور ان کے بوٹ صافکرنے پر مجبور ہیں اللہ تعالیٰ کی قسم امت مسلمہ آج ان درد ناک حالات سے گزررہی ہے جسے سوچکر ذہن پھٹنے لگتاہے ۔ اورکلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ آج چاروں طرف سے اسلام کو نشانے لے لے کر مارا جارہا ہے۔ جبکہ اسلام کے محافظ مسلمان اندرونی اوربیرونی طور پر غلامی در غلامی کے رسوں میں جکڑے ہوئے بے بسی کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔آج اگر اعمال کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا زمانہ مصنف رحمہ اللہ کے زمانے کی بنسبت بہت زیادہ انحطاط کا شکا ر ہے اور ہر طرف گناہ ہی گناہپھیلے ہوئے ہیں آج جو انسان بچنا بھی چاہتا ہے وہ بھی نہیں بچ سکتا الامن رحم اللہ۔ سود جیسی لعنت آج ہمارے معاشرے میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے اگر سارے گناہوں کو ایک طرفرکھ دیا جائے تو ہماری تباہی کے لئے صرف یہی سود کا گناہہی کافی ہے فحاشی اورعریانی کا سیلاب آج عزتوں۔ حرمتوں اورانسانی قدروں کو بہا کر لے جارہا ہے۔ اوریورپ کے ننگے شکاری اس سیلاب کا رخ ہماری طرف پوری طرح موڑ چکے ہیں یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ آج ہم اپنے اصل راستے سے ہٹ چکے ہیں۔ اورہم اپنیطاقت اورقوت کھو چکے ہیں۔ اورآج ہم خود اپنے فیصلے نہیں کرتے بلکہ ہمارے فیصلے ہمارے دشمن کرتے ہیں اور ہم ان کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی طرح بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے وقت میں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف لوٹنا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے یہ بات ہمیں آسانی سے سمجھ آسکتی ہے بشرطیکہ ہم دل کی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کریں اوراخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں اپنی پریشانیوں کا حل تلاش کریں۔آج عرب وعجم کے مسلمانوں کی آزادی کا واحد راستہ جہاد ہے آج مسجد اقصیٰ کی خلاصی کا واحد راستہ جہاد ہے آج اسلام کو نافذ کرنے کا واحد راستہ جہادہے۔ دن مرجائیں گے۔)بیہقی(
No comments:
Post a Comment