عقائد میں احتیاط کے تقاضے
1: یا محمد یا رسول اللہ کہنا شرک نہیں2: ایک شبہ اور اس کا ازالہ
3: اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دعا کا طریقہ
4: مزاراتِ اولیاء پر دعا کا درست طریقہ
5: مزارات کے طواف اور شور و غل کی ممانعت
6: مزارات پر نذر و نیاز اور تبرک کی حقیقت
7: کلماتِ توسُّل میں احتیاط
8: سجدۂ تعظیمی اور قبر کی سمت سجدہ کرنے کی ممانعت
9: اَعراس سے متعلقہ اُمور میں احتیاط
10: مزارات کے درختوں کے نیچے منتیں ماننا
11: مختلف درختوں میں ارواحِ شہداء و اولیاء کا تصور کرنا
12: حلف میں احتیاط کا پہلو
13: ایصالِ ثواب اور نذر و نیاز کے طریقوں میں احتیاط
یا محمد کہنا
بعض لوگ جوشِ
توحید میں صیغۂ خطاب کے ساتھ آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کو استعانت بالغیر کہہ کر شرک قرار دیتے ہیں
اوراسے ناجائز سمجھتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے سے منع نہیں کیا بلکہ پکارنے کے آداب
سکھائے ہیں،
ارشادِ ربّانی ہے :
لَا
تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا
قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ
فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO
’’(اے
مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ
دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے
کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری
مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں
سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے
کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے
امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت
آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گاo‘‘
النور، 24 : 63
اس آیت کے
شانِ نزول کے بارے میں ائمہ تفسیر نے حضرت سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ
عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ’’یا محمد‘‘ اور ’’یا ابا القاسم‘‘ کہا
کرتے تھے۔
1۔ امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
فنهاهم اﷲ
تعالي عن ذالک بقوله سبحانه : لا تجعلوا. . . الآية إعظاما لنبيه صلي الله
عليه وآله وسلم، فقالوا : يا نبي اﷲ يا رسول اﷲ.
’’پس اللہ
عزوجل نے انہیں اپنے اس فرمان ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘
کے ذریعہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر منع
فرمایا۔ پس صحابہ نے بوقت نداء یا نبی اﷲ، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ) کہنا شروع کر دیا۔‘‘
آلوسی، روح المعانی، 18 : 204
تمام علمائے
امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
لاپرواہی اور بے توجہی و بے اعتنائی کے طور پر ذاتی نام سے پکارنا حرام ہے
اور یہ حکم حیاتِ ظاہری کے ساتھ مختص نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے۔ تمام
اہلِ ایمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز ہے خواہ
قریب ہوں یا بعید اور خواہ حیاتِ ظاہری ہو یا بعد از وصال۔ آیتِ مبارکہ
میں وارد ہونے والی نہی کا محل دراصل وہ عامیانہ لہجہ اور طرزِ گفتگو ہے جو
صحابہ اور اہلِ عرب ایک دوسرے سے بلا تکلف اختیار کرتے تھے۔ اس حکمِ نہی
میں مطلق ندا سے منع نہیں کیا گیا اس لیے تعظیم و تکریم پر مشتمل ندا جائز
ہے۔
دوسری اور اہم
بات یہ ہے کہ مدعائے کلام بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و
توقیر کی تعلیم ہے لہٰذا اگر صیغہ خطاب کے ساتھ ادب و تعظیم کا تقاضا
پورا نہ ہو اور عرفاً و معناً اس ندا سے گستاخی اور اہانتِ رسول کا پہلو
نکلتا ہو تو وہ ندا ممنوع اور حرام ہوگی وگرنہ نہیں۔ اہلِ ایمان حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام
لیے بغیر، منصبِ نبوت و رسالت کے ساتھ پکارتے ہیں تو اس میں محبت، ادب،
تعظیم اور توقیر مراد ہوتی ہے۔
نداء کے جواز
کا تیسرا سبب یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب و
بعید اور حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال تمام اہلِ ایمان کو تشہد میں سلام
پیش کرنے کا جو طریقہ تعلیم فرمایا اس میں دعا و پکار اور نداء بطریقِ
خطاب ہی وارد ہے۔ یہ تلفّظ محض حکایۃً نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے شبِ
معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا تھا بلکہ ضروری ہے
کہ ہر نمازی اپنی طرف سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه.
(یا نبی! آپ پر خاص سلامتی، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات
ہوں) کے کلمات کے ساتھ سلام پیش کرے۔ تمام اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے بطور
انشاء بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام بھیجنا لازم ہے۔
ذیل میں ہم اس سلسلے میں محدثین و محققین کی آراء پیش کرتے ہیں۔
2۔ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
اجمع الأربعة
علي أن المصلي يقول : أيُّهَا النَّبِيُّ. وأن هذا من خصوصياته عليه
السلام، إذ لو خاطب مصلٍ أحدًا غيره و يقول السلام عليک بطلت صلاته.
’’ائمہ اربعہ
کا اس امر پر اجماع ہے کہ نمازی تشہد میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا
النَّبِيُّ‘‘ کہے اور یہ اندازِ سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
خصوصیات میں سے ہے۔ اگر کوئی نمازی آپ کے علاوہ کسی ایک کو بھی خطاب کرے
اور ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ‘‘ کہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔‘‘
ملا علی قاري، شرح الشفاء، 2 : 120
3۔ امام جلال
الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبریٰ میں ایک مکمل باب قائم کیا
ہے اور اس خصوصیت کو درج ذیل عنوان سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے :
باب اختصاصه صلي الله عليه وآله وسلم بأن المصلي يخاطبه بقوله ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ ولا يخاطب سائر الناس.
’’یعنی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امر کے ساتھ مختص ہیں کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو صیغہ خطاب کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرتا ہے ’’اَلسَّلَامُ
عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ اور وہ تمام لوگوں کو مخاطب نہیں ہو
سکتا۔‘‘
سيوطی، الخصائص الکبري، 2 : 253
4۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ المواہب اللدنیہ میں اور امام زرقانی شرح المواہب میں اسی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ومنها أن
المصلي يخاطبه بقوله : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ
وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه کما في حديث التشهد والصلوٰة صحيحة. ولا
يخاطب غيره من الخلق ملکا أو شيطانا أو جمادًا أو ميتاً.
’’حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ نمازی آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ
وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه‘‘ کے کلمات کے ساتھ خطاب کرتا ہے جیسا کہ
حدیثِ تشہد میں ہے اور اس کے باوجود اس کی نماز صحیح رہتی ہے۔ وہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی فرشتے یا شیطان اور جماد
یا میت کو خطاب نہیں کر سکتا۔‘‘
زرقانی، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 308
5۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں کیا ایمان افروز عبارت لکھی ہے فرماتے ہیں :
واحضر فی قلبک
النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ
أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه
يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.
’’(اے نمازی!
پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ
مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا
النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. تیری امید اور آرزو اس معاملہ
میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے
کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں۔‘‘
غزالی، إحياء علوم الدين، 1 : 151
اس عبارت سے
یہ امر واضح ہوا کہ اگر خطاب اپنے ظاہری معنی و مفہوم میں نہ ہوتا تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کو مستحضر سمجھ کر سلام پیش کرنے کی
تلقین نہ کی جاتی۔
6۔ نماز میں
صیغۂ خطاب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہونے کی حکمت
امام طیبی نے بھی بیان کی ہے جسے امام ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں
نقل کیا ہے :
إن المصلين
لما استفتحوا باب الملکوت بالتحيات أذن لهم بالدخول في حريم الحي الذي لا
يموت، فَقَرَّت أعينهم بالمناجاة. فنبهوا أن ذلک بواسطة نبي الرحمة وبرکة
متابعته. فالتفتوا فإذا الحبيب في حرم الحبيب حاضر فأقبلوا عليه قائلين :
اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَة اﷲِ وَ بَرَکَاتُه.
’’بے شک نمازی
جب التحیات سے ملکوتی دروازہ کھولتے ہیں تو انہیں ذاتِ باری تعالیٰ حَیٌّ
لَا يَمُوْتُ کے حریمِ قدس میں داخل ہونے کی اجازت نصیب ہوتی ہے، پس
مناجاتِ ربانی کے سبب ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا ہوتی ہے۔ پھر انہیں متنبہ
کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
وساطت اور آپ کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ پس وہ ادھر توجہ اور
التفات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اپنے کریم رب کے حضور میں موجود ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
طرف یوں سلام پیش کرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہیں : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ
أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه.‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 2 : 314
7۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ صیغہ خطاب کی وجہ پر محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و بعضے از
عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقۃ محمدیہ است در ذرائر موجودات
وافراد ممکنات۔ پس آن حضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی باید
کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازین شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت
متنور و فائز گردد۔
’’بعض عرفاء
نے کہا ہے کہ اس خطاب کی جہت حقیقتِ محمدیہ کی طرف ہے جو کہ تمام موجودات
کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ پس حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں حاضر و موجود ہیں لہٰذا نمازی کو
چاہئے وہ اس معنی سے آگاہ رہے اور اس شہود سے غافل نہ ہو یہاں تک کہ
انوارِ قرب اور اسرارِ معرفت سے منور اور مستفید ہوجائے۔‘‘
عبد الحق الدهلوی، اشعة اللمعات، 1 : 401
8۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
ذکر کن او را و
درود بفرست بروے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و باش در حال ذکر گویا حاضر است
پیش تو در حالتِ حیات، و می بینی تو او را امتادب با جلال و تعظیم و ہیبت
وحیاء۔ بد آنکہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می بیند ترا و می شنید کلام
ترا زیرا کہ وے متصف است بصفات اﷲ تعالیٰ۔ ویکے از صفات الٰہی آنست کہ انا
جلیس من ذکرنی و پیغمبر را نصیب وافر است ازیں صفت.
’’(اے مخاطب!)
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کر اور ان پر درود بھیج
اور حالتِ ذکر میں اس طرح سمجھ کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات
ظاہری میں تیرے سامنے موجود ہیں، اور تو جلالت و عظمت کو ملحوظ رکھ کر اور
ہیبت و حیاء کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ
رہا ہے۔ یقین جان کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا
کلام سنتے ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ
تعالیٰ کی صفات کے ساتھ موصوف و متصف ہیں۔ ان صفاتِ ربانی میں سے ایک صفت
یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ
(میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو اس صفتِ الہٰیہ سے وافر حصہ حاصل ہے۔‘‘
عبد الحق الدهلوی، اشعة اللمعات، 2 : 621
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
بعض لوگوں کا
کہنا یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام بعد از وصالِ نبوی اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ
أَيُّهَا النَّبِيُّ کی بجائے اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ کہتے تھے
لہٰذا اب سلام بصیغہ خطاب کہنا جائز نہیں ہے اس لئے شرک ہے۔ ذہن نشین رہے
کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف اَلسَّلَامُ
عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه کے اندازِ
نداء و خطاب میں ہی سلام پیش کرنے کا طریقہ سکھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ میری ظاہری حیات میں تو مجھ پر
سلام نداء و خطاب کے ساتھ پیش کریں اور بعد از وصال بدل دیں۔ اگر بعد از
وصال نداء و خطاب کے انداز میں سلام پیش کرنا جائز نہیں تھا تو گویا حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشہد کے بارے میں تعلیم ادھوری اور ناقص رہ
گئی؟ (معاذ اﷲ) کیا کوئی عام مسلمان بھی یہ تصور کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
حضرت سیدنا
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں منبر پر بیٹھ کر نداء و
خطاب پر مشتمل تشہد و سلام کی تعلیم دی اور اکابر صحابہ کی موجودگی میں یہ
تلقین فرمائی اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ خطاب کے صیغہ کے
ساتھ سلام پیش کرنے پر اجماعِ صحابہ ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر اکابر
صحابہ نے اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کے صیغہ خطاب کے
ساتھ سلام پیش کیا ہے۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نداء و خطاب کے صیغہ
کے ساتھ سلام پیش کرنا واجب نہیں ہے لیکن وجوب کی نفی سے جواز بلکہ
استحباب کی نفی بھی لازم نہیں آتی کیونکہ خلفائے راشدین اور اہلِ مدینہ کا
اجماع اور جمہور امت کا اسی پر مداومت کے ساتھ عمل اس پر شاہدِ عادل اور
دلیلِ صادق ہے۔ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر قول بطور دلیل
ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں کہ جمہور امت کے نزدیک حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ نداء و خطاب کے ساتھ سلام پیش کرنا
بالکل جائز ہے۔
حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ اور بعد از وصال صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ سلف صالحین نے قریب اور بعید کی مسافت کے فرق کے بغیر
بصیغہ نداء و خطاب پکارا۔ مستند کتبِ احادیث اور سیر میں درجنوں واقعات
اس بات کی دلیل ہیں کہ اکابر اور سلف صالحین کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو بصیغہ خطاب پکارنے میں کسی قسم کے الجھاؤ اور شک و شبہ میں
مبتلا نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدہ صحیحہ کو بڑی شرح و
بسط کے ساتھ واضح کیا ہے۔
آئمہ تصوف نے
اپنے تمام معتقدات، تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت کو ٹھہرایا
ہے، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’یہ راہ یعنی
تصوف صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآنِ حکیم اور بائیں ہاتھ
میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ اِن دو چراغوں کی روشنی
میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے
اندھیروں میں پھنسے۔‘‘
فريد الدين عطار، تذکرة الأولياء : 9
سلسلہ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی فرماتے ہی
’’شیخ طریقت کا مسلک حجت نہیں ہے دلیل قرآن و حدیث سے ہونی چاہئے۔‘‘
عبد الحق، اخبار الاخيار : 81
اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دعا کا طریقہ
اولیاء اللہ
کے مزارات پر حاضری اور دُعا سے متعلق بعض طبقات کی سوچ اور طرزِ عمل
افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اِس کے جواز کا ہی
قائل نہیں بلکہ اِسے صریح شرک و بدعت گردانتا ہے۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ
عوام الناس کا ہے جسے اہلِ علم کی سند حاصل نہیں وہ بھی اِس سلسلہ میں
جہالت اور تفریط میں مبتلا ہے۔ جمہور مسلمانوں کا مزارات پر طریقِ حاضری و
دُعا نہایت معقول اور حزم و احتیاط کا آئینہ دار ہے۔ قاضی الحاجات، فریاد
رس اور حقیقی مشکل کشا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن مقربینِ بارگاہِ
الٰہی انبیاء و اولیاء کا دُعا میں توسل جائز ہے اور اِن کے توسل سے
دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔
اِس سلسلہ میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’قبورِ اولیاء
کی زیارات کے آداب میں سے ہے کہ زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب
پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے، اُسے سلام کہے، ہاتھ
سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور
قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ قبر
کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک
(بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ
نہیں ہے۔ علمائِ احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے
قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے
کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر
دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘
شاه عبدالحق، اشعة اللمعات، باب زيارة القبور 763
یہ بات ذہن
نشین رہے کہ صالحینِ اُمت کے مزارات کو بوسہ دینا ضروری اُمور میں سے نہیں
ہے لہٰذا اس عمل کو منکرین و مخالفین کے ردِعمل میں بے ادبی اور گستاخی
سمجھنا اچھا نہیں ہے۔ اکابر مشائخ کے ملفوظات اور اُن کے معمولات میں
احتیاط پسندی کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔
چنانچہ پیر سید مہر
علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِس سلسلہ میں لکھتے ہیں :
’بہتر یہی ہے
کہ اربابِ علم اور رہنمایانِ قوم میں سے کوئی آدمی مزارات کا بوسہ نہ لے
تاکہ دیکھا دیکھی میں بے علم اور عام اَن پڑھ لوگ گمراہی کے بھنور میں نہ
پھنس جائیں۔ کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے بوسہ اور سجدہ میں تمیز نہیں کر
سکتے۔‘‘
پير مهر علی شاه، تحقيق الحق : 159
مزاراتِ اولیاء پر دعا کا درست طریقہ
سلف صالحین نے قبورِ اولیاء پر حاضری دینے والے زائرین اور دُعا کرنے والوں کے لئے دو طریقے بیان کئے ہیں :
1۔ پہلا طریقہ
یہ ہے کہ دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کا محتاج اور فقیر ہے اور اپنی
حاجت اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے، مگر دُعا میں صاحبِ مزار کی روحانیت،
بزرگی اور اُس کی خدماتِ جلیلہ کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے
مانگتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ ’’اے میرے مولا! اِس صاحبِ مزار کی برکت
سے اور اُس رحمت و عنایت کے صدقے جو تو نے اس صاحب مزار پر کی ہے اور اسے
عظمت و بزرگی عطا فرمائی ہے، میری فلاں حاجت کو پورا فرما، کیونکہ حقیقی
عطا کرنے والا اور مرادیں پوری کرنے والا تو ہے۔‘‘
2۔ دوسرا
طریقہ یہ ہے کہ دعا مانگنے والا صاحبِ مزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہے کہ
’’اے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے! میری فلاں مراد اللہ تعالیٰ سے طلب کیجئے،
اللہ تعالیٰ مجھے میری مطلوب شے عطا کر دے۔‘‘ اِس طرح بھی سوال اللہ
تعالیٰ ہی سے کیا جاتا ہے کیونکہ حقیقی مشکل کشا وہی ذات ہے، لیکن یہ
اسلوب اختیار کرنا بطریقِ مجاز ہے جس کے تحت صاحبِ قبر کو بطور وسیلہ پیش
کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی اِس لئے جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے
کہ جسے چاہے اس کی التجا سنوا دے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی قبر
والا ہو یا زندہ چلتا پھرتا انسان، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے بغیر
نہیں سن سکتا۔ یہ امر بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کرنے والے کی آواز
کو قبر والے تک پہنچا دے اور پھر صاحبِ قبر عالمِ ارواح میں اللہ تعالیٰ
سے اُس حاجت مند کے مقاصد کو پورا کر دینے کی التجا کرے۔ اِس طریقے میں
بھی حاجت مند بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی سے مانگ رہا ہوتا ہے نہ کے صاحبِ
قبر سے۔
اِن نازک
اعتقادی اُمور کو بڑی احتیاط کے ساتھ عامۃ المسلمین کے سامنے بیان کرنا
چاہیے۔ بعض حضرات مزارات پر حاضری دیتے وقت ایسے اعمال و افعال کرتے ہیں جو
جمہور امت کے شعار کے خلاف ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاندین و
مخالفین کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے۔ اس میں قصور درحقیقت ہمارے ان بعض
ائمہ و خطبا کا ہوتا ہے جو ایسے نازک عقائد میں احتیاط کو ملحوظ نہیں
رکھتے اور بے جا تاویلات اور اُلٹے سیدھے دلائل عوام کی تائید کی خاطر
بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ناقص لوگوں کے ذہن اُلجھاؤ کا شکار ہو جاتے
ہیں۔
ہمارا یہ
عقیدہ ہے کہ حیات شیخ و مرشد سے دُعا کرانے کی صورت میں بھی حاجت مانگنا
اللہ تعالیٰ ہی سے متصور ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی تو اللہ تعالیٰ ہی سے
مانگتا ہے۔ کوئی ولی اللہ یا شیخِ طریقت یہ نہیں کہتا کہ ’’ اے حاجت مند!
یہ سب کچھ میں تجھے دے رہا ہوں، ‘‘ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ تم بھی اللہ
تعالیٰ سے مانگو اور ہم بھی اُسی سے تمہارے لئے دعا کرتے ہیں۔ بعض اوقات
کئی جہلا ’’پیر صاحب‘‘ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ’’یا صاحبِ مزار مجھے
اولاد دے دیں، صحت دے دیں یا فلاں مسئلہ حل کر دیں۔‘‘ ایسے موقعوں پر دین
سے محبت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بروقت
ایسے لوگوں کی اصلاح کر دی جائے۔
3۔ بزرگوں کے
نزدیک دُعا میں زیادہ پسندیدہ اور محتاط طریقہ یہی ہے کہ قرآن و سنت میں
منقول دُعائیں مانگنا معمول بنایا جائے اور حضرات انبیاء علیہم السلام و
اولیاء کرام کا وسیلہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے۔ اگر خاص
حاجت مانگنی ہو تو حضرات انبیاء و اولیاء و مقربینِ بارگاہ اِلٰہی سے اور
بالخصوص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درخواست کی
جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بے کس پناہ میں دُعا فرما دیں کہ ہماری
مشکلات آسان فرما دے اور حاجتیں بر لائے۔ یہ وہ محتاط طریقہ دُعا ہے جس
پر کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا۔ حزم و احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ
جہاں توہمات اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اُس راستہ کو
یکسر بند کر دیا جائے۔
باقی رہے خواص
تو اپنی خداداد بصیرت اور رُوحانی طاقت سے عالمِ کشف میں وہ صاحبانِ قبر
سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں اور صاحبِ مزار سے رابطہ بھی رکھتے ہیں۔ جہاں
صالحین کے مزار کی زیارت سے زائرین کو روحانی فیض و برکت حاصل ہوتی ہے
وہاں بعض اوقات صاحبِ ولایت و مقام زائرین سے صاحبانِ قبر کی رُوح بھی
روحانی برکت و فیض حاصل کرتی ہے۔
حضرات انبیاء
علیہم السلام اور اولیاء کرام کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ذاتی یا
مستقل طور پر متصرف ہیں یا اِس طرح تصرف و اختیار میں شریک سمجھنا کہ اللہ
تعالیٰ اُن کی شرکت کے بغیر کائنات کا نظام نہیں چلا سکتا، کفر ہے۔ اس طرح
کی ہر غلطی کی اصلاح کرکے اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ بزرگوں سے
عقیدت اپنی جگہ لیکن کسی بھی مسئلہ میں غلو جائز نہیں۔
مزارات کے طواف اور شور و غل کی ممانعت
کعبۃ اللہ کے
علاوہ کسی مقام یا قبر کا طوافِ تعظیمی منع ہے۔
فقہائے کرام نے قبرستان
میں خیرات اور شیرینی تقسیم کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ تقسیم کے وقت بچے
اور عورتیں شور و غل کرتے ہیں۔ قبرستان کا ادب و احترام قائم نہیں رہتا
لہٰذا ایسا کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے
۔ مساکین اور زائرین کے لئے
مزارات پر الگ اہتمام ہونا چاہیے۔
مقبولانِ بارگاہِ خداوندی کے اعراس میں
جو ناجائز افعال و اعمال کئے جاتے ہیں اِن سے صاحبِ مزار کو تکلیف و اذیت
پہنچتی ہے۔ اِس طرح صاحبِ مزار کا فیض اور برکت زائر کو نصیب نہیں ہوتی۔
خیرات کی چیزیں اُوپر سے پھینکنا اور لوگوں کا اُن کو بطور تبرک حاصل کرنے
کے لئے شور و غل کرنا، ایسے تمام اُمور غلط ہیں اور سلف صالحین نے اِن کی
حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس طرزِ عمل سے ایک تو رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے، دوسرا
مزار کا ماحول اور اُس کا تقدس پامال ہوتا ہے اور تیسرا اِس میںریاکاری
کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا ایسے تمام اُمور سے پرہیز کرنا چاہیے۔
مزارات پر نذر و نیاز اور تبرک کی حقیقت
مزاراتِ
اولیاء پر نذر و نیاز دینے اور وہاں ’’لنگر‘‘ پکانے یا کھانے کی حقیقت صرف
اتنی ہے کہ یہ ایک نیک عمل ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ یہ صدقہ
جاریہ کی ایک مستحسن صورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو
نواز رکھا ہے۔ ’’اطعام الطعام‘‘ تعلیمات قرآن و سنت کی معروف اصطلاح اور
اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ سورۃ الدھر میں اللہ
تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مخلص بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن میں
ضرورت مندوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا بنیادی خصوصیت قرار دیا گیا،
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَيُطْعِمُونَ
الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاO إِنَّمَا
نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا
شُكُورًاO إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًاO
’’اور (اپنا)
کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً)
محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو
محض اللہ کی رضا کیلئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار
ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیںo ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا
خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہےo‘‘
الدهر، 76 : 8 - 10
یہ کام اہل اﷲ
کے نزدیک نفلی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مخلوقِ
خدا کی خدمت دراصل اللہ تعالیٰ کو خوش رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا نمایاں وصف ہے اور اسوۂ حسنہ کے
اتباع میں تمام صوفیاء کا معمول رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود
یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کا سہارا اور ملجا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے مروی متعدد احادیث میں ’’اطعام الطعام‘‘ کی ترغیب اور حکم
موجود ہے۔ بلکہ بعض صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے اسلام کی تعریف اور بنیادی خصوصیات میں کھانا کھلانے اور
دوسرے کی خیر خواہی چاہنے کو شامل فرمایا۔ ملاحظہ ہو فرمان نبوی :
1۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کیا :
أَيُّ الْاِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ : تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفْ.
’’بہترین
اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو کھانا کھلائے
اور سلام کرے اس شخص کوجس کو تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب افشاء السلام، 1 : 19، رقم : 28
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تفاضل الإيمان، 1 : 65، رقم : 39
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في افشاء السلام، 4 : 350، رقم : 5194
2۔ اسی طرح
مشہور صحابی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی بجا آوری سے میں جنت کا حق
دار ٹھہر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أطْعِمِ الطَّعَامَ، وَ أفْشِ السَّلَامَ، وَصِلِ الْأرْحَامَ، وَصَلِّ بِالَّيْلِ وَالنَّاسُ نَيامٌ تَدْخُلُ الْجَنَّة بِسَلَامٍ.
’’ضرورت مند
کو کھانا کھلاؤ، سلام (سلامتی اور خیر خواہی) کو عام کرو، صلہ رحمی کرو
اور دوسرے لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم اٹھ کر نماز (تہجد) پڑھا کرو
(ان اعمال کے باعث تم) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ابن حبان، الصحيح، 6 : 299، رقم : 2559
2. حاکم، المستدرک، 4 : 144، رقم : 7174
3۔ حضرت
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اول کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ
تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوْا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّة بِسَلَامٍ.
’’لوگو! سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سو رہے ہوں، نماز پڑھو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب صفة القيامة، 4 : 652، رقم : 2485
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، 2 : 1083، رقم : 3251
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 451، رقم : 23835
4۔ حضرت
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اس سے مماثل روایت ہے جس میں حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطعام الطعام کو اﷲ کی عبادت کا ہم پلہ
عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا :
اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ أَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّة بِسَلَامٍ.
’’تم رحمٰن کی
عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو ان تین امور کی انجام دہی کے
ثمر کے طور پر تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
1. ترمذی، السنن، کتاب الأطعمة، باب فضل اطعام الطعام، 4 : 2870، رقم : 1855
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 170، رقم : 6587
3. دارمی، السنن، 2 : 148، رقم : 2081
4. بزار، المسند، 6 : 383، رقم : 2402
5. بخاری، الأدب المفرد، 1 : 340، رقم : 981
آپ نے قرآن و
سنت کے واضح احکام کو ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھلانے کا کس قدر اہتمام اور تاکید کے ساتھ ذکر
فرمایا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے متقی، پرہیزگار، مخلصین اور
محبین، اللہ تعالیٰ سے قربت اور اخلاص کا دعویٰ کریں اور اس کے محبوب رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت کا دم بھی بھریں لیکن ان کے ہاں
مخلوقِ خدا کو خیر خواہی نہ ملے، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب اور
عملی مظاہرہ نہ ہو چنانچہ مقربینِ بارگاہِ ایزدی جب حیات ہوتے ہیں خود بھی
مخلوق کے لیے سراپا خیر ہوتے ہیں، ان کے دوست دشمن، امیر غریب جاننے والے
اور غیر سب کے لیے ان کا دست عطا کھلا رہتا ہے اور جب وہ دنیا سے چلے جاتے
ہیں تو اس وقت بھی ان کے اس عمل خیر میں انقطاع نہیں ہوتا۔
چنانچہ ہم
دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں ایسے مزارات ہیں وہاں قائم لنگرخانوں
میں نادار، غریب اور مفلوک الحال لوگ پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ انہیں دو وقت
کا کھانا مفت ملتا ہے تو یہ خود ایک بہت بڑی انسانی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ
نے ان کی زندگی میں ان کے اخلاصِ عمل کو برکت سے نواز کر ان کے وصال کے
بعد بھی ایصالِ ثواب کی یہ سبیل جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ دراصل زمین پر
مائدۃ الرحمن (الوہی دسترخوان) ہے جس کی سعادت سے یہی عظیم المرتبت لوگ
نوازے جاتے ہیں۔ انسانی استطاعت و طاقت سے یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ صرف
اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت سے ہی اس قدر وسیع اسباب و وسائل میسر آتے
ہیں۔
برصغیر پاک و
ہند میں ایسے مزارات بکثرت موجود ہیں مثلاً سیدنا علی بن عثمان الہجویری
المعروف داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر رحمۃ
اللہ علیہ پاک پتن شریف، خواجہ ھند حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ
علیہ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہاؤ الدین
ذکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندی
رحمۃ اللہ علیہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح کے سینکڑوں مراکز اور
مقامات ہیں جہاں آج بھی ہزاروں اور لاکھوں ایسے لوگ کھانا کھاتے ہیں جو بے
روزگار اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ غریب اور یتیم بچے، عورتیں، بوڑھے اور
بیمار، سب بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب ان آستانوں پر آزادانہ کھاتے
پیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت داتا صاحب کے احاطۂ مزار میں ہر
روز 20 سے 30 ہزار لوگ مختلف شکلوں میں ’’لنگر‘‘ سے کھانا حاصل کرتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں بھوکوں، بے روزگاروں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا
کوئی معمولی بات نہیں۔
یہ تو صرف
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی عطاء سے ہی ممکن ہے ورنہ دنیا
کا کوئی بادشاہ، دولت مند شخص یا تنظیم ایسا کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں
رکھتی۔ پھر یہ سلسلہ دو چار دنوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری و
ساری ہے۔ ایسے نیک اور خدمتِ خلق پر مبنی عمل کو بلاسوچے سمجھے شرک و بدعت
اور حرام کہنا بجائے خود بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ اوپر ہم عرض کر چکے
ہیں کہ یہ ’’اطعام الطعام‘‘ کے فرمانِ الٰہی پر عمل درآمد کی ایک بہترین
شکل ہے۔ جائز مشروع اور مخلوقِ خدا کیلئے مفید عمل کو بلادلیل ناجائز عمل
کہنا دراصل دین میں تجاوز ہے۔ یہ ایک طرف کی سوچ اور نقطۂ نظر ہے۔
دوسری طرف اس
سے بھی زیادہ قباحتیں موجود ہیں۔ انہی قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
کئی لوگوں نے اس لنگر یا نذر و نیاز کے کھانے سے متعلق بہت سی خود ساختہ
باتیں گھڑ رکھی ہیں۔ کہیں اس کی شفا کے مبالغہ آمیز تذکرے کیے جاتے ہیں،
کہیں اس کے عدمِ استعمال پر انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے اور کسی جگہ کا
لنگر ہر گناہ اور معصیت سے چھٹکارے کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ بزرگانِ دین کے
مزارات اور ان کی قربت بلاشبہ باعثِ خیر و برکت ہے اور ان کے آستانوں پر
توسلاً اللہ پاک بیماروں کو شفا بھی دیتا ہے مگر یہ سب فوائد اضافی ہیں
بنیادی غرض و غایت تو ضرورت مندوں کی بھوک کا ازالہ ہے۔
علاہ ازیں بعض
مقامات اور مزارات پر اس نیک عمل کو بے جا پابندیوں اور اضافی شرطوں سے
خاص کردیا جاتا ہے مثلاً شیرینی کے ساتھ مختلف تحریریں لکھ دی جاتی ہیں جن
کے ذریعے زائرین پر نفسیاتی طور پر ترغیب و ترھیب سے اثر انداز ہونے کی
کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ’’یہ کھانے سے اتنے پھیرے اور اسی طرح کی نیاز کی
مزید تقسیم ضروری ہے۔‘‘ وغیرہ۔
یہ سب رسوم و
رواج جہالت اور مزارات کے غلط استعمال کی مختلف شکلیں ہیں ایسی قباحتوں سے
صاحبِ مزار کو یقینا تکلیف پہنچتی ہے اس لئے ایسے امور سے ہر ممکن بچنے
کی کوشش کرنی چاہیے۔ عرس کی شیرینی کھانے کے فضائل بیان کرنے اور نہ کھانے
والے کو محروم سمجھے جانے کی کوئی اصل نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت
محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ عرس کی شیرینی کے متعلق یہ
کہنا کہ جوکوئی اِس کو کھائے گا اُس کا جنت مقام و دوزخ حرام ہے یہ کہنا
شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
انہوں نے جواب
دیا : ’’یہ کہنا جزاف اور یاوہ گوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا
جنت مقام اور کس پر دوزخ حرام ہے۔ عرس کی شیرینی کھانے پر اللہ و رسول کا
کوئی وعدہ ایسا نہیں ثابت جس کے بھروسہ پر یہ حکم لگا سکیں۔ یہ تقول علی
اﷲ کے مترادف ہے اور وہ ناجائز ہے۔
قال اﷲ تعالی :
اَطَّلَعَ الْغَيبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا (مريم، 19 :
78)، قال اﷲ تعالی : أَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اﷲِ مَالَا تَعْلَمُوْن
(البقرة، 2 : 80).
ارشادِ باری
تعالیٰ ہے : ’’وہ غیب پر مطلع ہے یا اس نے (خدائے) رحمن سے (کوئی) عہد لے
رکھاہے؟ (اسی طرح) اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان
باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔‘‘
امام احمد رضا خان، فتاویٰ رضويه، 4 : 219
کلماتِ توسُّل میں احتیاط
اگر کوئی جاہل
یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ کے بغیر دُعا قابلِ سماعت
ہی نہیں یا وسیلہ کا معنی یہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر العیاذ باللہ
کوئی بوجھ یا دباؤ پڑتا ہے، تو ایسا عقیدہ باطل ہے جس کا سلف صالحین کے
ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مزارات پر فاتحہ کے طریقہ کے
متعلق پوچھا گیا کہ ’’بزرگوں کے مزارپر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا
کریں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’مزاراتِ شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی
طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلہ پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور
متوسط آواز میں مودِبانہ سلام کرے۔ ختم وغیرہ پڑھ کر اللہ عزوجل سے دعا
کرے کہ الٰہی اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ
اِتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اِسے میری طرف سے اِس بندہ مقبول کو نذر
پہنچا۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دُعا کرے اور صاحبِ
مزار کی رُوح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے۔ پھر اُسی
طرح سلام کر کے واپس آئے۔ مزار کو ہاتھ نہ لگائے، نہ بوسہ دے۔ طواف
بالاتفاق ناجائز ہے جبکہ سجدہ حرام ہے۔‘‘
امم احمد رضا خان، فتاویٰ رضويه، 4 : 212
سجدۂ تعظیمی اور قبر کی سمت سجدہ کرنے کی ممانعت
سجدہ اللہ
تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں۔ غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کھلا کفر ہے
اور سجدۂ تعظیمی حرام ہے بلکہ ایسا عمل بھی ممنوع ہے جو سجدہ کی سی مشابہت
رکھتا ہو وہ بھی مزارات پر نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
لَا تُصَلُّوْا إِلَی الْقُبُوْرِ وَ لَا تَجْلِسُوْا عَلَيْهَا.
’’قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ اُن پر بیٹھو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب النهی عن الجلوس علی القبر، 2 : 668، رقم : 972
2. نسائی، السنن، کتاب القبلة، باب النهی عن الصلوة إلی القبر، 2 : 67، رقم : 760
3. احمد بن حنبل، 4 : 135
عامۃ الناس
میں سے بعض لوگ مزارات کو بوسہ دیتے اور چوکھٹ چومتے ہیں یہ ناپسندیدہ
فعل، مکروہ کے زمرے میں داخل ہے مگر شرک کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ زمین بوسی حقیقتاً سجدہ نہیں کیونکہ سجدہ میں سات اعضاء کا بیک
وقت زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں زمین بوسی اِس وجہ سے ممنوع ہے کہ
مشابہتًا بت پرستی اور صورۃً قریبِ سجدہ ہے۔ حقیقتاً سجدہ نہ سہی پھر بھی
منع ہے۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے
اِس مسئلہ پر باقاعدہ الگ کتاب ’’الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ‘‘ لکھی
ہے جس میں انہوں نے ٹھوس دلائل سے سجدۂ تعظیمی اور خلافِ شرع اُمور کی
تردید فرمائی ہے۔
اَعراس سے متعلقہ اُمور میں احتیاط
متعلقاتِ
اعراس کے بارے میں مخالفین کا طرزِ عمل تو واضح ہے کہ وہ ہر جائز اور مباح
کو شرک و بدعت گردانتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے نصوص کے برعکس ہے لیکن ان
مبارک امور کو ماننے والے بھی بعض اوقات ان کی انجام دہی میں بڑی بے
احتیاطی کرتے ہیں لہٰذا انہیں محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پیر سید
مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِن نازک اُمور کے بارے میں لکھتے ہیں :
این طعن مبنی
است بر جہل بہ احوالِ مطعون علیہ زیرا کہ غیر از فرائض شرعیہ مقررہ را ہیچ
کس فرض نمی داند۔ آرے زیارت و تبرک بہ قبورِ صالحین و امدادِ ایشاں باہداء
ثواب و تلاوتِ قرآن و دعائے خیر و تقسیم طعام و شیرینی امر مستحسن و خوب
موجبِ فلاح و نجات است۔ و خلف را لازم است کہ سلف خود را بدیں نوع برّو
احسان نماید، چنانچہ در احادیث ثابت است کہ ولد صالح یدعو لہ۔ تلاوتِ قرآن
و اہدائے ثواب را عبادت قرار دادن، مبنی برکمالِ بلادت و افراطِ جہل است۔
آرے اگر کسے سجدہ و طواف بہ نحوِ یا فلاں افعل کذا آرد مشابہت بہ عبدۃُ
الاوثان کردہ باشد وچوں چنیں نیست پس در محل طعن نباشد۔
’’یہ طعن اور
اعتراض حقیقتِ حال سے عدم واقفیت کے باعث کیا گیا ہے اِس لئے کہ شریعت کے
مقرر کردہ فرائض کے سوا کوئی آدمی کسی شے کو اپنی طرف سے فرض نہیں سمجھتا۔
ہاں البتہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کرنا اور اُن سے فیض و برکت
حاصل کرنا اور قرآنِ حکیم کی تلاوت کے بعد اُن کی ارواحِ طیبہ کو ثواب کا
ہدیہ پیش کر کے اُن کی مدد کرنا، وہاں اچھی دُعائیں کرنا، مٹھائی یا کھانا
تقسیم کرنا ایک اچھا عمل ہے اور فلاح و نجات کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ بعد
میں آنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسلاف پر اس طرح کا احسان کریں
چنانچہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ نیک اولاد ماں باپ کے لئے دُعا
مانگے۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور اِس کے ایصالِ ثواب کو عبادت کے زُمرے میں
داخل کرنا بے وقوفی اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی قبر کے
سامنے سجدہ کرے یا اُس کا طواف کرے یا اِن الفاظ میں دُعا کرے کہ اے صاحبِ
مزار! میرا فلاں کام یوں کر دے، ایسا کرنا بتوں کے پجاریوں سے مشابہت
پیدا کرتا ہے۔ چونکہ اولیاء اللہ کی قبروں پر آنے والے اِس طرح کا کوئی
عمل نہیں کرتے اِس لئے اُن پر اِس قسم کا طعن درست نہیں ہے۔‘‘
مهر علی شاه، اعلاء کلمة اﷲ : 66
یہ ایک حقیقت
ہے کہ کسی بھی مزار پر جا کر براہِ راست اُنہیں حاجت روا سمجھ کر ایسے
الفاظ کہنا جائز نہیں۔ اِس سلسلہ میں ہمیں لوگوں کو صحیح اور متوازن طریقہ
بتاتے رہنا چاہیے۔ مشکل کشا، داتا گنج بخش، غریب نواز، دستگیر وغیرہ جیسے
القابات جو بزرگوں کے ساتھ اِستعمال کیے جاتے ہیں، مجازاً کئے جاتے ہیں۔
اِن الفاظ کو حقیقتاً اور مستقلاً کسی کے ساتھ بھی اِستعمال کرنا جائز
نہیں۔
مزارات کے درختوں کے نیچے منتیں ماننا
بعض مزارات کے
قریب بیری وغیرہ کے درخت ہوتے ہیں جن کے نیچے لوگ چادریں بچھا کر بیٹھتے
ہیں۔ اگر بیر گرے تو اُس کا احترام بجا لاتے ہیں اور اُس سے روزہ افطار
کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ بیری کے پھل سے بیٹے کی فال نکالتے ہیں اور اگر
پتے گریں تو بیٹیوں کی فال نکالتے ہیں۔ کوئی شخص خود بیر توڑ لے تو اُسے
بھی سخت برا گردانتے ہیں۔ یہ تمام اُمور توہم پرستی کو فروغ دینے والے ہیں
اور ایسے تمام اُمور بے بنیاد ہیں اور شرعاً ان کی کوئی اصل نہیں لہٰذا
علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں۔
اسی طرح قبر
بلامقبور کی زیارت کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ بعض جہلاء فرضی مزارات بنا
کر اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرتے ہیں جس کی فقہائے کرام نے اجازت نہیں
دی۔ جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلا نی رحمۃ
اللہ علیہ کے نام سے مزارات وغیرہ بنائے ہوئے ہیں جن پر عرس کرتے ہیں۔
محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ ’’پیرانِ پیر
رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے بعض جگہ مزار بنا لیا گیا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے
ہیں کہ اِن کے مزار کی اینٹ دفن ہے۔ اِس مزار میں ایسی جگہ جا کر عرس
کرنا، چادر چڑھانا کیسا ہے وہ قابلِ تعظیم ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا :
’’جھوٹا مزار بنانا اور اُس کی تعظیم جائز نہیں۔‘‘
فتاویٰ رضويه، 4 : 116
اِسی طرح بعض
اولیاء اللہ کے مزارات کے قریب ایسے درخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں
میں مشہور ہوتا ہے کہ اِن کے کاٹنے سے صاحبانِ مزار ناراض ہو جاتے ہیں
لہٰذا اِنہیں کاٹنا مقاماتِ حرم کی طرح حرام ہے۔ یہ سراسر جہالت ہے اور یہ
بھی شرک فی التحریم ہے۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ درست اور غلط عقیدے
میں امتیاز پیدا کریں اور ایسے شرکیہ عقائد سے عوام و خواص کو منع کریں۔
سر پر چوٹی رکھنا
مردوں کا سر
پر کسی بھی بزرگ کے نام پر چوٹی رکھنا اور پھر کٹوانے کی نذر و منت ماننا
شرعاً جائز نہیں۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت عمدہ
لکھا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض
فقیر چوٹی رکھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ حرام ہے، حدیث میں آیا ہے :
أَنَّ
النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَعَنَ الْمُتَشَبِّهِيْنَ مِنَ
الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ
بِالرِّجَالِ. [ابن ماجة، السنن، کتاب النکاح، باب فی المخنثين، 1 : 614،
رقم : 1904].
’’حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں
اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں، لعنت کی ہے۔‘‘
احمد رضا خان، الملفوظ، 2 : 210
بچوں کے سر پر
اولیاء کے نام کی چوٹی رکھنے کے متعلق حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
مزید لکھتے ہیں : ’’بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض
اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اِس کی کچھ میعاد مقرر کرتی
ہیں۔ اِس میعاد تک کتنی ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں،
پھر میعاد گذار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اُتارتی ہیں تو یہ محض بے اصل و
بدعت ہے۔‘‘
فتاوي افريقه : 68
مختلف درختوں میں ارواحِ شہداء و اولیاء کا تصور کرنا
کئی دیہاتوں
میں بعض جہلاء درختوں کے ساتھ عجیب و غریب داستانیں وضع کئے ہوئے ہیں اور
فرضی قصے کہانیاں سنا کر مجاور لوگ لنگر کے لئے تحائف و ہدایا اکٹھے کرتے
ہیں۔ اِن سے متعلق محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مسئلہ پوچھا گیا : ’’کیا
فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اِس صورت میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت
پر شہید مرد ہیں اور فلاں طاق میں شہید مرد رہتے ہیں اور اُس درخت اور
اُس طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو فاتحہ، شیرینی اور چاول وغیرہ دلاتے
ہیں، ہار لٹکاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں اور ایسا دستور
اِس شہر میں بہت جگہ واقع ہے، کیا شہید مردان درختوں اور طاقوں میں رہتے
ہیں اور یہ اشخاص حق پر ہیں یا باطل؟‘‘ محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس
سے منع کرتے ہوئے جواب دیا : ’’یہ سب واہیات و خرافات اور جاہلانہ حماقات و
بطالات ہیں اِن کا ازالہ لازم ہے۔ ما أنزل اﷲ بها من سلطان ولاحول ولا
قوة إلا باﷲ العلي العظيم.‘‘
احمد رضا خان، احکام شريعت، 1 : 32
حلف میں احتیاط کا پہلو
شرعی حلف اللہ
تعالیٰ کے نام کا ہوتا ہے تاہم فقہائے اُمت کے نزدیک کلام اللہ اور حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر بھی حلف منعقد ہوجاتا ہے اور
مستقبل میں کسی اَمر کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانا اور پھر توڑ دینے کی
صورت میں کفّارہ لازم ہو جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی اور کے
نام کا حلف اُٹھائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اِس کی حرمت اور حیثیت اُسی طرح
ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی یا کلام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے حلف کی، تو یہ عقیدہ اصلاح طلب ہے کیونکہ اعتقاداً کسی اور کے نام
پر قسم کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی قسم کی مثل جاننا شرک ہے۔ اگر کوئی شخص
بوجہ جہالت یا سہواً کسی اور کی قسم اُٹھائے تو وہ شرعی حلف نہیں ہوگا
اِس لئے اِس پر کفّارہ لازم نہیں۔
ایصالِ ثواب اور نذر و نیاز کے طریقوں میں احتیاط
نذر و نیاز
برائے ایصالِ ثواب اور گیارہویں شریف وغیرہ جیسے مباح مستحب اور مستحسن
اُمور کے بارے میں بعض علاقوں میں بہت سی چیزیں بوجہ جہالت رواج پا گئی ہیں
جو ازروئے شرع جائز نہیں مثلاً کوئی یہ کہے کہ اگر اُس نے گیارہویں کا
دودھ نہ دیا تو اِس کی وجہ سے بھینس یا گائے مر جائے گی، وہ بیمار ہو جائے
گی یا رزق کم ہو جائے گا، اولاد کی موت واقع ہو جائے گی، گھر میں نقصان
ہو جائے گا۔ اِسی طرح کاروبار اور کھیتی میں بزرگوں کا حصہ یعنی زکوٰۃ اور
عشر شرعی وغیرہ سے الگ بزرگوں کی سالانہ شیرینی جو عوام میں مروج ہے یہ
شرعاً دینا تو جائز ہے لیکن نہ دینے پر توہم پرستی کو فروغ دینا جائز نہیں
ہے۔ یہ تمام باتیں بوجہ جہالت فروغ پا جاتی ہیں اور پھر لوگ اِن کے ساتھ
نفع و نقصان کا عقیدہ وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ شرک فی العبادت ہے لہٰذا
اِن اُمور سے بچنا ضروری ہے۔
ائمہ اہلِ بیت
اطہار کے لئے نیاز برائے ایصالِ ثواب مسلمانوں کا معمول ہے۔ اس عمل میں
بھی بعض حالتوں میں افراط و تفریط کا عنصر موجود ہے۔ اس مستحب عمل کو بجا
لانے والے اگر نذر کی طرح فرض اور واجب سمجھ کر اسے ادا کریں تو یہ بھی
احکامِ شریعت سے انحراف ہے۔ اسی طرح اس کے رد عمل میں بعض لوگ اس مستحب
عمل کو قطعی حرام اور شرک کے زمرے میں شامل کرکے ختمِ نیاز وغیرہ کا
اہتمام کرنے والوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ عمل مستحب ہے اس میں
حرمت اور شرک کی کوئی علت موجود نہیں ہوتی۔ ایسی نذر و نیاز کے ساتھ بعض
لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کی شرائط و حدود اور پابندیاں عائد کرتے ہیں
مثلاً فلاں شخص کھا سکتا ہے، فلاں عورت نہیں کھا سکتی، گھر سے باہر لے
جانا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِسی طرح اولیاء اللہ کے نام جانوروں کو منسوب کر
کے اُن کا احترام بجا لانا، اُن سے کوئی کام لینا شرعاً حرام سمجھنا اور
اُن کی بے حرمتی کو بھی حرام سمجھنا ایسا عقیدہ شرک فی التحریم میں شمار
ہوتا ہے لہٰذا عوام پر ایسی باریکیاں واضح کر دینی چاہئیں۔
No comments:
Post a Comment