علما کا اللہ سے سرکشی کرنےوالے حکمرانوں سے میل جول
(احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں)
قرب قیامت علما کا اللہ کے باغی اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خاموش رہنا اور ان سے میل جول رکھنا:
علمائے دین انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطاکردہ شریعت کے امین، علومِ دینیہ کے محافظ ،اہل اسلام کے ہادی و رہنما اور امتِ مسلمہ کے سروں کے تاج ہیں۔
لیکن کچھ علماء ہیں جو دین کا سودا کرتے ہیں انکے بارے میں اللہ فرماتا ہے
(البقرۃ:۱۷۳۔۱۷۵)
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور ا س کے معاوضے میں متاعِ قلیل وصول کرتے ہیں ،کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پیٹ آگ سے بھررہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ ان سے بات بھی نہیں کرے گا ،نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کی اور مغفرت چھوڑ کر عذاب کو چن لیا ،سو کتنے باہمت ہیں آگ کا عذاب سہنے کے لیے‘‘۔
آخری زمانے میں علمائے سوء کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی لرزا دینے والی پیشین گوئیاں کی ہیں ،جنہیں پڑھ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں
امام ترمذی ؒ ’’نوادر الاصول‘‘میں حضرت ابو امام رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکون فی امتی فزعۃ فیصر الناس الی علمائھم فاذا ھم قردۃ وخنازیر
’’میری امت میں ایک وحشت ناک واقعہ ہوگا،پس جب لوگ (گھبراکر) اپنے علما کی طرف پلٹیں گے تو دیکھے گے کہ وہ بندر اور خنزیر (بن چکے) ہوں گے‘‘۔
تفسیر ’’الدرالمنثور فی التاویل بالماثور‘‘ میں ابن ابی الدنیا ؒ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ
مالک بن دینار ؒ نے فرمایا:
بلغنی ان ریحاً تکون فی آخرالزمان وظلمۃ فیفزع الناس الی علمائھم فیجدونھم قد مسخوا
’’مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ آخری زمانے میں ایک ہوا چلے گی اور اندھیرا چھا جائے گا ۔پس جب لو گ گھبرا کراپنے علما کےپاس پہنچے گے تو انہیں مسخ شدہ حالت میں پائیں گے‘‘۔
نیز بعض احادیث مبارکہ میں بعد کے زمانوں کے ان علما کا بھی تذکرہ ہے جو اس امت کو جہاد فی سبیل اللہ سے روکیں گے اور کہیں گے کہ جہاد کا دور گذرچکا،اب تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے،تہذیب و تمدن کا دور ہے،جدید ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ایسے میں قتل و قتال کی بات کرنا ،گردنیں مارنے اور پور پور پر ضرب لگانے کا تذکرہ چھیڑنا ،غنیمت چھیننے اور ذمی بنانے کے عزائم رکھنا ،قیدی پکڑنے اور غلام و لونڈیاں بنانے کے احکامات یاد دلانا کیونکر مناسب ہوسکتا ہے؟
چنانچہ امام ابن حماد ؒ
اپنی کتاب السنن الوردۃ فی الفتن میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا۔ اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کےعلما یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا ۔
صحابہ ؓ نے پوچھا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے؟
آپ نے فرمایا:
’’ہاں وہ جس پر اللہ کی لعنت،فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو!‘‘۔
جب کہ کنز العمال کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
اولئک ہم وقود النار
یہی لو گ جہنم کا ایندھن ہوں گے‘‘۔
اے وارثین انبیاء! حکمرانوں کی قربت سے بچو!
امام دیلمی ؒ حضرت ابو الاعور رضی اللہ عنہ سے اورامام بیہقی ؒقبیلہ بنی سُلیم کے ایک فرد سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایا کم وابواب السلطان
’’خبردار! حاکم کے دروازوں پر نہ جانا‘‘۔
امام بیہقی ؒ نے ہی روایت نقل کی ہے کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اتقوا ابواب السلطان
’’حاکم کے دروازوں پر جانے سے بچو‘‘۔
امام ہناد بن سری ؒ نے الزھد میں حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کے حاکم سے قرب میں اضافہ ہو گا، اس کی اللہ سے دوری میں بھی اضافہ ہوتا چلاجائے گا‘‘۔
امام دیلمیؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص صاحبِ اقتدار کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے دونوں بازؤں کے پھیلاؤ کے برابر دور ہوجاتے ہیں‘‘۔
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ''مسند'' میں اور امام دیلمی ؒ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حاکم کے دروازوں سے اور ان کے دربانوں سے بچو، کیونکہ جو ان (دروازوں) سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور ہوتا ہے، اور جو کوئی کسی حاکم کو اللہ پر ترجیح دیتا ہے تو اللہ اس کے دل میں ظاہری و باطنی فتنہ ڈال دیتے ہیں، اس سے تقویٰ چھین لیتے ہیں اور اس کو حیران و پریشان چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خبردار! حکمران کے پاس نہ بیٹھنا، اس لیے کہ اس ( کے پاس بیٹھنے) سے (تم اپنا) دین کھو بیٹھو گے۔ اور خبردار! اس کی اعانت نہ کرنا، اس لیے کہ اس کے حکم سے خوش نہ ہوگے‘‘۔
اما م بخاری ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں اور امام ابن سعد نے ’’طبقات‘‘ میں نقل کیا ہے کہ
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’آدمی حکمران کے پاس اپنے دین کے ہمراہ جاتا ہے لیکن جب نکلتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام نسائی ؒ ، امام بیہقی اور امام ترمذی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
من سکن البادیۃ جفا،ومن اتبع الصید غفل، ومن اتی ابواب السلاطین افتن
’’جو شخص جنگل میں رہے گا اس کا دل سخت ہوجائے گا،اور جو شکار کے پیچھے بھاگے گا وہ (دین کے کاموں سے) غافل ہوجائے گا ،اور جو حکمرانوں کے دروازوں پر حاضر ہوگا وہ فتنے میں مبتلا ہوجائے گا''۔
(امام ترمذیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام بیہقی ؒ اورامام احمد بن حنبل ؒکی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کردہ حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں :
وما ازداد عبد من السلطان دنوا الاازداد من اللّٰہ بعدا
’’اور جتنا کوئی شخص حاکم کا قرب اختیار کرے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا‘‘۔
امام حاکم ؒ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’میرے بعد بادشاہ آئیں گے، فتنے ان کے دروازوں پریوں (ڈیرے جمائے) ہوں گے جیسے اونٹوں کی قیام گاہ پر (اونٹ بیٹھے) ہوتے ہیں۔ وہ جسے بھی (دنیا کے سامان میں سے) کچھ دیں گے، اسی کے برابر اس کے دین میں سے بھی لے لیں گے‘‘۔
امام احمد بن حنبل ؒ، امام بزار ؒ اور امام ابن حبان ؒ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آئندہ کچھ امراآئیں گے ،پس جو شخص ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
’اور ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم (کے کاموں) میں ان کی مدد کی تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ،اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ہرگز حوض (کوثر) پر نہیں آئے گا (اس کے برعکس) اور جو شخص نہ ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ’اورنہ ہی ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) نہ ان کے ظلم میں ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کے جھوٹ کی تصدیق کی تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوض پر آنے والا ہے‘‘۔
امام ابو عمرو الدانی ؒنے کتاب الفتن میں حسن سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ امت اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں اور اس کے سایہئ رحمت میں رہے گی جب تک کہ اس کے قاری (یعنی علما) اس کے امراسے نہ لپٹیں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکون فی آخر الزمان علماء یرغبون الناس ولا
یرغبون ،ویزھدون الناس فی الدنیا ولایزھدون،وینھون عن غشیان الامراء ولا ینتھون
’’آخری زمانے میں ایسے علما ہوں گے جو لوگوں کو آخرت کی طرف راغب کریں گے اور خود راغب نہ ہوں گے ،لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دیں گے اور خود بے رغبت نہ ہوں گے ،اور امرا(حکام ) سے میل ملاپ رکھنے سے منع کریں گے اور خود اس سے باز نہ آئیں گے‘‘۔
حافظ ابو فتیان دہستانی ؒنے اپنی کتاب ’’التحذیر من علماء السوء‘‘میں ،امام رافعی ؒ نے تاریخِ قزوین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض (وفی روایۃ اھون) الخلق الی اللّٰہ تعالیٰ العالم یزور العمال
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین (ایک اور روایت کے مطابق’حقیر ترین‘) مخلوق وہ عالم ہے جو حکومتی اہلکاروں سے میل جول رکھتا ہے‘‘۔
امام ابن عدی ؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض الخلق الی اللّٰہ عالم السلطان
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین مخلوق حاکم کا (درباری ) عالم ہے۔
امام دیلمیؒ ''مسند الفردوس '' میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا رأیت العالم یخالط السلطان مخالطۃ کثیرۃ فاعلم انہ لص
’’اگر تم کسی عالم کو حاکم سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھتے دیکھو، توجان لو کہ وہ چور ہے‘‘۔
رواه الديلمي ( 1/1/57 ) ، وأما المناوي فقال :" إسناده جيد " ! (26/1)
حکیم ترمذی ؒ نے نوادر الاصول میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایا ں تھے ،انہوں نے میری داڑھی پکڑ کر فرمایا
’’انا للہ وانا الیہ راجعون! کچھ دیر پہلے میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کی امت آپ کےبعد کچھ زیادہ نہیں ،بس تھوڑی ہی مدت میں فتنے
میں مبتلاء ہوجائے گی ۔میں نے پوچھا : وہ کس وجہ سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ان کے علمااورامراء کی وجہ سے ۔ امراء عام لوگوں کے حقوق روکے رکھیں گے ، اور (لوگوں کوان کے حقوق) نہیں دیں گے، اورعلما‘ امراء کی خواہشات کے پیچھے چلیں گے‘۔
امام ابن ماجہ ؒ ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امرا (حکام) کےہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ،جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا، اسی طرح ان امراکی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
امام ابن عساکر ؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا ۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اوران سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لوگ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کردے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا !جبکہ ایسا ہونہیں سکتا،کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے’الثواب‘میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص قرآن پڑھ لے اور دین میں تفقہ حاصل کرلے ،اور پھر حاکم کے دَر پر اس کی خوشامد کرنے اور اس کی دولت ( بٹورنے ) کی لالچ میں جائے تو وہ ( اس راہ میں ) جتنے قدم اٹھائے گا، اتنا ہی جہنم میں گھستا چلا جائے گا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے ہی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے قرآن پڑھا اور دین کی سمجھ بوجھ حاصل کی، اور پھر صاحب اقتدار کے پاس اس کے مال و دولت کی لالچ میں گیا تو اللہ اس کےدل پر مہر لگادیں گے، اور (آخرت میں) اسے ہر روز دو(٢) ایسے عذا ب دیےجائیں گے جو اس سے پہلے اسے نہ دیے گئے ہوں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا، اس کی خوشامد کرنے کے لیے اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلا جائے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے۔ اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم ) پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی، اور جیساعذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا‘‘۔
اما م ابو داؤد ؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو نقص پیدا ہواتھا وہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے ملاقات کرتا تھا تو یہ کہتا تھاکہ: اے فلاں! اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور جو تم کررہے ہواس کو چھوڑ دو، اس لیے کہ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس کی اسی شخص سے اگلے روز دوبارہ ملاقات ہوتی تھی اور وہ اپنے سابق حال پر قائم ہوتا تھا۔لیکن یہ چیز مانع نہیں ہوتی تھی اُس (پہلے شخص) کےراستے میں کہ وہ اس کا ہم پیالہ اور ہم نشین بنے۔ جب انہوں نے یہ روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو آپس میں مشابہ کردیا۔
(پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ المائدۃ کی یہ آیات تلاوت کیں)
( لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْمبَنِیْۤ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاو،دَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ….وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ )
[المائدۃ:۷۸تا۸۱]
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبان سےلعنت کی گئی ۔یہ اس لیے ہواکہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور (حدودالٰہی سے) تجاوز کرتے تھے۔ اور(ان کا اصل جرم یہ تھا کہ) وہ ایک دوسرے کو شدت کے ساتھ منع نہیں کرتے تھے ان برائیوں سے جو وہ کرتے تھے ۔بہت ہی بُرا طرزِعمل ہے جس پر وہ کاربند تھے ۔تم دیکھو گے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کوکہ وہ دوستی رکھتے ہیں کافروں سے ۔کیا ہی بُرا سامان انہوں نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے کہ اللہ کا غضب ہوا ان پر اور عذاب میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ (واقعتاً) ایمان رکھتے ہوئے اللہ پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شے پر جو اُس پر نازل کی گئی تو وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثرنافرمان ہیں‘‘۔ (ان آیات کی تلاوت کے بعد)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تمہیں لازما ً نیکی کا حکم دینا ہوگا، اور لازماً بدی سے روکنا ہوگا، اور تمہیں لازماً ظالم کا ہاتھ کو قوت سے پکڑلینا ہوگا، اور تمہیں اس کو لازماً حق کی طرف جبراً موڑنا ہوگا، اور اسے حق کے اُوپر قائم رکھنا ہوگا۔ یا پھر اللہ تمہارے دل بھی ایک دوسرے کے مشابہ کردے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان (یہود) پر لعنت کی‘‘۔
امام حاکمؒ نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا(اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیے جانے والے ہرقسم کےعذاب میں شریک ہوگا‘‘۔
امام ترمذیؒ نے ’جامع ترمذی ‘میں حسن روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
’’جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علما نے انہیں روکا، لیکن وہ با زنہ آئے (لیکن اس کے باوجود ان علما نے) ان نافرمانوں کی ہم نشینی اور ان کے ساتھ باہم کھانا پینا جاری رکھا، تو(اس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بھی باہم مشابہ کردیا اور ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبانی لعنت فرمائی، یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی روش اختیاراور وہ حد سے تجاوز کرتے رہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کربیٹھ گئے جبکہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، اور فرمایا:
ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک تم انہیں زبردستی حق کی طرف نہ موڑ دو!‘‘
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ’مسند‘میں ، امام حاکم ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں ،نیز امام ابو نعیم ؒ،امام عقیلی ؒ اور امام دیلمی ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطوالسلطان ،فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل فاحذروھم، واعتزلوھم
’’علما‘ اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے) امین ہوتے ہیں ،جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں ۔پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی۔ تو (جو علماایساکریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
امام عسکری ؒ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’فقہا‘ رسولوں کے (ورثے کے) امین ہیں جب تک کہ وہ (دنیا کی آلائشوں) میں نہ گھسیں اور حاکم کے پیچھے پیچھے نہ چلیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان سے بچو‘‘۔
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس امت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا توا س کی امت میں اس کے حواری اور اصحاب ہوتے تھے ۔وہ اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے اور نبی علیہ السلام کا جوبھی حکم ہوتا تھا اس کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ان کے ایسےجانشین (وارثین) آتے تھے جو نالائق اور ناخلف ہوتے تھے۔
یقولون مالا یفعلون ’
’وہ کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں‘‘
اور یفعلون مالا یؤمرون ’’کرتے وہ تھے جس کا ان کوحکم نہیں تھا‘‘۔
جو کوئی ان سے جہاد کرے گا ہاتھ سے پس وہ مومن ہے، اور جو کوئی ان سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے پس وہ مومن ہے، اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنے دل سے پس وہ مومن ہے اور(جو کوئی یہ بھی نہ کرے تو وہ جان لے کہ) اس کے بعد تو ایما ن رائی کے دانے کے برابربھی نہیں ہے‘‘۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت کے علما کا حاکم وقت سے میل جول بڑھانا، اس کے درباروں کے چکر لگانا، ان کے زریعے سے دنیا کے فوائد حاصل کرنا اور اس کے باوجود یہ سمجھنا کہ ہمارے دین اور ایمان محفوظ رہے گا، ان کے ساتھ ان کی مجلسوں میں شرکت کرنا اور عوام الناس کو ان کی اطاعت و فرماں برداری کے درس دیناجبکہ اُن میں ظلم و ستم ،اللہ اور اس کی عطاکردہ شریعت کے خلاف احکامات کا اجرا ہو۔
ایسا طرز عمل اللہ کے بہت بڑے غیض وغضب کو دعوت دینے والا اور جہنم کا راستہ آسان کرنے والی بات ہے۔
چنانچہ ان ہی وجوہات کی بناپر حاکم وقت کی قربت اور ان کی مجالس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ سوائے ایک فریضہ کی ادائیگی کے، عالم دین کو حاکم وقت کے دربار میں جانے کی اجازت ہے۔ وہ ہے ’کلمہ حق‘ اپنی جان، مال، عہدہ، مسندوں کے چھن جانے کے خوف کے باوجود۔ امام ابن ماجہ ؒ اور امام ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افضل الجھاد کلمۃ عدل/کلمۃ حق عند سلطان جائر
’’افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ عدل /کلمہ ٔ حق کہنا ہے‘‘۔
ظاہر سی بات ہے جو یہ فریضہ انجام دے گا اس کامال و جان دونوں خطرے میں ڈالے گا
چنانچہ امام حاکم ؒ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سیدا لشھداء حمزہ بن عبد المطلب ،ورجل قال الی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ
’’شہداکے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ ہیں اور دوسرا وہ شخص جس نے ظالم حکمران کو اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اوراس (حاکم) نےاس شخص کوقتل کردیا‘‘۔
اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ اس اہم ایمانی معاملے کے حوالے سے اپنے طرزِ عمل کا محاسبہ کرتے رہیں، تاکہ اللہ کی طرف سے کسی محاسبہ میں شرمندگی اور عذاب سے بچ سکیں۔امام ابن ماجہ ؒ اور امام بیہقی ؒ نے روایت نقل کی ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اگر اہل علم ،علم کی قدر کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرتے تو وہ اپنے اہل زمانہ کے امام بن جاتے ،لیکن انہوں نےاسے اہلِ دنیا پر خرچ کیا تاکہ اس سے اپنی دنیا بنائیں تو وہ ان کی نظروں میں بھی گر گئے۔میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ:
’’جس نے آخرت کے غم کو ہی اپنا واحد غم بنا لیا ، اللہ اس کے لیے اس کے دنیاوی غموں میں کافی ہوجائیں گے،اورجس کو طرح طرح کی دنیاوی فکروں نے الجھادیا تو اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کریں گے کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوتاہے ‘‘۔
امام عبد اللہ بن مبارک ؒ فرمایا:
؎وماافسد الدین الاالملوک
واحبارُسوء ورھبانُھا
’’دین میں جو بھی خرابی بھی آتی ہے وہ تین اطراف سے آتی ہے، بادشاہوں کی طرف سے، علمائے سوء یعنی بُرے علما کی طرف سے اور بُرے صوفیوں کی طرف سے‘‘۔
ابو نعیم ؒ نے کتاب الحلیۃ میں میمون ؒ بن مہران سے روایت کیا ہے کہ :
خلیفہ عبداللہ بن عبدالملک بن مروان مدینہ گیا تو اپنے دربان کو حضرت سعید ؒ بن مسیب کے یہاں بھیجا۔ دربان نے جاکر ان سے کہا : "امیر المومنین کے پاس تشریف لائیے " ۔ آپ ؒ نے فرمایا : " امیر المومنین کو کیا حاجت پیش آئی ہے ؟ دربان نے جواب دیا : "تاکہ آپ ان سے گفت وشنید کریں "۔ آپ ؒ نے فرمایا :
" میں ان سے گفت وشنید کرنے والوں میں سے نہیں "۔
ابن عساکر ؒ نے روایت نقل کی ہے کہ ابو زناد ؒ کے والد نے کہا :
مدینہ کے تمام فقہا ء خلیفہ عمر ؒ بن عبدالعزیز کے یہاں جاتے تھے ماسوائے سعید ؒبن مسیب کے ۔
چنانچہ خلیفہ عمر ؒ بن عبدالعزیز کے اس پر راضی تھے کہ ان کے ( اور حضرت سید ؒ بن مسیب کے ) درمیان کوئی پیغام رساں ہو اور یہ فرائض میں انجام دیتا تھا ۔
ابن نجار ؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا :
" اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم خود بھی سلا مت رہو اور تمہارا دین بھی سلامت رہے تو اپنے ہاتھوں کو مسلمانوں کے ناحق خون میں رنگے جانے سے روکو، اپنے پیٹ کو مسلمانوں کا مال کھانے سے روکو، اہل بدعت کے ساتھ مت بیٹھا کرو، اور بادشاہوں کے یہاں نہ جایا کرو'ورنہ وہ تمہارے دین کو تمہارے لیے مبہم ودشوار کردیں گے "۔
ابو نعیم ؒ اور ابن عساکر ؒ نے روایت کیا ہے کہ :
کسی حکمران نے ابو حازم ؒ کو بلایا تو وہ چلے گئے جبکہ اس حکمران کے پاس افریقی ؒ، زہری ؒ اور کئی دیگر علماء بھی موجود تھے ۔ حکمران نے کہا: " اے ابو حازم ! کچھ فرمائیں "۔
ابو حازم ؒ نے فرمایا :
" حکمرانوں میں سے بہترین وہ ہے جو علماء سے محبت کرےا ور علماء میں سے بد ترین وہ ہے جو حکمرانوں سے محبت کرے ۔ گزرے زمانے میں جب حکمران علماء کو بلاتے تھے تو وہ نہیں آتے تھے ،ا ور جب ان سے مسئلہ پوچھتے تھے تو علماء انہیں رخصت نہ دیتے تھے ۔ حکمران علماء کے یہاں ان کے گھر تک جاکر ان سے مسئلہ دریافت کرتے تھے ۔ اس میں حکمرانوں کی بھی خیر تھی اور علماء کی بھی ۔ جب یہ حال کچھ لوگوں نے دیکھا تو کہا: بھلا ہم کیوں نہ علم حاصل کریں تاکہ ہم بھی ان کی طرح ہوجائیں ۔ پس انہوں نے علم حاصل کیا اور حکمرانوں کے پاس جاپہنچے ۔ پھر انہیں علم سنایا اور ان کو رخصتیں دیتے گئے ۔ اس طرح علماء نے حکمرانوں کو برباد کیا اور حکمرانوں نے علماء کو " ۔۔
ابو العلاء ؒ روایت کرتے ہیں کہ صالح بن خلیفہ کوفی نے
حضرت سفیان ثوری ؒ کو کہتے ہوئے سنا :
"فاجر علماء نے دنیا تک ( رسائی کے لیے ) ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہے اور کہتے ہیں : ہم حکمرانوں کے یہاں جائیں گے تاکہ مصیبت زدہ کو نجات دلائیں اور کسی قیدی کی سفارش کریں "۔
ابن نجار ؒ نے اپنی تاریخ میں سفیان ثوری ؒ سے روایت کیا ہے کہ آپ ؒ نے فرمایا :
" علم اس وقت تک معزز تھا جب تک اسے بادشاہوں کے دروازوں پر نہ لے جایا گیا اور اس پر لوگ اجرت نہ لینے لگے ۔ پس جب ایسا کیا گیا تو اللہ نے ان کے ( یعنی ایسے اہل علم کے ) دلوں سے حلاوت ایمانی اٹھالی اورا نہیں اس پر عمل سے روک دیا "۔
حماد ؒ نے فرمایا : " میں نے ثابت بنانی ؒ سے اور انہوں نے انس بن مالک ؒ سے سنا : وہ کہتے ہیں :
میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
"اگر عالم اللہ کی رضا کیلئے علم حاصل کرے تو ہر چیز اس سے ڈرتی ہے ۔ اور اگر وہ یہ چاہے کہ اس علم سے دنیاوی خزانے بڑھ جائیں تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے "۔
خطیب بغدادی ؒ نے بھی حماد بن سلمہ ؒ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ :
کسی خلیفہ نے آپ ؒ کے یہاں پیغامبر کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ " ہمیں مسئلہ درپیش ہے ، آپ ہمارے یہاں آئیے تاکہ ہم آپ سے دریافت کر سکیں "۔ آپ نے پیغامبر کو کہا:
" ان سے کہہ دینا کہ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو کسی ( حاکم ) کے یہاں اس لیے نہ جاتے تھے کہ انہیں ( اس کی ممانعت والی )احادیث پہن چ چکی تھییں ۔لہذا اب اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو ہمیں رقعہ لکھ دیجئے ۔ ہم اس کا جواب لکھ بھیجیں گے "۔
ابو نعیمؒ روایت کرتے ہیں کہ ابو صالح انطاکی ؒ نے
حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
" جو علم کے معاملے میں بخل کرتا ہے ، اسے تین دن میں کسی ایک مصیبت میں مبتلا کر دیاجاتا ہے : یا تو اسے موت ( آلیتی ہے ) جس سے اس کا علم ( اس کے ساتھ ہی دنیا سے ) رخصت ہوجاتا ہے ، ی اوہ ( حاصل شدہ علم ) بھول جاتا ہے ، اور یا وہ حکمرانوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور اس طرح اس کا علم جاتا رہتا ہے "۔
حضرت فضیل بن عیاض ؒ سے روایت کیا کہ آپ ؒ نے فرمایا :
" اگر اہل علم اپنی عزت برقرار رکھتے ا،پنے دین کی حفاطت پر حریص ہوتے، علم کو عزت بخشنے ، اس کی حفاظت کرتے ، اور اسے وہی مقام دیتے جو اللہ نے دیا ہے تو ضرور جابر وں کی گردنیں ان کے زیر دست ہوجاتیں ، لوگ ان کی پیروی کرنے لگتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ، اور اسلام اہل اسلام باعزت رہتے ۔ لیکن انہوں نے خود کو ذلیل کیا اور اپنی دنیا بچانے کی خاطر اپنے دین میں کمی کی پرواہ نہ کی ۔ انہوں نے اپنا علم دنیا داروں کو خوش کرنے میں لگایا تاکہ ان کے ہاتھ میں جو ( مال ودولت ) ہے ، وہ حاصل کر سکیں ، اس طرح وہ ذلیل ہوئے اور لوگوں کی نظروں میں گر گئے "۔
امام اوزاعیؒ نے فرمایا :
"اللہ کے یہاں اس عالم سے زیادہ مبغوض کوئی نہیں جو سرکاری کارندوں سے ملنے جاتا ہو"۔
حضرت اسحٰق نے فرمایا :
" وہ عالم کتنا قبیح ہے جس کی مجلس میں جایا جائے تو وہ موجود نہ ہو، اور جب پوچھا جائے تو پتہ چلے کہ وہ حکمران کے پاس گیا ہے۔ میں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ" اگر تم کسی عالم کو حکمران سے ملتا دیکھو تو اس کے دین پر بے دریغ شک کا اظہار کرو" ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں حکمران کے یہاں گیا اور جب نکلنے کے بعد اپنا محاسبہ کیا تو اپنے نفس کو قصوروار نہ پایا ، حالانکہ میں حکمرانوں سے نہایت سختی سے پیش آتا ہوں اور ان کی خواہشات کے برخلاف چلتا ہوں "۔
حضرت محمد سلمہ ؒ نے فرمایا :
"غلاظت پر بیٹھی مکھی ان حکمرانوں کے در پر بیٹھے قاری ( یعنی عالم ) سے اچھی ہے "۔
حضرت عزالدین بن عبدالسلام ؒ کی "امالی " میں ۔۔۔ جوکہ ان کے شاگرد اور مالکی مذہب کے امام حضرت شہاب الدین القرافیؒ نے ان سے سن کر لکھی ہے۔۔۔مذکور ہے کہ :
ایک مرتبہ کسی سرکاری اہلکار نے حضرت عزلادین ؒ کو یہ تحریری پیغام بھیجا کہ آپ بادشاہ وقت سے ملا کریں اور اس سے راہ ورسم رکھا کریں تاکہ یہ آپ کے لیے موجب عزت ہو اورآپ کے دشمنوں کو نیچا دکھانے کا باعث ۔ اس پر آپ ؒ نے فرمایا :
" میں نے تو علم اس لیے حاصل کیاتھا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان سفیر بنوں ۔
اب کیا میں ان ( حکمرانوں ) کے در پر مارا مارا پھروں !
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا :
” … ومن أتى أبواب السلاطين افتتن، وما ازداد أحد من السلطان قرباً إلا ازداد من الله بعداً”
اور جو حکمرانوں کی چوکھٹ پر آئے گا فتنے میں مبتلا ہو جائے گا. اور جو شخص بھی سلطان کے قریب ہوتا جاتا ہے وہ اللہ سے دور ہوتا رہتا ہے.
[ السلسلة الصحيحة : ١٢٧٢ ]
سيدنا حذيفة بن اليمان رضي الله عنهما نے فرمایا : فتنوں کے مواقف سے بچو. آپ سے پوچھا گیا کہ مواقفِ فتنہ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا :
“أبواب الأمراء؛ يدخل أحدكم على الأمير فيصدقه بالكذب، ويقول له ما ليس فيه.”
حکمرانوں کے دروازے. تم میں سے کوئی شخص حاکم کے پاس جاتا ہے تو جھوٹ بول کر اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے بارے میں وہ باتیں کرتا ہے جو اس میں نہیں ہیں..
[ مصنف عبد الرزاق : ٢٠٦٤٣ ]
اہل علم نے دونوں باتوں کو جمع کیا ہے.
امام ابن عبد البر رحمه الله اپنی کتاب [ جامع بيان العلم وفضله : ٢٢٧ ] میں حکمرانوں کے پاس جانے کی ممانعت پر مبنی احادیث و آثار نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
“معنى هذا كله في السلطان الجائر الفاسق، وأما العدل منهم الفاضل فمداخلته وعونه على الصلاح من أفضل أعمال البر”
یہ سب احادیث و آثار ظالم و فاسق حکمرانوں کے متعلق ہیں. جو عادل ہیں تو ان کے ہاں آنا جانا اور خیر میں ان کی معاونت کرنا افضل ترین نیکیوں میں سے ہے.
علامہ مباركپوری نے حکمران کے پاس جانے سے فتنہ میں مبتلا ہونے کی تفسیر میں نقل کیا ہے :
“من دخل على السلطان وداهنه وقع في الفتنة ـ وأما من لم يداهن ونصحه وأمره بالمعروف ونهاه عن المنكر فكان دخوله عليه أفضل الجهاد.”
جو سلطان کے پاس گیا اور مداہنت برتی تو وہ فتنے میں مبتلا ہو گیا. اور جس نے مداہنت نہ برتی اور حاکم کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونھی عن المنکر کیا تو اس کا یہ جانا افضل جہاد ہے.
[ مرقاة المفاتيح : ٢٥٥/٧ ]
امام ابن مفلح فتنے والی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
“وهو محمول على من أتاه لطلب الدنيا ، لا سيما إن كان ظالما جائرا ، أو على من اعتاد ذلك ولزمه فإنه يخاف عليه الافتتان والعجب بدليل قوله في اللفظ الآخر (ومن لزم السلطان افتتن)
یہ حدیث اس شخص پر محمول کی جائے گی جو دنیاوی طلب کیلیے جائے بالخصوص جب حکمران ظالم و جابر ہو. یا ایسا شخص جو اسے عادت بنا لے اور حکمران کے ساتھ نتھی ہو جائے تو اس پر فتنے اور خود پسندی کا ڈر ہے کیونکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں (جس نے سلطان کی ملازمت اختیار کی) ”
[ الآداب الشرعية : ٤٥٨/٣ ]
(احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں)
قرب قیامت علما کا اللہ کے باغی اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خاموش رہنا اور ان سے میل جول رکھنا:
علمائے دین انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطاکردہ شریعت کے امین، علومِ دینیہ کے محافظ ،اہل اسلام کے ہادی و رہنما اور امتِ مسلمہ کے سروں کے تاج ہیں۔
لیکن کچھ علماء ہیں جو دین کا سودا کرتے ہیں انکے بارے میں اللہ فرماتا ہے
(البقرۃ:۱۷۳۔۱۷۵)
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور ا س کے معاوضے میں متاعِ قلیل وصول کرتے ہیں ،کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے پیٹ آگ سے بھررہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ ان سے بات بھی نہیں کرے گا ،نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کی اور مغفرت چھوڑ کر عذاب کو چن لیا ،سو کتنے باہمت ہیں آگ کا عذاب سہنے کے لیے‘‘۔
آخری زمانے میں علمائے سوء کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی لرزا دینے والی پیشین گوئیاں کی ہیں ،جنہیں پڑھ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں
امام ترمذی ؒ ’’نوادر الاصول‘‘میں حضرت ابو امام رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکون فی امتی فزعۃ فیصر الناس الی علمائھم فاذا ھم قردۃ وخنازیر
’’میری امت میں ایک وحشت ناک واقعہ ہوگا،پس جب لوگ (گھبراکر) اپنے علما کی طرف پلٹیں گے تو دیکھے گے کہ وہ بندر اور خنزیر (بن چکے) ہوں گے‘‘۔
تفسیر ’’الدرالمنثور فی التاویل بالماثور‘‘ میں ابن ابی الدنیا ؒ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ
مالک بن دینار ؒ نے فرمایا:
بلغنی ان ریحاً تکون فی آخرالزمان وظلمۃ فیفزع الناس الی علمائھم فیجدونھم قد مسخوا
’’مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ آخری زمانے میں ایک ہوا چلے گی اور اندھیرا چھا جائے گا ۔پس جب لو گ گھبرا کراپنے علما کےپاس پہنچے گے تو انہیں مسخ شدہ حالت میں پائیں گے‘‘۔
نیز بعض احادیث مبارکہ میں بعد کے زمانوں کے ان علما کا بھی تذکرہ ہے جو اس امت کو جہاد فی سبیل اللہ سے روکیں گے اور کہیں گے کہ جہاد کا دور گذرچکا،اب تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے،تہذیب و تمدن کا دور ہے،جدید ذرائع ابلاغ کا دور ہے۔ایسے میں قتل و قتال کی بات کرنا ،گردنیں مارنے اور پور پور پر ضرب لگانے کا تذکرہ چھیڑنا ،غنیمت چھیننے اور ذمی بنانے کے عزائم رکھنا ،قیدی پکڑنے اور غلام و لونڈیاں بنانے کے احکامات یاد دلانا کیونکر مناسب ہوسکتا ہے؟
چنانچہ امام ابن حماد ؒ
اپنی کتاب السنن الوردۃ فی الفتن میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تک آسمان سے بارش برستی رہے گی تب تک جہاد ترو تازہ رہے گا۔ اور لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان کےعلما یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا زمانہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جس کو ملے تو وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہوگا ۔
صحابہ ؓ نے پوچھا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے؟
آپ نے فرمایا:
’’ہاں وہ جس پر اللہ کی لعنت،فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو!‘‘۔
جب کہ کنز العمال کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے:
اولئک ہم وقود النار
یہی لو گ جہنم کا ایندھن ہوں گے‘‘۔
اے وارثین انبیاء! حکمرانوں کی قربت سے بچو!
امام دیلمی ؒ حضرت ابو الاعور رضی اللہ عنہ سے اورامام بیہقی ؒقبیلہ بنی سُلیم کے ایک فرد سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایا کم وابواب السلطان
’’خبردار! حاکم کے دروازوں پر نہ جانا‘‘۔
امام بیہقی ؒ نے ہی روایت نقل کی ہے کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اتقوا ابواب السلطان
’’حاکم کے دروازوں پر جانے سے بچو‘‘۔
امام ہناد بن سری ؒ نے الزھد میں حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کے حاکم سے قرب میں اضافہ ہو گا، اس کی اللہ سے دوری میں بھی اضافہ ہوتا چلاجائے گا‘‘۔
امام دیلمیؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص صاحبِ اقتدار کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے دونوں بازؤں کے پھیلاؤ کے برابر دور ہوجاتے ہیں‘‘۔
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ''مسند'' میں اور امام دیلمی ؒ نے بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حاکم کے دروازوں سے اور ان کے دربانوں سے بچو، کیونکہ جو ان (دروازوں) سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور ہوتا ہے، اور جو کوئی کسی حاکم کو اللہ پر ترجیح دیتا ہے تو اللہ اس کے دل میں ظاہری و باطنی فتنہ ڈال دیتے ہیں، اس سے تقویٰ چھین لیتے ہیں اور اس کو حیران و پریشان چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خبردار! حکمران کے پاس نہ بیٹھنا، اس لیے کہ اس ( کے پاس بیٹھنے) سے (تم اپنا) دین کھو بیٹھو گے۔ اور خبردار! اس کی اعانت نہ کرنا، اس لیے کہ اس کے حکم سے خوش نہ ہوگے‘‘۔
اما م بخاری ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں اور امام ابن سعد نے ’’طبقات‘‘ میں نقل کیا ہے کہ
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’آدمی حکمران کے پاس اپنے دین کے ہمراہ جاتا ہے لیکن جب نکلتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی باقی نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام نسائی ؒ ، امام بیہقی اور امام ترمذی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
من سکن البادیۃ جفا،ومن اتبع الصید غفل، ومن اتی ابواب السلاطین افتن
’’جو شخص جنگل میں رہے گا اس کا دل سخت ہوجائے گا،اور جو شکار کے پیچھے بھاگے گا وہ (دین کے کاموں سے) غافل ہوجائے گا ،اور جو حکمرانوں کے دروازوں پر حاضر ہوگا وہ فتنے میں مبتلا ہوجائے گا''۔
(امام ترمذیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
امام ابوداؤد ؒ ،امام بیہقی ؒ اورامام احمد بن حنبل ؒکی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کردہ حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں :
وما ازداد عبد من السلطان دنوا الاازداد من اللّٰہ بعدا
’’اور جتنا کوئی شخص حاکم کا قرب اختیار کرے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا‘‘۔
امام حاکم ؒ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’میرے بعد بادشاہ آئیں گے، فتنے ان کے دروازوں پریوں (ڈیرے جمائے) ہوں گے جیسے اونٹوں کی قیام گاہ پر (اونٹ بیٹھے) ہوتے ہیں۔ وہ جسے بھی (دنیا کے سامان میں سے) کچھ دیں گے، اسی کے برابر اس کے دین میں سے بھی لے لیں گے‘‘۔
امام احمد بن حنبل ؒ، امام بزار ؒ اور امام ابن حبان ؒ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آئندہ کچھ امراآئیں گے ،پس جو شخص ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
’اور ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم (کے کاموں) میں ان کی مدد کی تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ،اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ہرگز حوض (کوثر) پر نہیں آئے گا (اس کے برعکس) اور جو شخص نہ ان کے پاس گیا (ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ’اورنہ ہی ان کے دروزوں پر منڈلارتا رہا‘) نہ ان کے ظلم میں ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کے جھوٹ کی تصدیق کی تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوض پر آنے والا ہے‘‘۔
امام ابو عمرو الدانی ؒنے کتاب الفتن میں حسن سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ امت اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں اور اس کے سایہئ رحمت میں رہے گی جب تک کہ اس کے قاری (یعنی علما) اس کے امراسے نہ لپٹیں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یکون فی آخر الزمان علماء یرغبون الناس ولا
یرغبون ،ویزھدون الناس فی الدنیا ولایزھدون،وینھون عن غشیان الامراء ولا ینتھون
’’آخری زمانے میں ایسے علما ہوں گے جو لوگوں کو آخرت کی طرف راغب کریں گے اور خود راغب نہ ہوں گے ،لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دیں گے اور خود بے رغبت نہ ہوں گے ،اور امرا(حکام ) سے میل ملاپ رکھنے سے منع کریں گے اور خود اس سے باز نہ آئیں گے‘‘۔
حافظ ابو فتیان دہستانی ؒنے اپنی کتاب ’’التحذیر من علماء السوء‘‘میں ،امام رافعی ؒ نے تاریخِ قزوین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض (وفی روایۃ اھون) الخلق الی اللّٰہ تعالیٰ العالم یزور العمال
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین (ایک اور روایت کے مطابق’حقیر ترین‘) مخلوق وہ عالم ہے جو حکومتی اہلکاروں سے میل جول رکھتا ہے‘‘۔
امام ابن عدی ؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان ابغض الخلق الی اللّٰہ عالم السلطان
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین مخلوق حاکم کا (درباری ) عالم ہے۔
امام دیلمیؒ ''مسند الفردوس '' میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا رأیت العالم یخالط السلطان مخالطۃ کثیرۃ فاعلم انہ لص
’’اگر تم کسی عالم کو حاکم سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھتے دیکھو، توجان لو کہ وہ چور ہے‘‘۔
رواه الديلمي ( 1/1/57 ) ، وأما المناوي فقال :" إسناده جيد " ! (26/1)
حکیم ترمذی ؒ نے نوادر الاصول میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایا ں تھے ،انہوں نے میری داڑھی پکڑ کر فرمایا
’’انا للہ وانا الیہ راجعون! کچھ دیر پہلے میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کی امت آپ کےبعد کچھ زیادہ نہیں ،بس تھوڑی ہی مدت میں فتنے
میں مبتلاء ہوجائے گی ۔میں نے پوچھا : وہ کس وجہ سے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ان کے علمااورامراء کی وجہ سے ۔ امراء عام لوگوں کے حقوق روکے رکھیں گے ، اور (لوگوں کوان کے حقوق) نہیں دیں گے، اورعلما‘ امراء کی خواہشات کے پیچھے چلیں گے‘۔
امام ابن ماجہ ؒ ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) حاصل کریں گے، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امرا (حکام) کےہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ،جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا، اسی طرح ان امراکی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
امام ابن عساکر ؒ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا ۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اوران سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لوگ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کردے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا !جبکہ ایسا ہونہیں سکتا،کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے’الثواب‘میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص قرآن پڑھ لے اور دین میں تفقہ حاصل کرلے ،اور پھر حاکم کے دَر پر اس کی خوشامد کرنے اور اس کی دولت ( بٹورنے ) کی لالچ میں جائے تو وہ ( اس راہ میں ) جتنے قدم اٹھائے گا، اتنا ہی جہنم میں گھستا چلا جائے گا‘‘۔
امام ابو الشیخ ؒنے ہی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے قرآن پڑھا اور دین کی سمجھ بوجھ حاصل کی، اور پھر صاحب اقتدار کے پاس اس کے مال و دولت کی لالچ میں گیا تو اللہ اس کےدل پر مہر لگادیں گے، اور (آخرت میں) اسے ہر روز دو(٢) ایسے عذا ب دیےجائیں گے جو اس سے پہلے اسے نہ دیے گئے ہوں گے‘‘۔
امام دیلمی ؒ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا، اس کی خوشامد کرنے کے لیے اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلا جائے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے۔ اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم ) پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی، اور جیساعذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا‘‘۔
اما م ابو داؤد ؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو نقص پیدا ہواتھا وہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے ملاقات کرتا تھا تو یہ کہتا تھاکہ: اے فلاں! اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور جو تم کررہے ہواس کو چھوڑ دو، اس لیے کہ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اس کی اسی شخص سے اگلے روز دوبارہ ملاقات ہوتی تھی اور وہ اپنے سابق حال پر قائم ہوتا تھا۔لیکن یہ چیز مانع نہیں ہوتی تھی اُس (پہلے شخص) کےراستے میں کہ وہ اس کا ہم پیالہ اور ہم نشین بنے۔ جب انہوں نے یہ روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو آپس میں مشابہ کردیا۔
(پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ المائدۃ کی یہ آیات تلاوت کیں)
( لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْمبَنِیْۤ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاو،دَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ….وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ )
[المائدۃ:۷۸تا۸۱]
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبان سےلعنت کی گئی ۔یہ اس لیے ہواکہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور (حدودالٰہی سے) تجاوز کرتے تھے۔ اور(ان کا اصل جرم یہ تھا کہ) وہ ایک دوسرے کو شدت کے ساتھ منع نہیں کرتے تھے ان برائیوں سے جو وہ کرتے تھے ۔بہت ہی بُرا طرزِعمل ہے جس پر وہ کاربند تھے ۔تم دیکھو گے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کوکہ وہ دوستی رکھتے ہیں کافروں سے ۔کیا ہی بُرا سامان انہوں نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے کہ اللہ کا غضب ہوا ان پر اور عذاب میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ (واقعتاً) ایمان رکھتے ہوئے اللہ پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس شے پر جو اُس پر نازل کی گئی تو وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثرنافرمان ہیں‘‘۔ (ان آیات کی تلاوت کے بعد)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تمہیں لازما ً نیکی کا حکم دینا ہوگا، اور لازماً بدی سے روکنا ہوگا، اور تمہیں لازماً ظالم کا ہاتھ کو قوت سے پکڑلینا ہوگا، اور تمہیں اس کو لازماً حق کی طرف جبراً موڑنا ہوگا، اور اسے حق کے اُوپر قائم رکھنا ہوگا۔ یا پھر اللہ تمہارے دل بھی ایک دوسرے کے مشابہ کردے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان (یہود) پر لعنت کی‘‘۔
امام حاکمؒ نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا(اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیے جانے والے ہرقسم کےعذاب میں شریک ہوگا‘‘۔
امام ترمذیؒ نے ’جامع ترمذی ‘میں حسن روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا:
’’جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو ان کے علما نے انہیں روکا، لیکن وہ با زنہ آئے (لیکن اس کے باوجود ان علما نے) ان نافرمانوں کی ہم نشینی اور ان کے ساتھ باہم کھانا پینا جاری رکھا، تو(اس کے نتیجے میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بھی باہم مشابہ کردیا اور ان پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہماالسلام) کی زبانی لعنت فرمائی، یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی روش اختیاراور وہ حد سے تجاوز کرتے رہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کربیٹھ گئے جبکہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، اور فرمایا:
ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک تم انہیں زبردستی حق کی طرف نہ موڑ دو!‘‘
امام حسن بن سفیان ؒ نے اپنی ’مسند‘میں ، امام حاکم ؒ نے اپنی کتابِ تاریخ میں ،نیز امام ابو نعیم ؒ،امام عقیلی ؒ اور امام دیلمی ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطوالسلطان ،فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل فاحذروھم، واعتزلوھم
’’علما‘ اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے) امین ہوتے ہیں ،جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں ۔پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی۔ تو (جو علماایساکریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
امام عسکری ؒ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’فقہا‘ رسولوں کے (ورثے کے) امین ہیں جب تک کہ وہ (دنیا کی آلائشوں) میں نہ گھسیں اور حاکم کے پیچھے پیچھے نہ چلیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو ان سے بچو‘‘۔
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس امت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا توا س کی امت میں اس کے حواری اور اصحاب ہوتے تھے ۔وہ اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے اور نبی علیہ السلام کا جوبھی حکم ہوتا تھا اس کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ان کے ایسےجانشین (وارثین) آتے تھے جو نالائق اور ناخلف ہوتے تھے۔
یقولون مالا یفعلون ’
’وہ کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں‘‘
اور یفعلون مالا یؤمرون ’’کرتے وہ تھے جس کا ان کوحکم نہیں تھا‘‘۔
جو کوئی ان سے جہاد کرے گا ہاتھ سے پس وہ مومن ہے، اور جو کوئی ان سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے پس وہ مومن ہے، اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنے دل سے پس وہ مومن ہے اور(جو کوئی یہ بھی نہ کرے تو وہ جان لے کہ) اس کے بعد تو ایما ن رائی کے دانے کے برابربھی نہیں ہے‘‘۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت کے علما کا حاکم وقت سے میل جول بڑھانا، اس کے درباروں کے چکر لگانا، ان کے زریعے سے دنیا کے فوائد حاصل کرنا اور اس کے باوجود یہ سمجھنا کہ ہمارے دین اور ایمان محفوظ رہے گا، ان کے ساتھ ان کی مجلسوں میں شرکت کرنا اور عوام الناس کو ان کی اطاعت و فرماں برداری کے درس دیناجبکہ اُن میں ظلم و ستم ،اللہ اور اس کی عطاکردہ شریعت کے خلاف احکامات کا اجرا ہو۔
ایسا طرز عمل اللہ کے بہت بڑے غیض وغضب کو دعوت دینے والا اور جہنم کا راستہ آسان کرنے والی بات ہے۔
چنانچہ ان ہی وجوہات کی بناپر حاکم وقت کی قربت اور ان کی مجالس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ سوائے ایک فریضہ کی ادائیگی کے، عالم دین کو حاکم وقت کے دربار میں جانے کی اجازت ہے۔ وہ ہے ’کلمہ حق‘ اپنی جان، مال، عہدہ، مسندوں کے چھن جانے کے خوف کے باوجود۔ امام ابن ماجہ ؒ اور امام ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افضل الجھاد کلمۃ عدل/کلمۃ حق عند سلطان جائر
’’افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ عدل /کلمہ ٔ حق کہنا ہے‘‘۔
ظاہر سی بات ہے جو یہ فریضہ انجام دے گا اس کامال و جان دونوں خطرے میں ڈالے گا
چنانچہ امام حاکم ؒ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سیدا لشھداء حمزہ بن عبد المطلب ،ورجل قال الی امام جائر فامرہ ونھاہ فقتلہ
’’شہداکے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ ہیں اور دوسرا وہ شخص جس نے ظالم حکمران کو اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اوراس (حاکم) نےاس شخص کوقتل کردیا‘‘۔
اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ اس اہم ایمانی معاملے کے حوالے سے اپنے طرزِ عمل کا محاسبہ کرتے رہیں، تاکہ اللہ کی طرف سے کسی محاسبہ میں شرمندگی اور عذاب سے بچ سکیں۔امام ابن ماجہ ؒ اور امام بیہقی ؒ نے روایت نقل کی ہے
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اگر اہل علم ،علم کی قدر کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرتے تو وہ اپنے اہل زمانہ کے امام بن جاتے ،لیکن انہوں نےاسے اہلِ دنیا پر خرچ کیا تاکہ اس سے اپنی دنیا بنائیں تو وہ ان کی نظروں میں بھی گر گئے۔میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ:
’’جس نے آخرت کے غم کو ہی اپنا واحد غم بنا لیا ، اللہ اس کے لیے اس کے دنیاوی غموں میں کافی ہوجائیں گے،اورجس کو طرح طرح کی دنیاوی فکروں نے الجھادیا تو اللہ بھی اس کی پرواہ نہیں کریں گے کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوتاہے ‘‘۔
امام عبد اللہ بن مبارک ؒ فرمایا:
؎وماافسد الدین الاالملوک
واحبارُسوء ورھبانُھا
’’دین میں جو بھی خرابی بھی آتی ہے وہ تین اطراف سے آتی ہے، بادشاہوں کی طرف سے، علمائے سوء یعنی بُرے علما کی طرف سے اور بُرے صوفیوں کی طرف سے‘‘۔
ابو نعیم ؒ نے کتاب الحلیۃ میں میمون ؒ بن مہران سے روایت کیا ہے کہ :
خلیفہ عبداللہ بن عبدالملک بن مروان مدینہ گیا تو اپنے دربان کو حضرت سعید ؒ بن مسیب کے یہاں بھیجا۔ دربان نے جاکر ان سے کہا : "امیر المومنین کے پاس تشریف لائیے " ۔ آپ ؒ نے فرمایا : " امیر المومنین کو کیا حاجت پیش آئی ہے ؟ دربان نے جواب دیا : "تاکہ آپ ان سے گفت وشنید کریں "۔ آپ ؒ نے فرمایا :
" میں ان سے گفت وشنید کرنے والوں میں سے نہیں "۔
ابن عساکر ؒ نے روایت نقل کی ہے کہ ابو زناد ؒ کے والد نے کہا :
مدینہ کے تمام فقہا ء خلیفہ عمر ؒ بن عبدالعزیز کے یہاں جاتے تھے ماسوائے سعید ؒبن مسیب کے ۔
چنانچہ خلیفہ عمر ؒ بن عبدالعزیز کے اس پر راضی تھے کہ ان کے ( اور حضرت سید ؒ بن مسیب کے ) درمیان کوئی پیغام رساں ہو اور یہ فرائض میں انجام دیتا تھا ۔
ابن نجار ؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا :
" اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم خود بھی سلا مت رہو اور تمہارا دین بھی سلامت رہے تو اپنے ہاتھوں کو مسلمانوں کے ناحق خون میں رنگے جانے سے روکو، اپنے پیٹ کو مسلمانوں کا مال کھانے سے روکو، اہل بدعت کے ساتھ مت بیٹھا کرو، اور بادشاہوں کے یہاں نہ جایا کرو'ورنہ وہ تمہارے دین کو تمہارے لیے مبہم ودشوار کردیں گے "۔
ابو نعیم ؒ اور ابن عساکر ؒ نے روایت کیا ہے کہ :
کسی حکمران نے ابو حازم ؒ کو بلایا تو وہ چلے گئے جبکہ اس حکمران کے پاس افریقی ؒ، زہری ؒ اور کئی دیگر علماء بھی موجود تھے ۔ حکمران نے کہا: " اے ابو حازم ! کچھ فرمائیں "۔
ابو حازم ؒ نے فرمایا :
" حکمرانوں میں سے بہترین وہ ہے جو علماء سے محبت کرےا ور علماء میں سے بد ترین وہ ہے جو حکمرانوں سے محبت کرے ۔ گزرے زمانے میں جب حکمران علماء کو بلاتے تھے تو وہ نہیں آتے تھے ،ا ور جب ان سے مسئلہ پوچھتے تھے تو علماء انہیں رخصت نہ دیتے تھے ۔ حکمران علماء کے یہاں ان کے گھر تک جاکر ان سے مسئلہ دریافت کرتے تھے ۔ اس میں حکمرانوں کی بھی خیر تھی اور علماء کی بھی ۔ جب یہ حال کچھ لوگوں نے دیکھا تو کہا: بھلا ہم کیوں نہ علم حاصل کریں تاکہ ہم بھی ان کی طرح ہوجائیں ۔ پس انہوں نے علم حاصل کیا اور حکمرانوں کے پاس جاپہنچے ۔ پھر انہیں علم سنایا اور ان کو رخصتیں دیتے گئے ۔ اس طرح علماء نے حکمرانوں کو برباد کیا اور حکمرانوں نے علماء کو " ۔۔
ابو العلاء ؒ روایت کرتے ہیں کہ صالح بن خلیفہ کوفی نے
حضرت سفیان ثوری ؒ کو کہتے ہوئے سنا :
"فاجر علماء نے دنیا تک ( رسائی کے لیے ) ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہے اور کہتے ہیں : ہم حکمرانوں کے یہاں جائیں گے تاکہ مصیبت زدہ کو نجات دلائیں اور کسی قیدی کی سفارش کریں "۔
ابن نجار ؒ نے اپنی تاریخ میں سفیان ثوری ؒ سے روایت کیا ہے کہ آپ ؒ نے فرمایا :
" علم اس وقت تک معزز تھا جب تک اسے بادشاہوں کے دروازوں پر نہ لے جایا گیا اور اس پر لوگ اجرت نہ لینے لگے ۔ پس جب ایسا کیا گیا تو اللہ نے ان کے ( یعنی ایسے اہل علم کے ) دلوں سے حلاوت ایمانی اٹھالی اورا نہیں اس پر عمل سے روک دیا "۔
حماد ؒ نے فرمایا : " میں نے ثابت بنانی ؒ سے اور انہوں نے انس بن مالک ؒ سے سنا : وہ کہتے ہیں :
میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
"اگر عالم اللہ کی رضا کیلئے علم حاصل کرے تو ہر چیز اس سے ڈرتی ہے ۔ اور اگر وہ یہ چاہے کہ اس علم سے دنیاوی خزانے بڑھ جائیں تو وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے "۔
خطیب بغدادی ؒ نے بھی حماد بن سلمہ ؒ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ :
کسی خلیفہ نے آپ ؒ کے یہاں پیغامبر کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ " ہمیں مسئلہ درپیش ہے ، آپ ہمارے یہاں آئیے تاکہ ہم آپ سے دریافت کر سکیں "۔ آپ نے پیغامبر کو کہا:
" ان سے کہہ دینا کہ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو کسی ( حاکم ) کے یہاں اس لیے نہ جاتے تھے کہ انہیں ( اس کی ممانعت والی )احادیث پہن چ چکی تھییں ۔لہذا اب اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو ہمیں رقعہ لکھ دیجئے ۔ ہم اس کا جواب لکھ بھیجیں گے "۔
ابو نعیمؒ روایت کرتے ہیں کہ ابو صالح انطاکی ؒ نے
حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
" جو علم کے معاملے میں بخل کرتا ہے ، اسے تین دن میں کسی ایک مصیبت میں مبتلا کر دیاجاتا ہے : یا تو اسے موت ( آلیتی ہے ) جس سے اس کا علم ( اس کے ساتھ ہی دنیا سے ) رخصت ہوجاتا ہے ، ی اوہ ( حاصل شدہ علم ) بھول جاتا ہے ، اور یا وہ حکمرانوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور اس طرح اس کا علم جاتا رہتا ہے "۔
حضرت فضیل بن عیاض ؒ سے روایت کیا کہ آپ ؒ نے فرمایا :
" اگر اہل علم اپنی عزت برقرار رکھتے ا،پنے دین کی حفاطت پر حریص ہوتے، علم کو عزت بخشنے ، اس کی حفاظت کرتے ، اور اسے وہی مقام دیتے جو اللہ نے دیا ہے تو ضرور جابر وں کی گردنیں ان کے زیر دست ہوجاتیں ، لوگ ان کی پیروی کرنے لگتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ، اور اسلام اہل اسلام باعزت رہتے ۔ لیکن انہوں نے خود کو ذلیل کیا اور اپنی دنیا بچانے کی خاطر اپنے دین میں کمی کی پرواہ نہ کی ۔ انہوں نے اپنا علم دنیا داروں کو خوش کرنے میں لگایا تاکہ ان کے ہاتھ میں جو ( مال ودولت ) ہے ، وہ حاصل کر سکیں ، اس طرح وہ ذلیل ہوئے اور لوگوں کی نظروں میں گر گئے "۔
امام اوزاعیؒ نے فرمایا :
"اللہ کے یہاں اس عالم سے زیادہ مبغوض کوئی نہیں جو سرکاری کارندوں سے ملنے جاتا ہو"۔
حضرت اسحٰق نے فرمایا :
" وہ عالم کتنا قبیح ہے جس کی مجلس میں جایا جائے تو وہ موجود نہ ہو، اور جب پوچھا جائے تو پتہ چلے کہ وہ حکمران کے پاس گیا ہے۔ میں نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ" اگر تم کسی عالم کو حکمران سے ملتا دیکھو تو اس کے دین پر بے دریغ شک کا اظہار کرو" ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں حکمران کے یہاں گیا اور جب نکلنے کے بعد اپنا محاسبہ کیا تو اپنے نفس کو قصوروار نہ پایا ، حالانکہ میں حکمرانوں سے نہایت سختی سے پیش آتا ہوں اور ان کی خواہشات کے برخلاف چلتا ہوں "۔
حضرت محمد سلمہ ؒ نے فرمایا :
"غلاظت پر بیٹھی مکھی ان حکمرانوں کے در پر بیٹھے قاری ( یعنی عالم ) سے اچھی ہے "۔
حضرت عزالدین بن عبدالسلام ؒ کی "امالی " میں ۔۔۔ جوکہ ان کے شاگرد اور مالکی مذہب کے امام حضرت شہاب الدین القرافیؒ نے ان سے سن کر لکھی ہے۔۔۔مذکور ہے کہ :
ایک مرتبہ کسی سرکاری اہلکار نے حضرت عزلادین ؒ کو یہ تحریری پیغام بھیجا کہ آپ بادشاہ وقت سے ملا کریں اور اس سے راہ ورسم رکھا کریں تاکہ یہ آپ کے لیے موجب عزت ہو اورآپ کے دشمنوں کو نیچا دکھانے کا باعث ۔ اس پر آپ ؒ نے فرمایا :
" میں نے تو علم اس لیے حاصل کیاتھا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان سفیر بنوں ۔
اب کیا میں ان ( حکمرانوں ) کے در پر مارا مارا پھروں !
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا :
” … ومن أتى أبواب السلاطين افتتن، وما ازداد أحد من السلطان قرباً إلا ازداد من الله بعداً”
اور جو حکمرانوں کی چوکھٹ پر آئے گا فتنے میں مبتلا ہو جائے گا. اور جو شخص بھی سلطان کے قریب ہوتا جاتا ہے وہ اللہ سے دور ہوتا رہتا ہے.
[ السلسلة الصحيحة : ١٢٧٢ ]
سيدنا حذيفة بن اليمان رضي الله عنهما نے فرمایا : فتنوں کے مواقف سے بچو. آپ سے پوچھا گیا کہ مواقفِ فتنہ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا :
“أبواب الأمراء؛ يدخل أحدكم على الأمير فيصدقه بالكذب، ويقول له ما ليس فيه.”
حکمرانوں کے دروازے. تم میں سے کوئی شخص حاکم کے پاس جاتا ہے تو جھوٹ بول کر اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے بارے میں وہ باتیں کرتا ہے جو اس میں نہیں ہیں..
[ مصنف عبد الرزاق : ٢٠٦٤٣ ]
اہل علم نے دونوں باتوں کو جمع کیا ہے.
امام ابن عبد البر رحمه الله اپنی کتاب [ جامع بيان العلم وفضله : ٢٢٧ ] میں حکمرانوں کے پاس جانے کی ممانعت پر مبنی احادیث و آثار نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
“معنى هذا كله في السلطان الجائر الفاسق، وأما العدل منهم الفاضل فمداخلته وعونه على الصلاح من أفضل أعمال البر”
یہ سب احادیث و آثار ظالم و فاسق حکمرانوں کے متعلق ہیں. جو عادل ہیں تو ان کے ہاں آنا جانا اور خیر میں ان کی معاونت کرنا افضل ترین نیکیوں میں سے ہے.
علامہ مباركپوری نے حکمران کے پاس جانے سے فتنہ میں مبتلا ہونے کی تفسیر میں نقل کیا ہے :
“من دخل على السلطان وداهنه وقع في الفتنة ـ وأما من لم يداهن ونصحه وأمره بالمعروف ونهاه عن المنكر فكان دخوله عليه أفضل الجهاد.”
جو سلطان کے پاس گیا اور مداہنت برتی تو وہ فتنے میں مبتلا ہو گیا. اور جس نے مداہنت نہ برتی اور حاکم کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونھی عن المنکر کیا تو اس کا یہ جانا افضل جہاد ہے.
[ مرقاة المفاتيح : ٢٥٥/٧ ]
امام ابن مفلح فتنے والی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
“وهو محمول على من أتاه لطلب الدنيا ، لا سيما إن كان ظالما جائرا ، أو على من اعتاد ذلك ولزمه فإنه يخاف عليه الافتتان والعجب بدليل قوله في اللفظ الآخر (ومن لزم السلطان افتتن)
یہ حدیث اس شخص پر محمول کی جائے گی جو دنیاوی طلب کیلیے جائے بالخصوص جب حکمران ظالم و جابر ہو. یا ایسا شخص جو اسے عادت بنا لے اور حکمران کے ساتھ نتھی ہو جائے تو اس پر فتنے اور خود پسندی کا ڈر ہے کیونکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں (جس نے سلطان کی ملازمت اختیار کی) ”
[ الآداب الشرعية : ٤٥٨/٣ ]
جاہل لیڈر شپ :
قیامت کے قریب علم جیسے جیسے اٹھتا چلا جائے گا ، سیاسی ، سماجی ، شورائی، ریاستی باگ ڈور جہلاء کے ہاتھ میں دی جانے لگے گی، جیساکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنے رؤساء اور پیشوا بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔‘‘(صحیح بخاری:100، صحیح مسلم: 2673)
یہ حدیث دورِ حاضرپر بدرجہ اتم صادق نظر آتی ہے کہ کس طرح علم سے کورے لوگوں کی لیڈر شپ عوام کو گمراہی کے دھانے پر کھڑے کیے ہوئے ہے۔ اور ہم اخبارات و میڈیا کے ذریعے اس کے مظاہر دیکھ رہے ہیں ، بلکہ اس کے پیش آمدہ نقصانات بھی مشاہدہ میں ہیں۔
لئیموں کی لیڈر شپ:
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع ابن لكع(جامع ترمذی:2209)
یعنی : ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دنیا میں سب سے زیادہ سعادت والا اسے نہ سمجھ لیا جائے جو کمینہ ہو اور کمینے کا بیٹا ہو۔‘‘
یہ حدیث اپنے معنی و مفہوم میں بالکل واضح ہے اور دور حاضر پر اس کا انطباق بھی مشاہدہ میں ہے کہ حد درجہ شرم و حیا سے عاری ، بے حس ، ظالم و جابر لیڈرحکمرانی کا تاج سر پر سجانے کے لیے اپنے جتن ہائے خبیثہ میں مصروف و مشغول ہیں اور حیا باختہ ہوکر ارض پاکستان کو فساد میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔
بے وقوف حکمران مسلط کردئیے جائیں گے:
ایک روایت میں رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
بادروا بالموت ستاً إمرة السفهاء وكثرة الشرط وبيع الحكم واستخفافا بالدم وقطيعة الرحم ونشوا يتخذون القرآن مزامير يقدمونه يغنيهم وإن كان أقل منهم فقهاً(مسند احمد: 494/3سلسلۃ الصحیحۃ : 979 )
ترجمہ : ’’چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے موت کی تمنا کرو، بےوقوفوں کی امارت ،پولیس کا زیادہ ہونا، فیصلے کا بیچنا، انسانی خون کو ہلکا سمجھ لینا، قطع تعلقی کا عام ہونااور ایسے لوگوں کو (منبر و اسٹیج وغیرہ پر زیادہ بڑے عالم دین کے موجود ہونے کے باوجود )آگے کرنا تاکہ وہ گاگاکر قرآن سنائیں، حالانکہ وہ علم میں کم ہونگے۔‘‘
اس حدیث میں فرمایا گیا کہ دعا کرو کہ چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلےتمہیں موت آجائے۔ان میں سے ایک چیز بے وقوف اور فہم وبصیرت سے عاری لوگوں کی حکومت۔بلکہ ایک روایت میں رسول اکرم ﷺ نے امارتِ سفھاء سے پناہ مانگی ،چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرہ سے فرمایا:
اعاذك الله من إمارة السفهاء۔ قال: وما إمارة السفهاء؟ قال: ا مراء يكونون بعدي لا يقتدون بهديي ولا يستنون بسنتي فمن صدقهم بكذبهم وا عانهم على ظلمهم فا ولئك ليسوا مني ولست منهم ولا يردوا علي حوضي (صحیح ابن حبان:4514، مسند بزار:1609 )
دیگر کتب میں یہ روایت کعب بن عجرہ کی روایت سے بھی موجود ہے۔
ترجمہ :’’ اللہ تعالی تجھے بے وقوفوں کی امارت سے بچائے۔کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : بے وقوفوں کی امارت کیا ہے؟ فرمایا: میرے بعد ایسے امراء ہونگے جو میری رہنمائی کی اقتداء نہیں کریں گے اور نہ ہی میری سنت پر چلیں گے۔اور جو ان کے کذب کے باوجود ان کی تصدیق کریں گے اور ظلم میں ان کی مدد کریں گےایسے لوگوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔اور نہ ہی وہ میرے حوض پر آسکیں گے۔اور جو لوگ ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کریں گےاور ظلم پر ان کی مدد نہیں کریں گے یہی لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔اور یہ میرے حوض پر بھی وارد ہونگے۔
اس روایت پرصحیح ابن حبان میں باب قائم ہے کہ ذکر تعوذ المصطفی ﷺ من امارۃ السفھاء
یعنی نبیﷺ کا بے وقوفوں کی امارت سے پناہ مانگنا۔اس روایت میں نبیﷺ کے الفاظ ہیں ’’اعاذنا اللہ ‘‘ یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں۔
اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ جھوٹ بولنے والے اور ظالم ہونگے ۔حکمرانوں کا جھوٹ بولنا ، جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر کرسی حاصل کرنا یہ عقل مندی نہیں بلکہ بے وقوفی ہے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک روایت میں جھوٹ بولنے والے حکمران کے لئے وعید بیان کی گئی ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم قال ا بو معاوية ولا ينظر إليهم ولهم عذاب ا ليم شيخ زان وملك كذاب وعائل مستكبر‘‘ (صحیح مسلم :107 )
ترجمہ:’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام فرمائے گااور نہ ہی انہیں پاک و صاف کرے گا اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(1) بوڑھا زانی (2)جھوٹا بادشاہ (3)تکبر کرنے والامفلس ۔‘‘
مذکورہ روایت میں اس قدر سخت وعید کی وجہ یہی ہے کہ ان تینوں قسم کے افراد کو دوسروں کی بہ نسبت یہ تینوں گناہ بالاولیٰ زیب نہیں دیتےاور دوسروں کی بہ نسبت انہیں تو ان گناہوں سےزیادہ بچنا چاہئے تھا ،کیونکہ یہ ان کے لئے ان گناہوں سے دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا۔اسی لئے ان کے لئے مذکورہ گناہوں کے حوالے سے سزا بھی خصوصی اور زیادہ سخت ہے۔اور یہ بہت بڑی سزا ہے کہ اللہ تعالی نہ ان سے کلام کرے اور نہ ہی ان کاتزکیہ کرے اور پھر ان کے لئے درد ناک عذاب بھی ہے۔
یہ تینوں گناہ مذکورہ تینوں قسم کے افراد کی بے وقوفی کو بھی واضح کرتےہیں اور بالخصوص جھوٹا بادشاہ جیسا کہ پچھلی حدیث میں صراحت کے ساتھ بے وقوف بادشاہ کے اوصاف میں دروغ گوئی کابھی بیان ہوا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کی گئی یہ پیشین گوئی آج من و عن پوری ہوتی جارہی ہے
"
No comments:
Post a Comment