Featured Post

عقائد میں احتیاط کے تقاضے

عقائد میں احتیاط کے تقاضے 1 : یا محمد یا رسول اللہ کہنا شرک نہیں 2:  ایک شبہ اور اس کا ازالہ 3: اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دعا ...

Saturday, July 28, 2018

اُمتِ مُحمدیہ کی عُمر

کیا امام مہدی کا ظہور 861 سال سے پہلے ممکن نہیں؟
امام مہدی کا ظہور کب ہوگا؟
امتِ مُحمدیہ کی کتنی عمر ہے۔
قیامت کب آئیگی۔
بڑی جنگیں کب ہونگیں۔

امام مہدی رضی اللہ عنہ کا نام محمد ہوگا اور والد محترم کا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ ہوگا۔ یہ امام حسن رضی اللہ عنہ کی پشت مبارک سے ہونگے۔

کچھ علماء کرام کا موقف ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور 2200 ہجری سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
انکے اس موقف کی بنیاد ایک ضعیف حدیث ہے جس میں آتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ:
(قیامت کی) نشانیاں دو سو سال بعد ظاہر ہونگی۔

ابن ماجہ حدیث 4057 ﯾﮧ ﻣﺮﻗﺎﺓ ﺷﺮﺡ ﻣﺸﮑﻮٰﺓ ﮐﯽ ﺁﭨﮭﻮﯾﮟ ﺟﻠﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﺘﻦ ﺑﺎﺏ ﺍﺷﺮﺍﻁ ﺍﻟﺴﺎﻋۃ ﮐﯽﻓﺼﻞ ﺛﺎﻟﺚ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ 5460 ﮨﮯ۔
بعض آئمہ کرام نے اس حدیث کو موضوعات میں شامل کیا ہے جبکہ بعض نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
حیران کُن بات یہ ہے کہ ایک ضعیف حدیث کو بنیاد بناکر امت کو سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور اُنہیں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ آپ کی غلامی کا اب آغاز ہے۔ امت کو امام مہدی علیہ السلام کا ساتھ دینے کے لیے تیار کرنے کی بجائے انہیں جہاد و قتال سے دور کیا جا رہا ہے۔ امت کو امن کا درس دیا جا رہا ہے۔
     بالفرض درج بالا حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو کیا اس میں بیان کردہ نشانیاں وہ دس بڑی نشانیاں ہیں یا دیگر نشانیاں؟
ہزارویں کی دوسری صدی ہجری کے بعد محمد بن عبدالوہاب کا فتنہ عروج پر پہنچا۔
ہزارویں کی دوسری صدی ہجری کے بعد مرزا غلام قادیانی کذاب پیدا ہوا جس نے امت میں فتنہ پیدا کیا۔
ہزارویں کی تیسری صدی ہجری میں قرن الشیطان یعنی شیطانی دورکا اغاز ہوا۔یعنی خلافت عثمانیہ ٹُوٹی اور نجد میں ایک ریاست قائم ہوئی ۔
   ہزارویں کی تیسری صدی ہجری میں سلطنت کا خاتمہ ہوا یعنی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ بھی نشانیوں میں شامل ہے۔
اس جبری بادشاہت کے بعد امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا ذکر آتا ہے
جیسا کہ احادیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ
”حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
”جب تک اللہ چاہے گا تم میں نبوت رہے گی،
پھر جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا،ختم کردے گا۔“”                                                             
پھر نبوت کے طریقے پر حکومت ہوگی اور وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے ،پھر جب اللہ تعالیٰ اسے ختم کرنا چاہے گا ختم کردے گا۔“”
    پھر بادشاہت ہوگی جس میں لوگ آزمائشوں اور فتنوں کا سامنا کریں گے اور وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ رہے،
پھر وہ جب اسے ختم کرنا چاہے گا کر دے گا۔“
”پھر ظالمانہ بادشاہت ہوگی اور وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ رہے پھر وہ جب اسے ختم کرنا چاہے گاختم کردے گا۔
“”پھر نبوت کے طریقے پر حکومت ہوگی۔
پھرآپﷺخاموش ہوگئے۔

“نبی کریمﷺ سے روایت کیا گیا
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
”عنقریب میرے بعد خلفاءہوں گے
اورخلفاءکے بعد امراء،اور
امراءکے بعد بادشاہ ہوںگے اور
ان کے بعد جابر بادشاہ ہوںگے۔
پھر میرے خانوادے سے ایک شحص نکلے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے ایسے بھر دے گا جیسی وہ اس سے قبل ظلم سے بھری ہوئی تھی۔

“تمیم الداری ؓکہتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
”بے شک یہ(اسلام)ہر اس جگہ پہنچے گا جہاں دن اور رات ہوتے ہیں ،مٹی سے بنا کوئی گھر یا کھال سے بنا کوئی خیمہ ایسا نہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ اس دین میں نہلے آئے،خواہ وہ عزت والوں کی طرح عزت سے ہو یا ذلیل ہو کر ،
عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اسلام سے دے اور رسوائی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کفر کو دے۔
(مسند احمد)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاکہ
’’تمہارے پاس نبوت اور رحمت رہے گی اور
عنقریب خلافت اور رحمت آئے گی،
پھر ایسا اور ایسا ہو گا(بادشاہت اور رحمت آئے گی)۔
پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت آئے گی۔لوگ شرابیں پئیں گے اور ریشم پہنیں گے، لیکن اس کے باوجود قیامت تک وہ منصور رہیں گے۔‘‘

(المعجم الأوسط للطبراني : 345/6، ح : 6581، وسندہٗ حسنٌ)
یعنی خلافت کے بعد ایک خاص زمانہ ہے،جسے )کذا وکذا( سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ ہے سیدنا معاویہ کی بادشاہت کا زمانہ۔
اسکے بعد جا کر کاٹ کھانے والی ملوکیت کا دور شروع ہو گا۔
لہٰذا جن روایات میں خلافت کے بعد ملک عضوض کا ذکر ہے، وہ اختصار پر مبنی ہیں۔
اس کی تائید ایک دوسری صریح روایت سے ہوتی ہے،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

أَوَّلُ ہٰذَا الْـأَمْرِ نُبُوَّۃٌ وَّرَحْمَۃٌ، ثُمَّ یَکُونُ خِلَافَۃً وَّرَحْمَۃً، ثُمَّ یَکُونُ مُلْکًا وَّرَحْمَۃً، ثُمَّ یَکُونُ إِمَارَۃً وَّرَحْمَۃً ۔

’’پہلے نبوت اور رحمت ہے،
پھر خلافت اور رحمت ہوگی،
پھر بادشاہت اور رحمت ہوگی،
پھر امارت اور رحمت ہو گی۔‘‘

(المعجم الکبیر للطبراني : 88/11، ح : 11138، السلسلۃ الصحیحۃ : 3270، وسندہٗ حسن

ابن تیمیہ اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں :

فکَانَتْ نُبُوَّۃُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم نُبُوَّۃٌ وَّرَحْمَۃٌ، وَکَانَتْ خِلَافَۃُ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ خِلَافَۃَ نُبُوَّۃٍ وَّرَحْمَۃٍ، وَکَانَتْ إِمَارَۃُ مُعَاوِیَۃَ مُلْکًا وَّرَحْمَۃً، وَبَعْدَہٗ وَقَعَ مُلْکٌ عَضُوضٌ ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت،نبوت و رحمت تھی۔
خلفاء راشدین کی خلافت، خلافت ِ نبوت اور رحمت تھی۔
سیدنا معاویہ کی امارت رحمت والی بادشاہت تھی۔
اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت شروع ہو گئی۔‘‘
(جامع المسائل : 154/5)

نیز کہتے ہیں :

وَاتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلٰیأَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَفْضَلُ مُلُوکِ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ، فَإِنَّ الْـأَرْبَعَۃَقَبْلَہٗ کَانُوا خُلَفَاء َ نُبُوَّۃٍ، وَہُوَ أَوَّلُ الْمُلُوکِ، کَانَ مُلْکُہٗ مُلْکًا وَّرَحْمَۃً، کَمَا جَائَ فِي الْحَدِیثِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، وَکَانَ فِي مُلْکِہٖ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَالْحُلْمِ وَنَفْعِ الْمُسْلِمِینَ مَا یُعْلِمُ أَنَّہٗ کَانَ خَیْرًا مِّنْ مُلْکِ غَیْرِہٖ ۔

"اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدنا معاویہ اس امت کے سب سے افضل بادشاہ تھے۔
آپ سے پہلے چاروں حکمران خلفائے نبوت تھے۔آٓپ ہی سب سے پہلے بادشاہ ہوئے۔آپ کی حکمرانی باعث ِرحمت تھی،
جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔آپ کی بادشاہت مسلمانوں کے لیے اتنی فائدہ مند تھی اور اس میں اتنی رحمت و برکت تھی کہ اس کے دنیا کی سب سے اچھی بادشاہت ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 478/4)

یعنی یہ اجماعی بات ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت و ملوکیت باعث رحمت تھی   ملوکیت ِعضوض(کاٹ کھانے والی بادشاہت)آپ کے دور اقتدار کے بعد میں شروع ہوئی۔

صدر الدین، محمد بن علاء الدین علی، امام ابن ابو العز حنفی رحمہ اللہ (792-731ھ)فرماتے ہیں :

و أَوَّلُ مُلُوکِ الْمُسْلِمِینَ مُعَاوِیَۃُ  رضی اللہ عنہ وَہُوَ خَیْرُ مُلُوکِ الْمُسْلِمِینَ ۔’

""مسلمانوں کے سب سے پہلے اور افضل بادشاہ سیدنا معاویہ تھے۔
‘(شرح العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : 722)

سنی مفسر،ابو فدائی، اسماعیل بن عمر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ(774-701ھ)فرماتے ہیں :

’تمام رعایا نے 41 ہجری میں سیدنا معاویہ کی بیعت پر اجماع کیا،جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔آپ اپنی وفات(60ہجری)تک خود مختار حکمران رہے۔آپ کے دور میں دشمنانِ اسلام کے علاقوں میں جہاد جاری تھا،کلمۃ اللہ بلند تھا اور اطراف ِزمین سے مالِ غنیمت آ رہا تھا۔مسلمان آپ کی حکومت میں خوش و خرم تھے، انہیں عدل و انصاف مہیا تھا اور حکومت کا ان کے ساتھ نہایت شفقت و درگزر والا سلوک تھا۔
‘(البدایۃ والنہایۃ : 119/8)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمانِ باری تعالیٰ :

{وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطَانًا}
(بني إسرائیل17 : 33)

(اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کےولی کو اختیار دیا ہے)
کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

وَقَدْ أَخَذَ الْإِمَامُ الْحَبْرُ ابْنُ عَبَّاسٍ مِّنْ عُمُومِ ہٰذِہِ الْـآیَۃِ الْکَرِیمَۃِ وِلَایَۃَ مُعَاوِیَۃَ السَّلْطَنَۃَ، أَنَّہٗ سَیَمْلِکُ، لِأَنَّہٗ کَانَوَلِيَّ عُثْمَانَ ۔
"’حبر امت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت ِکریمہ کے عموم سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت ثابت کی ہے کہ وہ عنقریب حکمران بنیں گے، کیونکہ وہ سیدنا عثمان کے ولی تھے۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر : 142/4، بتحقیق عبد الرزّاق المہدي)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی یہ بات بلا دلیل نہیں، اس کے لیےیہ روایت ملاحظہ فرمائیں:
ثقہ تابعی،ابومسلم، زہدم بن مضرب جرمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :۔
’’ہم نےسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی محفل میں شریک ہوئے۔
انہوں نے فرمایا :
میں تمہیں ایسی بات بیان کرنے والا ہوں جو نہ مخفی ہے نہ ظاہر۔جب عثمان(کی شہادت)کا معاملہ ہوا تو
میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا :
اس معاملے سے دُور رہیں،اگر آپ کسی بِل میں بھی ہوں گے تو (خلافت کے لیے)آپ کو تلاش کر کے نکال لیا جائے گا،
لیکن انہوں نےمیری بات نہیں مانی۔
اللہ کی قسم! معاویہ ضرور تمہارے حکمران بنیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

{وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ إِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا}
(الإسرائ17: 33)

(اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے،وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے، اس کی ضرور مددکی جائے گی)۔
(المعجم الکبیر للطبراني : 320/10، وسندہٗ حسنٌ)

درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام سے پہلے کہ جن ادوار کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ ادوار گزر چکے ہیں۔
خلافت بھی گزر چکی، رحمت والی بادشاہت بھی گزر چکی،
کاٹ کھانے والی بادشاہت بھی گزر چکی،
ظالم و جابر بادشاہت بھی گزر چکی۔
اب ان بادشاہتوں کا عالمی سطح پر تصور ہی نہیں رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ملک بن چکے ہیں اور ہر جگہ ظلم و جبر کا بازار گرم ہے۔ ہر طرف فتنے پھیلے ہوئے ہیں، کفار امت مسلمہ پر ایسے ہی چڑھ دوڑے ہیں جیسے کھانے پر بھوکے چڑھ دوڑتے ہیں۔اسکے بعد امام مہدی علیہ کے دور کے سوا کوئی ایسا دور نظر نہیں آتا ہے جسکی احادیث میں نشاندہی فرمائی گئی ہو۔
امام مہدی علیہ السلام کا کب ظہور ہوگا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا ظہور عنقریب ہوگا۔
جو علماء کرام ایک ضعیف حدیث کا بنیاد بناکر امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا فگر 2200 ہجری یعنی 861 سال بعد کا دے رہے ہیں وہ ان صحیح احادیث مبارکہ کو کیوں بھول گئے:
ترجمہ:
تمہاری عمر پہلی امتوں کی نسبت ایسے ہے جیسے عصر اورمغرب کے درمیان کی مدت،
تمہاری اور یہود ونصاریٰ کی مثال یوں ہے کہ
ایک شخص نے مزدور طلب کئے اورکہا کون کون دوپہر تک کام کرے گا اسے ایک ایک قیراط مزدوری ملے گی،
یہود اس پر کام کرتے رہے،
مالک نےپھر کہا:
کون کون دوپہر سے عصر تک قیراط قیراط پر کام کرے گا،
سو نصاریٰ دوپہر سے عصر تک کام کرتے رہے؛
پھر اس نے کہا کون کون عصر سے مغرب تک دو دو قیراط مزدوری پر کام کرے گا
(اے مسلمانو: ) خبردار ہو تمہاری اجرت دوگنی ہوگئی،
اس پر یہود ونصاریٰ غصے میں آگئے اور کہا:
ہم نے کام زیادہ وقت کیا اورمزدور ی ہمیں کم ملی،
اللہ تعالی نے فرمایا:
میں نے کوئی تمہارا حق چھینا ہے؟
انہوں نے کہا:نہیں،
اس پر اللہ تعالی نےفرمایا:
سویہ میرا فضل ہے جس کو چاہوں دوں۔

(سنن الترمذی،باب ماجاء فی مثل ابنادم واجلہ،حدیث نمبر:۲۷۹۷)

ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﻧﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ،
ﺁﭖ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ﻣﻨﺒﺮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺍﻣﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﻋﺼﺮ ﺳﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺑﻨﮯ ﺗﮏ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
۔ﺗﻮﺭﯾﺖ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﺭﯾﺖ ﺩﯼ ﮔﺌﯽﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ,  ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺩﻥ ﺁﺩﮬﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻋﺎﺟﺰ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺮﺍﻁ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﮨﻞ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﮐﻮ ﺍﻧﺠﯿﻞ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﺼﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺁ ﮔﺌﮯ
ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺮﺍﻁ ﺩﯾﺎﮔﯿﺎ۔
ﭘﮭﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺑﻨﮯ ﺗﮏ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺩﻭ ﻗﯿﺮﺍﻁ ﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﮨﻞ ﺗﻮﺭﯾﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺏ !
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺳﺐ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺟﺮ ﭘﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺟﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﯽ ﮨﮯ؟
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ !
ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ نےٰ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﻓﻀﻞ ﮨﮯ, ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﭘﺮ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔
صحیح بخاری، کتاب التوحید

ررج بالا دو احادیثِ مبارکہ میں کم نیکیوں پر زیادہ ثواب کا ذکر ہے وہاں اس امت کی عمر کا بھی ذکر ہے جیسا کہﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺍﻣﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﺼﺮ ﺳﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺑﻨﮯ ﺗﮏ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔تمہاری عمر پہلی امتوں کی نسبت ایسے ہے جیسے عصر اورمغرب کے درمیان کی مدت،
یہودیوں کی عمر لگ بھگ دو ہزار سال تھی جبکہ عیسائیوں کی عمر لگ بھگ چھے سو سال تھی ۔انکی کُل عمر چھبیس سو سال کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو امتِ مُحمدیہ کی عمر ان سے کم ہوگی۔
صبح سے ظہر کے درمیان کا ٹائم زیادہ ہوتا ہے۔
ظہر سے عصر کے درمیان کا ٹائم نسبت کم ہوتا ہے
جبکہ عصر سے مغرب تک کا ٹائم بالکل کم ہوتا ہے۔

لہذا ان صحیح احادیث کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امت محمدیہ کے پاس اب زیادہ ٹائم نہیں بچا ہے۔چند ایک اور روایات ہیں جن کو درج بالا احادیث کے تناظر میں دیکھنا ضروری محسوس ہوتا ہے

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ

عمر الدنیا سبعة آلاف سنة

کہ عمر دنیا سات ہزار برس ہے۔

اس روایت کوعلامہ سیوطی(المتوفى: 911ھ)نےاللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعةجزء2ص369میں
اورابن عراق الكناني (المتوفى: 963ھ)
نےتنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعةجزء2ص379میں اور
حضرت ملا علی قاریؒ(المتوفى: 1014ھ)نےالأسرارالمرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى جزء1ص199 میں بیان کیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت ساڑھے پانچ ہزار سال کے بعد ہوئی۔۔
اسی طرح حضرت علیؓ کا قول ہے کہ تورات میں ہے کہ‘

‘الدنیا جمعہ من جمع الآخرة و ھی سبعة آلاف سنة’

’کہ دنیا آخرت کےجمعوں میں سے ایک جمعہ ہے اور وہ سات ہزار سال ہے۔

(فیض القدیر جز ء3صفحہ547)

ب آئیے ہم مزید دلائل کی روشنی میں اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر سورہ قمر

بزار میں ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج کے ڈُوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا،
   رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا،
جس میں فرمایا!
اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دُنیا کے گُزرے ہوئے حصّے میں اور
باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے
جو اس دن کے گزرے ہُوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے۔

اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسی کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطابھی کر جاتے تھے۔

دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ رضی اللہ عنھما کی روایت سے ہے کہ

عصر کے بعد جب سُورج بالکل غرُوب کے قرِیب ہوچُکا تھا'
رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلے میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں ہے۔

حضرت بہز سے مروی ہے کہ حضرت عُتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا
اور کبھی کہتے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں خُطبہ سُناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا

دُنیا کے خاتمے کا اعلان ہوچکا، یہ پیٹھ پھیرے بھاگی جا رہی ہے اورجس طرح برتن کا کھانا کھا لیا جائے اور کِناروں میں کُچھ لگا لپٹا رہ جائے اُسی طرح دنیا کی عُمر کا کُل حصہ نِکل چُکا،
صِرف برائے نام باقی رہ گیا ہے۔تم یہاں سے ایسے جہاں کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں، پس تم سے جو ہوسکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ۔

تفسیر سورہ قمر، پارہ 27 صفحہ 395/396، تفسیر ابن کثیر۔

ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﺁﺧﺮﯼ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ :

اﻣﺎﻡ ﺑﯿﮩﻘﯽ ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﺓ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
ﺟﺐ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﺻﺒﺢ ﻓﺠﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍ ﮪ ﻟﯿﺘﮯ۔۔ﭘﮭﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﺑﻮ ﺯﻣﻞ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺣﺴﺐ ﻋﺎﺩﺕ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﷺ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ عرض کی جی ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ !ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ،
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﺧﺪﺍ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﻣﻼﺋﮯ ﺷﺮ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺋﮯ, ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺑﻨﺎﺋﮯ, ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ کا ﻣﺴﺘﺤﻖ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡﺟﮩﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﺎﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ, ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﮨﮯ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻑ ﺍﻭﺭﺑﮯﺷﻤﺎﺭ ﻟﻮﮒ اس میں  ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،
ﯾﮧ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﺑﺎﻍ ﮐﻮ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮩﻠﮩﻼﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺮﺍ ﺑﮭﺮﺍ ﺑﺎﻍ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ،
ﭘﺎﻧﯽ ﮨﺮ ﺳﻮ ﺭﻭﺍﮞ ﮨﮯ ﺳﺒﺰﮮ ﺳﮯ ﭘﭩﺎ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ،
ﺍﻧﻮﺍﻉ ﻭ ﺍﻗﺴﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺖ ,
ﺧﻮﺷﻨﻤﺎ ﭘﮭﻠﮯ ﭘﮭﻮﻟﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺟﻮ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯾﺎﮞ ﺗﯿﺰ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺁﺋﯽ ﺟﻮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﭼﺮﺍﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﻀﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﻞ ﺩﺋﯿﮯ،
ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ ﺁﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﻧﮑﺎ ﮔﺰﺭ ﺍﻥ ﮔﻞ ﻭ ﮔﻠﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﮯ,
ﮔﻮﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﭘﮍﮮ،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺗﻮ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺟﺐ ﺩﻭﺭ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺒﺮ ﺳﺎﺕ ﺳﯿﮍﮬﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﭽﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﷺ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺩﺭﺟﮯ ﭘﺮ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺁﭖ ﮐﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮨﯿﮟ ﮔﻨﺪﻡ ﮔﻮﮞ ﺭﻧﮓ, ﺑﮭﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ, ﺩﺭﺍﺯ ﻗﺪ
ﺟﺐ ﮐﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﮨﻮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮨﯿﮟ ﺑﮭﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮧ ﻗﺪ ﮐﮯ,
ﺟﻨﮑﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺑﮑﺜﺮﺕ ﺗﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﻝ ﮔﻮﯾﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﯿﮞ
ﺠﺐ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺧﻼﻕ ﻭ ﻋﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﻧﻘﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺁﭖ ﷺ ﺳﮯ ﻣﺸﺎﺑﮩﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ,
ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﺳﺐ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺑﻠﯽ ﭘﺘﻠﯽ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ،
یہ سن کر ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻣﺘﻐﯿﺮ ﮨﻮﮔﯿﺎﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ

آﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ

ﺳﯿﺪﮬﮯ ﺳﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﯾﻦ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﯿﻄﺮﻑ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ
ﺟﺲ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﭘﺮ ﺗﻢ ﮨﻮ،
ﮨﺮﺍ ﺑﮭﺮﺍ ﺳﺒﺰ ﺑﺎﻍ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻟﺒﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﺎﻣﺎﻥ،
ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ, ﻧﮧ ﮨﻢ ﺍﺳ ﻤﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﻧﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﭼﻤﭩﮯ ﮔﯽ, ﻧﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﻮﮔﺎ ﻧﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﻢ ﺳﮯ, ﻧﮧ ﮨﻢ ﺍﺳﮑﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺮﯾﻨﮕﮯ ﻧﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﻟﭙﭩﮯ ﮔﯽ،
ﭘﮭﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﻌﺪ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺁﺋﮯﮔﯽ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﻌﺾ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺑﻘﺪﺭ ﺣﺎﺟﺖ ﻟﮯ ﻟﯿﮟﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻞ ﺩﯾﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺠﺎﺕ ﭘﺎﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺴﺘﻐﺮﻕ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺑﮩﮏ ﺟﺎﺋﮯﮔﯽ،
ﻓﺎﻥ ﻟﻠﮧ ﻭﺍﻧﺎ ﺍﻟﯿﮧ ﺭﺍﺟﻌﻮﻥ،
ﺍﺏ ﺭﮨﮯ ﺗﻢ ﺳﻮ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯ ﺭﮨﻮﮔﮯ یہاں تج ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،

ﺟﺲ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﺗﻮﯾﮟ ﺩﺭﺟﮧ ﭘﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺳﺎﺕ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﮨﮯﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔

ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺟﺲ ﮔﻨﺪﻣﯽ ﺭﻧﮓ ﻣﻮﭨﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ, ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﺷﺮﻑ ﮨﻤﮑﻼﻣﯽ ﮨﻮﭼﮑﺎ ﮨﮯﺍﻭﺭ
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮧ ﻗﺪ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ, ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺗﻠﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ, ﺟﻨﮑﮯ ﺑﺎﻝ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺗﺮ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﻧﮑﺎ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺰﺭﮔﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭﺟﻦ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺠﮫ ﺟﯿﺴﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺎﭖ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮧﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯿﮟ, ﮨﻢ ﺳﺐ ﺍﻧﮑﺎ ﻗﺼﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﺍﻗﺘﺪﺍﺀﺍﻭﺭ ﺗﺎﺑﻌﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺟﺲ ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﺮﺭﮨﺎﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﭘﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﮔﯽ
ﻧﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﺖ ﮨﮯ۔
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﯾﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ؟
ہاﮞ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺩﮮ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔‏

تفسیر ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﭘﺎﺭﮦ ۷۲ ﺳﻮﺭﺋﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ سورہ نمبر 56

اگر دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے تو پھر قیامت کیوں نہیں آئی ابھی تک کیونکہ ہزار سے چار صدیاں زائد گزر چکی ہیں۔اس سوال کا جواب اس حدیث میں ملتا ہے
ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﮯ ﺍﺑﯽ ﺛﻌﻠﺒﮧ ﺍﻟﺨﺸﻨﯽ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺳﮯ
ﺍﻭﺭﺳﻨﻦ ﺍﺑﯽ ﺩﺍﺅﺩ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺳﮯ
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﻨﻘﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ

ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :

اﻧﯽ ﻻﺭﺟﻮﺍﻥ ﺗﻨﺠﻮ اﻣﺘﯽ ﻋﻨﺪ ﺭﺑﮭﺎ ﻣﻦ ﺍﻥ ﯾﻮﺧﺮﮬﺎ ﻧﺼﻒ ﯾﻮﻡ ﻗﯿﻞ ﻟﺴﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﻭﮐﻢ ﻧﺼﻒ ﯾﻮﻡ ﻗﺎﻝ ﺧﻤﺴﻤﺎﺋﺔ ﺳﻨﺔ۔

ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻣﯿﺪ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﭻ ﺟﺎﺋﮯﮔﯽﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﺩﻥ ﺗﮏ ﻣﻮﺧﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﯾﮧ ﺁﺩﮬﺎ ﺩﻥ ﮐﺘﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﮔﺎ؟
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮﺳﺎﻝ۔ ‏

(ﺍﻟﻨﮩﺎﯾﺔﻓﯽ ﺍﻟﻔﺘﻦ ﻭﺍﻟﻤﻼﺣﻢ ﺍﺯ ﺍﺑﻦ ﮐﺜﯿﺮ ﺹ ۷۳، ۸۳ ‏)

ابھی 1439 ہجری سال جاری ہے۔ اگر امت محمدیہ یعنی مسلمانوں کی عمر پندرہ سو سال ہوئی تو ہمارے پاس تقریباً اکسٹھ سال بچتے ہیں۔
ان اکسٹھ سالوں میں عراق شام اور مصر کا تباہ ہونا,
دریائے فرات سے سونے کے پہاڑ کا نکلنا،
اس سونے پر خون ریز جنگ کا ہونا
دھواں کا نکلنا
قسطنطنیہ کا عیسائیوں کے ہاتھوں میں جانا،
امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور ہونا
ملحمۃ الکُبریٰ کا ہونا
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا
پھر مسلمانوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کا فتح ہونا،
دجال کا نکلنا،
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دنیا میں آنا
دجال کا قتل اور
یاجوج ماجوج کا خروج۔
یاجوج ماجوج کا خاتمہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات
اسکے بعد ایک مسلمان حاکم  کا ہونا
دابتہ الارض کا نکلنا

اغلباًاسکے بعدامت محمدیہ کا تقریباً خاتمہ ہوجائیگا حتی کہ یمن سے ایک ہوا آکر مسلمانوں کی روح قبض کرلیگی۔ یہاں تک کا ہونا ہے۔
و اللہ اعلم

اب ہم آتے ہیں ان نشانیوں کی طرف جو تیزی سے ظہورِ امام مہدی اور دجال کے خروج کی طرف لے جا رہی ہیں۔

ﺍﺑﻮﻧﻀﺮﮦ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ,
ﮨﻢ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﮯ,
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﻋﺮﺍﻕ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﻔﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﻧﮧ ﺁﺋﯿﮟ۔
ہم ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﮐﺲ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ؟
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﻋﺠﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ :
ﻗﺮﯾﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﺎﻡ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯼ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ ‏(ﻣﺪﯼ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻗﻔﯿﺰ ‏)
ہم نے ﮐﮩﺎ : ﮐﺲ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ؟
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﺭﻭﻡ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﭼﭗ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ,
ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ :
رﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” :
ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺧﯿﺮ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﻮ ﻟﭗ ﺑﮭﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﻣﺎﻝ ﺩﮮ ﮔﺎ‏) ﯾﻌﻨﯽ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺮﻓﯿﺎﮞ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ‏( ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺷﻤﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔ “
ﺟﺮﯾﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ :
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﻮﻧﻀﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮﺍﻟﻌﻼﺀ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﮨﮯ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻧﮩﯿﮟ‏
(ﯾﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻣﺖ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﺗﻮ ﺍﻭﺍﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ)۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا
عراق کا ملک اپنے درہم اور قفیز کو روکے گااور
شام کا ملک اپنے مدی اوردینار کو روکے گااور
مصر کا ملک اپنے اردب و دینار کو روکے گا
اور ہو جاؤ گے تم جیسے آگے تھے،
اور ہو جاؤ گے تم جیسے آگے تھے،
اور ہو جاؤ گے تم جیسے آگے تھے۔“

پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر گواہی دیتا ہے
ابوہریرہ کا گوشت اور خون(یعنی اس میں کچھ شک نہیں)

ایک اور روایت میں مصر کی تباہی رومیوں کے ہاتھوں ہونا بتایا گیا ہے۔شام و عراق تو تباہ ہو رہے ہیں۔ اسکے بعد مصر کی باری ہے۔ مصر کے تذکرے کے بعد امام مہدی علیہ السلام کا ذکر بہت اہم ہے۔ یعنی تین ممالک کی تباہی کے بعد امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ممکن ہے۔
جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وقت زیادہ دور نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ
بےﺷﮏ ﺩﺟﺎﻝ ﺍﺻﻔﮩﺎﻥ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﻧﮑﻠﮯ ﮔﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺡ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮨﻮﻧﮕﮯﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﻭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﭘﮩﺮﮦ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیران کن طور آج مدینہ میں داخل ہونے کے سات دروازے )راستے( ہیں۔

دجال اپنا خیمہ جرف کی شور زدہ  زمین میں لگائے گا اور تمام منافق مرد اور عورتیں اس کے پاس چلےجائیں گے۔۔

مدینہ کی حدود ختم ہونے کیساتھ ہی کنگ فہد پیلس بنا ہے جسے لوگ دجال پیلس بھی کہتے ہیں۔ جرف کا مقام مدینہ کے اسی جانب ہے۔

دجال کے خروج کے وقت مسجدِ نبوی کا رنگ سفید ہوگا دجال کہے گا کہ وہ احمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مسجد ہے۔
آج مسجد نبوی کا رنگ سفید ہے۔

قربِ قیامت سے متعلق احادیث کو مدِنظر رکھ کر دیکھا جائے تو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا وقت بہت قریب ہے۔

عراق و شام تباہ ہوچکے ہیں۔

دعاشدہ ممالک یعنی شام و یمن اس علاقے کے ہاتھوں تباہ ہو رہےہیں جس کو آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا نہ دی۔

دنیا بھر سے یہودی اسرائیل آکر آباد ہو گئے ہیں جو انکے خاتمے کی علامت ہے۔

دجال کے خروج سے قبل بحر طبریہ کا پانی کم ہو جائیگا اور

بیسان میں کھجور پھل دینا بند کر دیگی یا کھجور کا درخت ناپید ہو جائیگا،

زغر کا چشمہ بھی خشک ہو جائیگا۔

طبریہ کا پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے جبکہ بیسان کی کھجوروں نے آج سے سینکڑوں سال پہلے حموی کے دور میں پھل دینا بند کر دیاتھا۔

دجال عراق و شام کے درمیان سے, اور خراسان سے خروج کریگا۔ آج ان تینوں جگہوں میں یہودی اسرائیلی موجود ہیں، امریکی موجود ہیں اور انکے لے پالک داعش والے بھی موجود ہیں اور تینوں جگہیں جنگ کا مرکز ہیں۔

مشرق کے سمندروں میں جہاز رانی بند ہونے کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ چین امریکہ کی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے تین ائیر کرافٹ کیرئیر چین کے آس پاس موجود ہیں۔ یہاں کبھی بھی بحری تجارت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے ظاہری دنیا کو  دیکھا جائے تو آج امریکہ روس چین پاکستان، فرانس برطانیہ کے پاس اتنے میزائیل اور ایٹم بمز ہیں کہ وہ دنیا کو چند منٹوں میں تباہ کرسکتے ہیں۔

اتنے تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ تباہی قریب ہے۔

ٹرمپ اور مودی جیسی انتہاپسند قیادتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔

یورپ میں طوفانوں کی بھرمار اور قدرتی تباہیاں بڑھ رہی ہیں۔ جو انکو مالی خسارے سے دوچار کر رہی ہیں۔ انکی معیشیت کمزور ہوگی تو وہ اپنے قدم باہر نکالیں گے۔

یورپ و امریکہ میں نسلی و مذہبی انتہاپسندی بڑھ رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت انکو تباہ کن جنگوں پر ابھارے گی۔یعنی ہم قدرتی طور پر بھی جنگوں کی طرف جا رہے ہیں او انسانی طور پر بھی۔

لہذا جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہھے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور 2200 ہجری سے پہلے ممکن نہیں انکا دعویٰ غلط لگتا ہے۔ یا تو وہ احادیث کا نچوڑ نکال نہیں سکے یا پھر وہ مسلمانوں کو خوابِ غفلت میں سلانا چاہتے ہیں۔۔

جہاں تک معترض کی اس بات کا تعلق ہےکہ

‘‘قیامت کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور دنیا کی عمر کتنی ہے۔’‘‘اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قیامت کی گھڑی معلوم نہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا نے قیامت کے بارے میں انسان کو کوئی اجمالی علم بھی نہیں دیا۔
ایسی آیات سے مطلب یہ ہے کہ ؔقیامت کی خاص گھڑی توکسی کو معلوم نہیں
مگر خدا نے حمل کے دنوں کی طرح انسانوں کو اس قدر علم دے دیا ہے کہ ساتویں ہزار کے گذرنے تک اِس زمین کے باشندوں پر قیامت آجائے گی۔اِس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ہر ایک انسان کا بچہ جو پیٹ میں ہو نو9 ماہ دس10 دن تک ضرور پیدا ہوجاتاہے تاہم اُسکے پیداہونے کی گھڑی خاص معلوم نہیں ۔
اِسی طرح قیامت بھی سات ہزار برس تک آجائےگی۔مگراُس کےآنےکی گھڑی خاص معلوم نہیں۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو 2 تین 3 صدیاں بطور کسورکے زیادہ ہوجائیں جو شمار میں نہیں آسکتیں۔’’

No comments:

Post a Comment