میسٹائٹس،
مویشیوں کے تھنوں کی سوزش کی بیماری ہے جو دودھ کی کوالٹی اور پیداوار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کا سبب ایک بیکٹیریا ہے جو دودھ کے نپل کے ذریعے جانور پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور کسی چوٹ، باڑے کی گندگی یا انسانی ہاتھوں کے ذریعے جانور تک پہنچتا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے دودھ خراب ہوتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس سے مویشیوں کی دودھ دینے کی صلاحیت مستقل طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔ بیماری شدید ہو تو مویشیوں کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہ بیماری ایک جانور سے دوسرے میں پھیلتی ہے اور پورا ریوڑ اس کی وجہ سے ناکارہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ دودھ کی کولٹی پر مستقلاً نظر رکھنے، جانوروں کی بہتر خوراک اور بہتر رہائش سے اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر کسی جانور کو یہ بیماری لگ جائے تو اسے فوراً دیگر جانوروں سے علیحدہ کردینا چاہئے۔ اس بیماری کی خاص نشانیاں درج ذیل ہیں۔
جانور معمول سے دودھ کم کردیتا ہے۔
کھانا پینا کم کردیتا ہے اور کمزور ہوجاتا ہے۔
جانور بیتاب رہتا ہے اور اسے بخار بھی ہوسکتا ہے۔
دودھ کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے اور اور اس کا ذائقہ قدرے نمکین ہوجاتا ہے۔
اگر بیماری شدید ہے تو دودھ میں گند اور خون بھی آسکتا ہے۔
میسٹائٹس کی خاص نشانیاں:
تھنوں میں سوزش۔
تھن کا رنگ لال ہوجانا۔
تھنوں کا سخت ہوجانا۔
دودھ دوہتے ہوئے دودھ میں ہلکے پیلے رنگ کے ریشے ظاہر ہونا۔
دودھ دوہنے اور بچھڑے کے دودھ پینے سے جانور کو درد ہو۔
شدید بیماری میں تھنوں پر زخم بن جانا اور تھن بند ہوجانا۔
نوٹ: اگر بیماری شدید ہو تو یہ نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں لیکن بیماری کی ابتدا میں یہ نشانیاں ظاہر نہیں ہوتیں۔
احتیاطی تدابیر
گندگی اس بیماری کے بڑے اسباب میں سے ہے اسلئے باڑے کو صاف ستھرا اور ہوادار رکھنا چاہئے۔
دودھ دوہنے سے پہلے ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھونا چاہئے۔
دودھ دوہنے سے پہلے جانور کے تھن صاف پانی سے دھوئیں اور دھلے ہوئے صاف کپڑے سے خشک کرنے چاہئیں۔
اگر کوئی جانور اس بیماری سے متاثر ہے تو اسے سب سے آخر میں دوہنا چاہئے اور اس کا دودھ ضایع کردینا چاہئے۔ اس جانور کے علاج، خوراک اور آرام پر مکمل توجہ دینی چاہئے۔
میسٹائٹس ٹیسٹ یا سرف ٹیسٹ
اس بیماری کی پہچان کیلئے عام طور پر ایک سادہ سا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جسے سی ایم ٹی ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ دیگر ممالک اور پاکستان میں بھی بڑے فارموں پر اس ٹیسٹ میں ریئیجنٹ استعمال ہوتے ہیں اور مہنگے کلینیکل ٹیسٹ کئے جاتے ہیں ۔ تاہم میسٹائٹس کی پہچان کیلئے سادہ سا نسخہ استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسطرح دیہی علاقوں کے لوگ اس بیماری سے اپنے جانوروں کو بچاسکتے ہیں۔
طریقہ (1)۔
سامان
پانی: ایک گلاس
سرف واشنگ پائوڈر: کھانے کے دو چمچے
چائے کے خالی پیالے: چار عدد
کالے کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا
سرف کو پانی میں ملاکر حل کرلیں۔
ہر پیالے میں تھوڑی مقدار میں ایک تھن کا دودھ دوہیں اسطرح چار پیالوں میں چار تھنوں کا دودھ ہو۔
پیالیوں میں دودھ دوہنے سے پہلے تھوڑا دودھ باہر گرانا چاہئے۔
دودھ کی مقدار سب پیالیوں میں برابر ہو۔
ہر پیالے میں دودھ کی مقدار کے برابر سرف کا محلول ڈالیں۔
اب ہر پیالے کا دودھ کالے رنگ کے کپڑے سے علیحدہ سے چھانیں۔
جس پیالے کا دودھ پھٹا ہوا ہو، سمجھ لیں میسٹائٹس سے متاثر ہے۔
طریقہ (2)۔
سامان
لکوئڈ ڈش واش (اگر فیئری لکوئڈ دستیاب ہے تو زیادہ بہتر ہے) : 40 ملی لیٹر
پانی : 160 ملی لیٹر
فوڈ کلر (کوئی سا تیز کلر) : ایک ملی لیٹر
ان تمام چیزوں کو مکس کرکے محلول بنالیں اور کسی بوتل میں محفوظ کرلیں۔
ٹیسٹ: ایک چمچ دودھ ہر تھن سے جدا جدا کپ میں لیں اور اس میں ایک ایک چمچ محلول ڈالیں اور ٹیسٹ کے رزلٹ کو نیچے دئے ہوئے پیمانے سے چیک کریں۔
کیٹیگری اسکور تفصیل
نیگیٹو 0 دودھ عام دودھ کی طرح دِکھے گا (دودھ صحیح ہے
معمولی پازیٹو (تھوڑا خراب) 1 دودھ تھوڑا گاڑھا ہو جائے گا مگر اس کی زیادہ مقدار عام دودھ کی طرح دکھے گی۔
پازیٹو (خراب) 2 تقریباً تمام دودھ جیلی کی طرح گاڑھا ہوجائے گا مگر اس میں تھوڑی سی مقدار عام دودھ کی طرح دکھے گی۔
(دودھ میں جسمانی خلیوں کی تعداد فی ملی لیٹر 200,000 سے زیادہ)
خوب پازیٹو (بہت خراب) 3 تمام دودھ جیلی کی طرح مکمل گاڑھا ہوجائے گا (جسمانی خلیوں کی تعداد فی ملی لیٹر 400,000 سے زیادہ۔
نوٹ: میسٹائٹس ٹیسٹ کم از کم ہر پندرہ دن میں ہر جانور پر کرنا چاہئے۔ جس جانور میں ٹیسٹ پازیٹو آئے اسکے مزید علاج کیلئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔
مویشیوں کے تھنوں کی سوزش کی بیماری ہے جو دودھ کی کوالٹی اور پیداوار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کا سبب ایک بیکٹیریا ہے جو دودھ کے نپل کے ذریعے جانور پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور کسی چوٹ، باڑے کی گندگی یا انسانی ہاتھوں کے ذریعے جانور تک پہنچتا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے دودھ خراب ہوتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس سے مویشیوں کی دودھ دینے کی صلاحیت مستقل طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔ بیماری شدید ہو تو مویشیوں کی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
یہ بیماری ایک جانور سے دوسرے میں پھیلتی ہے اور پورا ریوڑ اس کی وجہ سے ناکارہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ دودھ کی کولٹی پر مستقلاً نظر رکھنے، جانوروں کی بہتر خوراک اور بہتر رہائش سے اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔ اگر کسی جانور کو یہ بیماری لگ جائے تو اسے فوراً دیگر جانوروں سے علیحدہ کردینا چاہئے۔ اس بیماری کی خاص نشانیاں درج ذیل ہیں۔
جانور معمول سے دودھ کم کردیتا ہے۔
کھانا پینا کم کردیتا ہے اور کمزور ہوجاتا ہے۔
جانور بیتاب رہتا ہے اور اسے بخار بھی ہوسکتا ہے۔
دودھ کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے اور اور اس کا ذائقہ قدرے نمکین ہوجاتا ہے۔
اگر بیماری شدید ہے تو دودھ میں گند اور خون بھی آسکتا ہے۔
میسٹائٹس کی خاص نشانیاں:
تھنوں میں سوزش۔
تھن کا رنگ لال ہوجانا۔
تھنوں کا سخت ہوجانا۔
دودھ دوہتے ہوئے دودھ میں ہلکے پیلے رنگ کے ریشے ظاہر ہونا۔
دودھ دوہنے اور بچھڑے کے دودھ پینے سے جانور کو درد ہو۔
شدید بیماری میں تھنوں پر زخم بن جانا اور تھن بند ہوجانا۔
نوٹ: اگر بیماری شدید ہو تو یہ نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں لیکن بیماری کی ابتدا میں یہ نشانیاں ظاہر نہیں ہوتیں۔
احتیاطی تدابیر
گندگی اس بیماری کے بڑے اسباب میں سے ہے اسلئے باڑے کو صاف ستھرا اور ہوادار رکھنا چاہئے۔
دودھ دوہنے سے پہلے ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھونا چاہئے۔
دودھ دوہنے سے پہلے جانور کے تھن صاف پانی سے دھوئیں اور دھلے ہوئے صاف کپڑے سے خشک کرنے چاہئیں۔
اگر کوئی جانور اس بیماری سے متاثر ہے تو اسے سب سے آخر میں دوہنا چاہئے اور اس کا دودھ ضایع کردینا چاہئے۔ اس جانور کے علاج، خوراک اور آرام پر مکمل توجہ دینی چاہئے۔
میسٹائٹس ٹیسٹ یا سرف ٹیسٹ
اس بیماری کی پہچان کیلئے عام طور پر ایک سادہ سا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جسے سی ایم ٹی ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ دیگر ممالک اور پاکستان میں بھی بڑے فارموں پر اس ٹیسٹ میں ریئیجنٹ استعمال ہوتے ہیں اور مہنگے کلینیکل ٹیسٹ کئے جاتے ہیں ۔ تاہم میسٹائٹس کی پہچان کیلئے سادہ سا نسخہ استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسطرح دیہی علاقوں کے لوگ اس بیماری سے اپنے جانوروں کو بچاسکتے ہیں۔
طریقہ (1)۔
سامان
پانی: ایک گلاس
سرف واشنگ پائوڈر: کھانے کے دو چمچے
چائے کے خالی پیالے: چار عدد
کالے کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا
سرف کو پانی میں ملاکر حل کرلیں۔
ہر پیالے میں تھوڑی مقدار میں ایک تھن کا دودھ دوہیں اسطرح چار پیالوں میں چار تھنوں کا دودھ ہو۔
پیالیوں میں دودھ دوہنے سے پہلے تھوڑا دودھ باہر گرانا چاہئے۔
دودھ کی مقدار سب پیالیوں میں برابر ہو۔
ہر پیالے میں دودھ کی مقدار کے برابر سرف کا محلول ڈالیں۔
اب ہر پیالے کا دودھ کالے رنگ کے کپڑے سے علیحدہ سے چھانیں۔
جس پیالے کا دودھ پھٹا ہوا ہو، سمجھ لیں میسٹائٹس سے متاثر ہے۔
طریقہ (2)۔
سامان
لکوئڈ ڈش واش (اگر فیئری لکوئڈ دستیاب ہے تو زیادہ بہتر ہے) : 40 ملی لیٹر
پانی : 160 ملی لیٹر
فوڈ کلر (کوئی سا تیز کلر) : ایک ملی لیٹر
ان تمام چیزوں کو مکس کرکے محلول بنالیں اور کسی بوتل میں محفوظ کرلیں۔
ٹیسٹ: ایک چمچ دودھ ہر تھن سے جدا جدا کپ میں لیں اور اس میں ایک ایک چمچ محلول ڈالیں اور ٹیسٹ کے رزلٹ کو نیچے دئے ہوئے پیمانے سے چیک کریں۔
کیٹیگری اسکور تفصیل
نیگیٹو 0 دودھ عام دودھ کی طرح دِکھے گا (دودھ صحیح ہے
معمولی پازیٹو (تھوڑا خراب) 1 دودھ تھوڑا گاڑھا ہو جائے گا مگر اس کی زیادہ مقدار عام دودھ کی طرح دکھے گی۔
پازیٹو (خراب) 2 تقریباً تمام دودھ جیلی کی طرح گاڑھا ہوجائے گا مگر اس میں تھوڑی سی مقدار عام دودھ کی طرح دکھے گی۔
(دودھ میں جسمانی خلیوں کی تعداد فی ملی لیٹر 200,000 سے زیادہ)
خوب پازیٹو (بہت خراب) 3 تمام دودھ جیلی کی طرح مکمل گاڑھا ہوجائے گا (جسمانی خلیوں کی تعداد فی ملی لیٹر 400,000 سے زیادہ۔
نوٹ: میسٹائٹس ٹیسٹ کم از کم ہر پندرہ دن میں ہر جانور پر کرنا چاہئے۔ جس جانور میں ٹیسٹ پازیٹو آئے اسکے مزید علاج کیلئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔
عمومی بیماری....... منہ کھر۔۔۔!
وجوحات وعلامات ، پھیلاؤ ، احتیاطی تدابیر اور علاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ گائے، بھینس، بھیڑ اور بکریوں کی بہت اہم بیماری ہے۔اس سے ہر سال بہت سے مویشیوں کا نقصان ہوتا ہے۔ چھوٹے بچھڑوں اور بچھڑیوں میں یہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔اس بیماری سے،بڑی عمر کے جانوروں میں دودھ کی پیداوار میں انتہائی کمی واقع ہوجاتی ہے۔علاج کی وجہ سے فارم کے اخراجات کافی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔گابن جانور اکثر اوقات بچہ ضائع کر دیتے ہیں اور اس وجہ سے جانور، عرصہ دراز تک بیمار رھتے ھیں۔
وجوحات وعلامات۔۔۔۔!
یہ بیماری ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جسے ایپھتو وائرس Aphthovirus کہتے ہیں۔بیماری پیدا کرنے والے وائرس کے ساتھ مختلف سیروٹاپس ہیں۔
پاکستان میں ان کی تین سیروٹاپس بہت عام پائے جاتے ہیں جن کا نام ، اے ، او & سی ( AO&C ) جانوروں کو تیز بخار ہو جاتا ہے۔جانور کے منہ کے اندر حیوانہ پر اور کھروں پر چھالے نمودار ہوجاتے ہیں۔کھروں میں موجود چھالے پھٹ جانے کی وجہ سے جانور لنگڑاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔جانور کے منہ میں موجود چھالے کھانے میں دقت پیدا کرتے ہیں۔جانور اپنا وزن کم کر جاتے ہیں۔نر جانوروں میں حصیے سوج جاتے ہیں۔
یہ بیماری کئی طریقوں سے پھیلتی ہے۔بیمار جانوروں کو براہ راست چھونے سے یہ وائرس ہوا کے ذریعے کئی کلومیٹر تک پھیل جاتا ہے۔بیمار جانور جس کھرلی میں پانی پیتے ہیں اُس میں جانور کے تھوک کے ذریعے وائرس شامل ہو جاتا ہے۔تندرست جانور اس کھرلی میں پانی پینے سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے کپڑوں کے ذریعے بھی وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلتا ہے۔فارام پر آنے جانے والی گاڑیاں بھی وائرس کو پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔یہ بیماری جانوروں سے انسان میں آسکتی ہے لیکن انسان کے معدہ میں موجود تیزابیت وائرس کا خاتمہ کر دیتی ہے انسانوں میں کم پایا جاتا ہے۔
احتیاطی تدابیر۔۔ِ۔۔۔!
جانوروں کو مناسب وقت پر ویکسین لگوائیں۔سال میں حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس دو سےتین با ر کاروائیں۔ویکسین عمومی طور پر ستمبر اور فروری میں کروائی جاتی ہے۔فارم پر آنے والے نئے جانوروں کو علیحدہ رکھیں اور آتے ہی ویکسین کروائیں۔فارم پر غیر ضروری آمد رفت کو کنٹرول کریں۔شیڈ کوماہ میں دو سے تین بار اینٹی سپٹک محلول سے سپرے کروائیں۔ فارم پر استعمال ہونے والی مشینری اور اوزاروں کو صاف ستھرا رکھیں۔بیمار جانوروں کو صحت مند جانوروں سے علیحدہ رکھیں۔
علاج۔۔۔۔۔۔۔!
بیمار جانوروں کو فوری اینٹی بائیوٹیکس لگوائیں. مندرجہ ذیل اینٹی بائیوٹیکس کافی مفید ثابت ہوتی ہیں.
1: آموکسی سیلین۔
2: اکسی ٹیٹرا سائیکلین۔
مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے لیوا میزول استعمال کریں۔جانوروں کو وٹامین اے ، ڈی اور ای (A,D,E) کا استعمال کروائیں.
تیز بخار کی صورت میں مندرجہ ذیل ادویات کا استعمال کریں۔
1: فلونیکسن میگلومین۔
2: ڈکلوفینک سوڈیم۔
3: کیٹو پروفین۔
جانوروں میں پانی کی کمی پورا کرنے کے لئے ڈیکسٹروز کی بوتلین لگوائیں۔جانوروں کی ٹانگوں پر کاپر سلفیٹ یا فارملین ملے پانی میں بھگوئیے زخموں کو باقاعدگی سے جراثیم کش ادویات سے سپرے کریں۔ بیمار جانوروں کو آدھا کلوگھی گرم کرکے دیں اور اس کے ساتھ ہی آدھا درجن انڈے جانور کے مُنہ میں توڑ دیں اس سے جانور کو توانائی ملتی ہے انڈے میں وٹامن کافی مقدار میں ہوتا ہے اور انڈے کے خول سے مُنہ میں چھالے پس جاتے ہیں جس سے جانور کھانا پینا شروع کر دیتا ہے۔
مزید عمومی بیماریوں کی پوسٹ کے لیے گروپ میں سے ٹیچ رہیں۔ براہ مہربانی پوسٹ کو شیئر کریں تاکہ اور فارمر حضرات کی بھی مدد ہو سکے۔صدقہ جاریہ۔
نوٹ: تمام ادویات کی مقدار عموماً ادوایات پر درج ہوتی ہے یا ویٹرنری سٹور یا ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق استعمال کریں۔کمنٹس میں مقدار بتانا مناسب نہیں ہوتا اس کی وجہ کے جانور کی عمر اور حالت دیکھی جاتی ہے لٰہذا براۓ مہربانی مقدار سے متعلق سوالات پرعمل نہ کریں۔کہیں آپ کے جانوروں کو نقصان نہ ہو جاہے۔
:
گل گھوٹو گائے بھینسوں کی انتہائی خطرناک جراثیمی بیماری ہے جس کی وجہ ایک خوردبینی جرثومہ ہیے۔ برسات کے موسم میںیہ بیماری ایک وبائی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس بیماری کی اہم ترین علامات میں تیز بخار، سستی، کھانا پینا چھوڑ دینا، گلے کی سوج اور جانور کا منہ کھول کر سانس لینا شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق چھوٹے جانوروں میں حفاظتی ٹیکے ۳ ماہ کی عمر ہونے پر فوراً لگوائے جائیں اور پہلا ٹیکہ لگوانے کے ایک ماہ بعد دوسرا ٹیکہ بھی لگوایا جائے اس کے بعد حسب معمول سال میں دو مرتبہ ٹیکے لگوائے جائیں تاکہ جانور میں اس بیماری کے خلاف خاطر خواہ قوت مدافعت پیدا ہوسکے۔ یہ ٹیکے مئی، جون کے بعد نومبر اور دسمبر میں بھی لگائے جاتے ہیں۔
منہ کھر کی بیماری زیادہ تر گاءئے بھینسوں میں ہوتی ہے، لیکن بھیڑ بکریوں میں بھی اسے دیکھا گیا ہے۔ یہ بیماری پاکستان میں سارا سال کسی نہ کسی جگہ موجود رہتی ہے، البتہ مئی، جون، اکتوبر اور نومبر میں اس بیماری کی شرح واضح طور پر بڑھ جاتی ہے۔ منہ کھر کی علامات میں بچار ہوجانا، کھانا پینا چھوڑ دینا اور منہ یا کھروں کے درمیان اور جسم کے دیگر حصوں پر چھالے پڑ جانا شامل ہیں۔ اس بیماری سے بچاؤ کیلئے سال میں دو مرتبہ یعنی فروری اور اگست میں ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
چوڑے ماریہ بیماری بھی گائے بھینسوں کی متعدی بیماری ہے۔ اس میں خاص طرح کے جراثیم جانور کی ران اور شانہ کے گوشت پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں گوشت گل سڑ جاتا ہے اور اس میں سے خاص قسم کی بدبو بھی آتی ہے۔ اس بیماری میں جانور کا گلا دبانے سے چڑ چڑ کی آواز آتی ہے۔ چوڑے ماریہ نامی یہ بیماری برسات کے علاوہ موسم گرما میں بھی حملہ کرتی ہے، جبکہ اس کیلئے حفاظتی ٹیکے ہر سال اپریل کے مہینے میں لگائے جاتے ہیں۔ اس بیماری میں فوری طور پر اینٹی یایوٹک ادویات کے استعمال سے جانور کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
کانگو وائرس کا پورا نام کریمین کانگو ہیموریجک فیور ہے۔ یہ بیماری پہلی مرتبہ ۱۹۴۴ء میں کریمیا میں منظر عام پر آئی، جس کے بعد ۱۹۵۲ء میں اس بیماری کی رپورٹ کانگو میں کی گئی۔ ان دونوں مقامات کی نسبت سے اس بیماری کو یہ نام دیا گیا ہے۔ پاکستان میں یہ بیماری حادثاتی طور پر کبھی کبھار رپورٹ ہوتی ہے، جبکہ اس کی بڑی وجہ ہمارا وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ جانوروں کا اشتراک ہے۔ بصورت دیگر یہ بیماری پاکستان میں کبھی زیادہ پریشانی کا باعث نہیں بنی۔
سال ۲۰۰۱ء میں ایف اے او نے بلوچستان میں پہلی مرتبہ اس بیماری کی تصدیق کی۔ یہ بیماری چیچڑوں کے ذریعے پھیلتی ہے جبکہ اس کا سبب ایک خاص قسم کا چیچڑ ہے جسے ہیالومہ کہا جاتا ہے۔ مویشیوں میں اس بیماری کی واضح علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور نہ ہی جانور اپنی عادات میں اس بیماری کو ظاہر کرتے ہیں، تاہم انسانوں میں یہ وائرس شدید قسم کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کانگو وائرس ۳۰ فیصد مریضوں کی موت کا باعث بن سکتا ہے۔ انسانوں میں یہ بیماری اگر چیچڑ کے کاٹنے سے منتقل ہو تو اس سے تین روز بعد علامات ظاہر ہوسکتی ہے، لیکن اگر یہ بیماری جانوروں کے گوشت یا خون سے منتقل ہو تو اس کی علامات ۵ سے ۷ دنوں بعد ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
انسانی جسم میں کانگو وائرس کی موجودگی کی علامات میں بخار، پٹھوں میں درد، گردن اور کمر میں شدید درد، آنکھوں میں جلن شامل ہے۔ اس بیماری کی علامات شدید ہونے کے ساتھ مریض کی ذہنی حالت میں بھی تبدیلی آسکتی ہے، جبکہ ۵ سے ۶ روز میں جگر اور گردے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں جس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔
کانگو وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر کے طور پر مویشی پال حضرات اپنے جانوروں اور ان کی رہائشوں کو چیچڑوں سے پاک رکھیں، جبکہ خانہ بدوشوں کیلئے ایک پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ان کی آمدورفت کے بارے میں بیماری کے حوالے سے نگرانی کی جاسکے
گل گھوٹو گائے بھینسوں کی انتہائی خطرناک جراثیمی بیماری ہے جس کی وجہ ایک خوردبینی جرثومہ ہیے۔ برسات کے موسم میںیہ بیماری ایک وبائی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس بیماری کی اہم ترین علامات میں تیز بخار، سستی، کھانا پینا چھوڑ دینا، گلے کی سوج اور جانور کا منہ کھول کر سانس لینا شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق چھوٹے جانوروں میں حفاظتی ٹیکے ۳ ماہ کی عمر ہونے پر فوراً لگوائے جائیں اور پہلا ٹیکہ لگوانے کے ایک ماہ بعد دوسرا ٹیکہ بھی لگوایا جائے اس کے بعد حسب معمول سال میں دو مرتبہ ٹیکے لگوائے جائیں تاکہ جانور میں اس بیماری کے خلاف خاطر خواہ قوت مدافعت پیدا ہوسکے۔ یہ ٹیکے مئی، جون کے بعد نومبر اور دسمبر میں بھی لگائے جاتے ہیں۔
منہ کھر کی بیماری زیادہ تر گاءئے بھینسوں میں ہوتی ہے، لیکن بھیڑ بکریوں میں بھی اسے دیکھا گیا ہے۔ یہ بیماری پاکستان میں سارا سال کسی نہ کسی جگہ موجود رہتی ہے، البتہ مئی، جون، اکتوبر اور نومبر میں اس بیماری کی شرح واضح طور پر بڑھ جاتی ہے۔ منہ کھر کی علامات میں بچار ہوجانا، کھانا پینا چھوڑ دینا اور منہ یا کھروں کے درمیان اور جسم کے دیگر حصوں پر چھالے پڑ جانا شامل ہیں۔ اس بیماری سے بچاؤ کیلئے سال میں دو مرتبہ یعنی فروری اور اگست میں ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
چوڑے ماریہ بیماری بھی گائے بھینسوں کی متعدی بیماری ہے۔ اس میں خاص طرح کے جراثیم جانور کی ران اور شانہ کے گوشت پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں گوشت گل سڑ جاتا ہے اور اس میں سے خاص قسم کی بدبو بھی آتی ہے۔ اس بیماری میں جانور کا گلا دبانے سے چڑ چڑ کی آواز آتی ہے۔ چوڑے ماریہ نامی یہ بیماری برسات کے علاوہ موسم گرما میں بھی حملہ کرتی ہے، جبکہ اس کیلئے حفاظتی ٹیکے ہر سال اپریل کے مہینے میں لگائے جاتے ہیں۔ اس بیماری میں فوری طور پر اینٹی یایوٹک ادویات کے استعمال سے جانور کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
کانگو وائرس کا پورا نام کریمین کانگو ہیموریجک فیور ہے۔ یہ بیماری پہلی مرتبہ ۱۹۴۴ء میں کریمیا میں منظر عام پر آئی، جس کے بعد ۱۹۵۲ء میں اس بیماری کی رپورٹ کانگو میں کی گئی۔ ان دونوں مقامات کی نسبت سے اس بیماری کو یہ نام دیا گیا ہے۔ پاکستان میں یہ بیماری حادثاتی طور پر کبھی کبھار رپورٹ ہوتی ہے، جبکہ اس کی بڑی وجہ ہمارا وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ جانوروں کا اشتراک ہے۔ بصورت دیگر یہ بیماری پاکستان میں کبھی زیادہ پریشانی کا باعث نہیں بنی۔
سال ۲۰۰۱ء میں ایف اے او نے بلوچستان میں پہلی مرتبہ اس بیماری کی تصدیق کی۔ یہ بیماری چیچڑوں کے ذریعے پھیلتی ہے جبکہ اس کا سبب ایک خاص قسم کا چیچڑ ہے جسے ہیالومہ کہا جاتا ہے۔ مویشیوں میں اس بیماری کی واضح علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور نہ ہی جانور اپنی عادات میں اس بیماری کو ظاہر کرتے ہیں، تاہم انسانوں میں یہ وائرس شدید قسم کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کانگو وائرس ۳۰ فیصد مریضوں کی موت کا باعث بن سکتا ہے۔ انسانوں میں یہ بیماری اگر چیچڑ کے کاٹنے سے منتقل ہو تو اس سے تین روز بعد علامات ظاہر ہوسکتی ہے، لیکن اگر یہ بیماری جانوروں کے گوشت یا خون سے منتقل ہو تو اس کی علامات ۵ سے ۷ دنوں بعد ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
انسانی جسم میں کانگو وائرس کی موجودگی کی علامات میں بخار، پٹھوں میں درد، گردن اور کمر میں شدید درد، آنکھوں میں جلن شامل ہے۔ اس بیماری کی علامات شدید ہونے کے ساتھ مریض کی ذہنی حالت میں بھی تبدیلی آسکتی ہے، جبکہ ۵ سے ۶ روز میں جگر اور گردے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں جس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔
کانگو وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر کے طور پر مویشی پال حضرات اپنے جانوروں اور ان کی رہائشوں کو چیچڑوں سے پاک رکھیں، جبکہ خانہ بدوشوں کیلئے ایک پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ان کی آمدورفت کے بارے میں بیماری کے حوالے سے نگرانی کی جاسکے