نجد, بنوتمیم کا بیان اور حدیث شرک کا مصداق کون
نجد
پارٹ ون میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جس نجد سے فتنوں کا نکلنا مراد ہے وہ
نجد عراق اور حجاز کے درمیان واقع ہے۔ اور نجد کے جن قبیلوں سے فتنوں کے
نکلنے کی نشاندہی فرمائي گئی وہ قبیلے مضر و ربیعہ ہیں۔
مضر کی مشہور شاخ بنوتمیم ہے جس سے پہلا گستاخ رسول نکلا تھا،
جبکہ ربیعہ کی مشہور شاخ بنوحنیفہ ہے
جس سے پہلا جھوٹا داعی نبوت میسلمہ کذاب نکلا تھا۔۔
اس
پارٹ میں ہم نبوتمیم اور خوارج کے متعلق آیات قرآنی اور فرامین مصطفی صلّی
اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا مطالعہ کریں گے اور حدیث شرک کا مصداق کون ہے اس
پر بھی بحث کریں گے.مضر کی مشہور شاخ بنوتمیم ہے جس سے پہلا گستاخ رسول نکلا تھا،
جبکہ ربیعہ کی مشہور شاخ بنوحنیفہ ہے
جس سے پہلا جھوٹا داعی نبوت میسلمہ کذاب نکلا تھا۔۔
کچھ لوگ ایک حدیث جو صحاح ستہ کی مختلف کتابوں میں بیان ہوئی ہے اسکے بہت حوالے دیتے ہیں کہ یہ دیکھو بنی تمیم کی فضیلت بیان ہوئی ہے لیکن وہ آیات قرآنی اور احادیث بیان نہیں کرتے جن میں بنو تمیم اور انکے لوگوں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
وہ لوگ نہ تو بنی تمیم کی بشارت ٹھکرانے والی حدیث بیان کرتے ہیں اور نہ ہی وہ حدیث بیان کرتے ہیں جن میں بنو تمیم کو محروم کردیاگیا۔ اس حوالے سے ہم چند احادیث بیان کریں گے تاکہ احادیث سے آپ کو سمجھ آ جائے۔
بنو تمیم کی فضیلت والی حدیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سے میں نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے بنی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنیں ہیں، میں ان سے ہمیشہ محبت رکھتا ہوں، ان میں یہ تین باتیں پائي جاتی ہیں:1: میری امت میں سے وہ دجال پر سب سے زیادہ سخت ہونگے۔
2: اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس انکی ایک قیدی عورت تھی، آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ 'اسے آزاد کردو یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔
3: اور انکے صدقات آئے تو آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ یہ میری قوم کے صدقات ہیں۔
بخاری: کتاب العتق: باب من ملک من العرب
درج بالا حدیث میں تین نقطے بیان ہوئے ہیں
1: وہ دجال پر سب سے زیادہ سخت ہونگے۔ اس سے پتہ چلاکہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ جس طرح دجال سخت ہوگا, مقابلے میں بنی تمیم والے بھی سخت ہیں۔ بنی تمیم کے وہ لوگ یقینا خوش بخت لوگ ہوں گے جو دجال سے مقابلہ کریں گے۔ اللہ ہمیں بھی بنوتمیم کے اس گروہ میں شامل کرے جو دجال سے مقابلہ کریگا لیکن ایک حدیث کا مفہوم ہےکہ "بنوتمیم کے ایک گستاخ رسول شخص عبداللہ ذی الخویصرہ کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہونگے ""جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آتا ہےکہ " اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔
ایک اور حدیث میں فرمایاکہ"آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا"یعنی بنوتمیم کے ذي الخویصرہ کی نسل سے لوگ دجال کے وقت مسلح خروج کریں گے۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنوتمیم کے کچھ لوگ دجال کے خلاف لڑ رہے ہونگے اور کچھ لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہونگے۔
2: دوسرا نقطہ یہ بیان ہوا ہے کہ اسے آزاد کردو یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے قبیلہ اسلم کو بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد قرار دیا ہے۔
قبیلہ اسلم اولاد اسماعیل علیہ السّلام سے ہے
حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں کی طرف تشریف لےگئے اور وہ بازار میں تیراندازی کر رہے تھے تو حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا" اے اولاد اسماعیل! تیراندازی کرو اس لئے کہ تمہارے باپ (اسماعیل) تیرانداز تھے اور میں فلاں شخص کے ساتھ ہوں، کسی ایک فریق کے بارے میں (آپ نے ایسا فرمایا) پاس دوسرے فریق کے لوگوں نے اپنے ہاتھ روک لئے، حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ ان کو کیا ہوگیا!
لوگوں نے عرض کیا ہم کیسے تیراندازی کریں آپ تو فلاں کے ساتھ ہیں، فرمایا: تیراندازی کرو میں سب کے ساتھ ہوں۔
(صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 723)
اس سے پتہ چلاکہ آل اسماعیل والا امتیاز صرف بنی تمیم کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ بنو اسلم بھی آل اسماعیل سے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کئی اور قبائل ہیں۔
3: یہ میری قوم کے صدقات ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ آل اسماعیل حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہی قوم ہے ۔ جیساکہ درج ذیل حدیث میں بھی آیاہےکہ:
غالب رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے فیس (قبیلہ) کا ذکر کیا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اللہ قیس والوں پر رحم کرے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ قیس والوں کےلئے اللہ سے رحمت کی دعا کررہے ہیں؟ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ ہاں" انہوں نے ہمارے باپ اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ کا مذہب اختیار کیا۔
قیس! سلامتی ہو ہمارے یمن پر، یمن! سلام ہو ہمارے قیس پر۔ قیس والے زمین پر اللہ کی آرمی ہیں۔
)Tabrani, Declared Sahih By Al-Haythami, x, 49()
نتیجہ: پتہ چلاکہ بنوتمیم کو دوسرے قبیلوں پر فضیلت حاصل نہیں تھی بلکہ دوسرے قبیلوں کو بنوتمیم پر فضیلت حاصل یے جس کا ذکر ہم اپنے مقام پر کرینگے.
بنوتمیم کے لوگوں کو سورۃ الحجرات میں بےعقل کہاگیا ہے :
آیات قرآنی
"اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾
"وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
بیشک
جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے
اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے
آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے
والا ہے۔)
یہ آیت بنی
تمیم کے دیہاتی لوگوں کے حق میں نازل ہوئی، قبیلہ بنی تمیم کے چند لوگ
دوپہر کے وقت مسجد نبوی میں آئے، حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس وقت
آرام فرما رہے تھے تو یہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے تھے کہ اے محمد باہر
آئيے۔
ابن کثیر، آیت نمبر 4 اور 5 کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
ان
لوگوں کی مذمت بیان فرمائي جا رہی ہے جو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، یہ
امہات المؤمنین کے گھر تھے۔ اجڈ بدوؤں کا یہی طریقہ تھا۔ یہ اقرع بن حابس
تمیمی کے بارے میں نازل ہوئي۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد 4، صفحہ 363، سورت الحجرات)
قرآن میں بنوتمیم کے لوگوں کو بےعقل کہاگیا۔ آگے حدیث میں آتا ہے کہ
بنوتمیم نے بشارت ٹھکرا دی
جیساکہ بیان ہواکہ " بنوتمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا اے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت قبول نہیں کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔"
صحیح بخاری, کتاب المغازی
باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان
حدیث نمبر :4365
تبصرہ: وہ کتنے بدقسمت لوگ ہونگے جنہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشارت دیں اور وہ ٹھکرا دیں.
کن قبیلوں کے حصے میں مغفرت اور سلامتی کی بشارتیں آئیں.
بنوتمیم اور دیگر قبائل کی نسبت. قبیلہ غفار کو مغفرت کی مغفرت کی بشارت دی گئی جبکہ قبیلہ اسلم کی اللہ نے حفاظت فرمائی جو بہت بڑی خوشخبریاں ہیں جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ:
بَاب دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِغِفَارَ وَأَسْلَمَ
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۱۱/ حدیث مرفوع
۶۴۱۱۔ حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِفَارُ غَفَرَ اللہُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللہُ۔
۶۴۱۱۔ ہداب بن خالد، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قبیلہ غفار کی اللہ نے مغفرت فرما دی اور قبیلہ اسلم کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۱۵/ حدیث مرفوع
۶۴۱۵۔ و حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسٰی عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاکٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللہُ وَغِفَارُ غَفَرَ اللہُ لَهَا أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْهَا وَلٰکِنْ قَالَهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ۔
۶۴۱۵۔ حسین بن حریث، فضل بن موسی، خثیم بن عراک بواسطہ اپنے والد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی، یہ بات میں نےنہیں کہی بلکہ اللہ عزوجل نے اس طرح فرمایا ہے۔
اللہ اور اسکا رسول کن کن قبیلوں کے مددگار ہیں
بَاب مِنْ فَضَائِلِ غِفَارَ وَأَسْلَمَ وَجُهَيْنَةَ وَأَشْجَعَ وَمُزَيْنَةَ وَتَمِيمٍ وَدَوْسٍ وَطَيِّءٍ
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۰/ حدیث مرفوع
۶۴۲۰۔ حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِکٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارُ وَمُزَيْنَةُ وَجُهَيْنَةُ وَغِفَارُ وَأَشْجَعُ وَمَنْ کَانَ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللہِ مَوَالِيَّ دُونَ النَّاسِ وَاللہُ وَرَسُولُهٗ مَوْلَاهُمْ۔
۶۴۲۰۔ زہیر بن حرب، یزید ابن ہارون، ابومالک اشجعی، موسی بن طلحہ، حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبائل انصار مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار، اشجع اور جو عبد اللہ کی اولاد میں سے ہیں یہ دوسرے لوگوں کے علاوہ میرے مددگار اور اللہ اور اس کے رسولؐ ان سب کے مددگار ہیں۔
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۱/ حدیث مرفوع
۶۴۲۱۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ وَمُزَيْنَةُ وَجُهَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَأَشْجَعُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًی دُونَ اللہِ وَرَسُولِهٖ۔
۶۴۲۱۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر بواسطہ اپنے والد، سفیان، سعد بن ابراہیم، عبد الرحمٰن بن ہرمز الاعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قریش اور انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار، اشجع مددگار ہیں اور ان کا حمایتی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سواء کوئی نہیں۔
بنوتمیم سے کون کون سے قبیلے بہتر ہیں:
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۳/ حدیث مرفوع
۶۴۲۳۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ ابْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ قَالَ أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَمُزَيْنَةُ وَمَنْ کَانَ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةُ خَيْرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ وَبَنِي عَامِرٍ وَالْحَلِيفَيْنِ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ۔
۶۴۲۳۔ محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد ابن ارہیم، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار، مزینہ، جہینہ یہ بہتر ہیں بنی تمیم، بنی عامر اور دونوں حلیفوں اسد اور غطفان سے.
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۴/ حدیث مرفوع
۶۴۲۴۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ عَبْدٌ أَخْبَرَنِي و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنِ الْأَعْرَجِ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَغِفَارُ وَأَسْلَمُ وَمُزَيْنَةُ وَمَنْ کَانَ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ قَالَ جُهَيْنَةُ وَمَنْ کَانَ مِنْ مُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَطَيِّئٍ وَغَطَفَانَ۔
۶۴۲۴۔ قتیبہ بن سعید، مغیرہ حزامی، ابوزناد، اعرج ،حضرت ابوہریرہؓ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ عمرو الناقد، حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد بواسطہ اپنے والد، صالح، اعرج ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے! قبیلہ غفار، اسلم، جہینہ اللہ کے ہاں قیامت کے دن قبیلہ اسد غطفان ہوازن اور تمیم سے بہتر ہوں گے۔
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۵/ حدیث مرفوع
۶۴۲۵۔ حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمٰعِيلُ يَعْنِيَانِ ابْنَ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَشَيْئٌ مِنْ مُزَيْنَةَ وَجُهَيْنَةَ أَوْ شَيْئٌ مِنْ جُهَيْنَةَ وَمُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللہِ قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ وَهَوَازِنَ وَتَمِيمٍ۔
۶۴۲۵۔ زہیر بن حرب، یعقوب دورقی، اسماعیل ابن علیہ، ایوب، محمد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ اسلم، غفار اور مزینہ میں سے کچھ اور جہینہ یا جہینہ میں سے کچھ اور قبیلہ مزینہ اللہ کے ہاں بہترین ہیں، راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپؐ نے فرمایا قیامت کے دن قبیلہ اسد غطفان ہوازن اور تمیم سے بہتر ہوں گے۔
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۳۰/ حدیث مرفوع
۶۴۳۰۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو کُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَکْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ کَانَ جُهَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ وَبَنِي عَبْدِ اللہِ بْنِ غَطَفَانَ وَعَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهٗ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا قَالَ فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي کُرَيْبٍ أَرَأَيْتُمْ إِنْ کَانَ جُهَيْنَةُ وَمُزَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ۔
۶۴۳۰۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، وکیع، سفیان، عبدالملک بن عمیر، عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر قبیلہ جہینہ، اسلم اور غفار، بنی تمیم، بنی عبد اللہ بن غطفان اور عامر بن صعصعہ سے بہتر ہوں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آواز کو بلند فرمایا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! پھر تو وہ لوگ ناکامی اور خسارے میں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلا شبہ وہ ان سے بہتر ہیں۔
بنو تمیم ناکام و نامراد اور خسارے والا قبیلہ
دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
باب : ( قبیلہ ) (( مزینہ )) ، (( جہینہ )) ‘ اور (( غفار )) کی فضیلت۔
1734 : سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس (التمیمی ) رضی اللہ
عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ حاجیوں کو لوٹنے
والے ( قبائل ) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے لوگوں نے بیعت کی۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ( قبیلہ ) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ
قبائل بنی تمیم، بنی عامر، اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو یہ لوگ ( یعنی بنی
تمیم وغیرہ ) خسارے میں رہے اور نامراد ہوئے )؟ وہ بولا ہاں آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ان سے
بہتر ہیں ( یعنی قبیلہ اسلم اور غفار وغیرہ قبیلہ بنی تمیم وغیرہ سے بہتر
ہیں۔(اقرع بن حابس قبیلہ بنوتمیم سے تھے)
حدیث:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایاکہ تم جانتے ہوکہ جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غفطان اور بنی صعصعہ سے بہت اچھے ہیں، تو ایک آدمی نے عرض کیاکہ بنی تمیم وغیرہ نامراد اور ناکام ہوگئے؟ ارشاد فرمایا"ہاں" جہینہ وغیرہ کے قبائل بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ سے بہت اچھے ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 731، حدیث 7310)
حدیث:
حضرت ابوبکرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس (التمیمی) نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیاکہ سراق الحجیج جو اسلم قبیلہ سے ہے اور غفار،مزینہ اور جہینہ نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلّم سے بیعت کی ہے تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا"کیا تم جانتے ہوکہ اسلم مزینہ اور جہینہ یہ سب بنوتمیم، بنو عامر اورغطفان ناکام اور نامراد سے بہتر ہیں؟
اقرع بن حابس نے عرض کیا "جی ہاں"۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اسلم و غفار وغیرہ بنی تمیم وغیرہ سے بہت اچھے ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 732، صفحہ 731)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیرخواہ قبائل کون؟
حدیث:
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، غفار اور اشجح میرے خیرخواہ ہیں اور اللہ اور اسکے رسول کے سوا اور کوئی انکا حمایتی نہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 5، حدیث 3512)
تبصرہ
ان حادیث سے پتہ چلاکہ بنی تمیم کی فضیلت پر جو حدیث ہے وہ صرف بنی تمیم کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دیگر قبیلوں کی فضیلت بنو تمیم سے بڑھ کر ہے کہ جن کی افضلیت کے لئے حضور پاک صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اللہ کی قسم کھاکر فرمایا۔ اور جن کی فضیلت کی قسم نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کھائی ہو اسکے بعد کسی اوردلیل کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔
اب کوئی ایک حدیث کو بنیاد بنالے کہ بنوتمیم کی تعریف فرمائی گئی ہے اس لئے فتنہ اس سے نہیں نکل سکتا تو انکے لئے عرض ہےکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تھاکہ "انا مضری) میں مضری ہوں، حالانکہ مضر قبیلہ وہ قبیلہ ہے جہاں سے شیطان کے سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئي لیکن ظاہر ہے کہ مضر کی ساری نسل سے تو فتنے نہیں نکلیں گے اور فرما دیاکہ "میں بہترین قوم میں پیدا ہوا یعنی بنوہاشم میں.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب ہر ایک لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘)(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : (99)، 5 / 543 الرقم : 3532، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 584، الرقم : 3607 - 3608،(
سوال یہ ہے کہ:
پھر قبیلہ مضرکے کون سے قبیلے سے شیطان کا سینگ نکلے گا؟ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس قبییلے نے بشارت ٹھکرائی تھی، اور کن کن قبیلوں کو ناکام و نامراد قرار دیاگیا اور کن کن قبیلوں کو محروم کردیاگیا؟۔ بنو تمیم نے بشارت بھی ٹھکرائی، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ چند لوگ تھےجنہوں نے بشارت ٹھکرائی' ان کو پوری قوم تو نہیں کہا جاسکتا ہے، توان سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ فرمان مصطفی ایک بار پھر پڑھ لیں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ بنو تمیم نے بشارت ٹھکرا دی۔ اس میں یہ نہیں فرمایاکہ بنو تمیم کے چند افراد نے بشارت ٹھکرا دی۔ سب سے پہلا گستاخ رسول بھی بنو تمیم کا ہی تھا، جس کی نسل سے فتنہ پرستوں کے نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئي، حجرہ مبارک کے باہر سے آوازیں دینے والے بھی بنو تمیم کے لوگ تھے، جن کی مذمت کےلئے قرآن کی آیات تک نازل ہوئيں۔ امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے ذوالخویصرہ تمیمی والے واقعہ سے کہ فتنہ کہاں سے نکلے گا۔
مزید فتنہ نجد سے منسلک ایک حدیث پیش کرتے ہیں پہلے گستاخ رسول کے حوالے سے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا (نجد کے) چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہاڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘حديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب :
دوسری حدیث میں اسکی نسل سے فتنہ پروروں کے نکلنے کی پیشگوئی فرمائی کہ: اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے ). ایک اور حدیث میں اس گستاخ کا نام اور قبیلہ ان الفاظ میں بیان ہواکہ:"ذی الخویصرہ نامی شخص جو کہ بنی تمیم سے تھا، نے کہا : یا رسول اللہ ! انصاف کیجیے."(معاذاللہ اسکو تقسیم رسول غیرمنصفانہ لگی )
(صحیح بخاری, کتاب الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811)
سو پتہ چلاکہ فتنہ پرور ذی الخویصرہ تمیمی نجدی کی نسل سے نکلیں گے. نجد اور بنوتمیم سے نکلنے والے فتنوں کا بیان ہم الگ باب میں کریں گے لیکن یہاں ہم بنو تمیم سے نکلنے والے دو بڑے فتنوں کا ذکر کر رہے ہیں. پہلا فتنہ ذی الخویصرہ التمیی کا تھا جس کا مختصر بیان اوپر بیان ہو چکا ہے, اب ہم دوسرے فتنے کا بیان کریں گے اور حدیث شرک کا مصداق کون ہے اس پر مختصر سی روشنی ڈالیں گے.
حدیث شرک اور ابن وہاب التمیمی
تاریخ اسلام میں بڑے بڑے فتنے ظاہر ہوئے لیکن کوئی ایسی جماعت نہ ملی جس نے مسلمانوں کی اکثریت کو مشرک قرار دیا ہو اور انکے خلاف شرک کے نام پر جنگ کی ہو سوائے محمد بن عبدالوہاب کے جنہوں نے مسلمانوں کو مشرک سمجھا اور اس بنیاد پر ان سے قتال بھی کیا. ہمیں درج ذیل حدیث کا مصداق ابن وہاب کے سوا کوئی نظر نہیں آیا.
حدیث پاک میں آتا ہے کہ
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا،
راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :
اے اﷲ کے نبی!
ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا؟
یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔‘
الحديث رقم 25 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220.(
خوارج نے کفر کے فتوے لگائے, کبیرہ گناہ کرنے والوں کو کافر تک کہا اور مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا لیکن کسی مسلمان جماعت پر شرک کا الزام لگاکر حملہ نہیں کیا.
پھر تاریخ میں وہ وقت آتا ہے کہ مسلمانوں کو مشرک قرار دیکر انکی جان و مال کو حلال قرار دیا, اور روضہ رسول پر بوسیلہ رسول اللہ سے دعا مانگنے والوں کو مشرک قرار دیاگیا.
جیساکہ سلفیوں کے قاضی محمد بن عبد الوہاب کے حامی احمد بن حجر آل بوطامی سلفی قاضی قطر لکھتے ہیں کہ:
جنہوں نے توحید کو اچھی طرح پہچان لیا اور اسکی پیروی بھی کی اور شرک کو بھی جان لیا اور اسے ترک کردیا لیکن موحدین (وہابیوں ) سے نفرت کرتا ہے اور شرک (عامہ اہل اسلام) میں لت پت (مسلمان) لوگوں سے محبت کرتا ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے۔
(حیات محمد بن عبدالوہاب نجدی ص 98، مترجم مختار احمد ندوی سلفی، مطبوعہ دارالاشاعت امام ابن تیمیہ()
یہاں موحدین سے مراد وہابی ہیں جن کو ناپسند کرنے والا اور اہل سنت والجماعت کو پسند کرنے والا کافر قرار دیاگیا ہے کیونکہ جزیرۃ العرب میں صرف سنی آباد تھے کوئی عیسائی یا یہودی آباد نہیں تھے جن سے وہاں کے مسلمان محبت کرتے صرف نفرت کی وجہ سے فتوی کفر صادر فرما دیاگیا.
مقدمہ کتاب التوحید میں ص 7 میں لکھتے ہیں کہ
بقول انکے نجدین میں شرک ہوتا دیکھ چکے تھے محمد بن عبدالوہاب۔ یعنی اہل نجد والے شرک میں مبتلاء تھے۔
محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے زندگی میں کبھی کسی عیسائی یا یہودی یا کسی بت پرست ملک کے خلاف جہاد نہیں کیا جیساکہ ترجمان وہابیہ نواب صدیق حسین بھوپالی بتاتے ہیں کہ:
جہاد انکا صرف وہاں کے مسلمین بادیہ نشین کے ساتھ تھا. مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا کو تو کفر فرمایاگیا ہے لیکن یہ کیسا جہاد تھا جو صرف مسلمانوں کے خلاف تھا,اور اس پورے جہادی عمل میں ایک بھی عیسائی یا یہودی قتل نہ ہوا اور نہ انکے خلاف جہاد کیاگیا.
محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب کے مسلح توحید کے جتھے ہر طرف سرگرداں ہونے شروع ہوگئے اور تلوار کی مدد سے ۔ جیساکہ ذیل میں لکھا ہےکہ:
جزیرہ عرب میں مسلمان بستے تھے جن کے خلاف تلوار اٹھائي گئی شرک کے نام پر۔ جبکہ عام حالات میں مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا سختی سے منع ہے جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ :"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔([ مسلم، رقم۹۸۔۱۰۰])
عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ سَلَّ عَلَیْنَا السَّیْفَ فَلَیْسَ مِنَّا.
حضرت ایاس بن سلمہ (رضی اللہ عنہ) اپنے والد گرامی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر تلوار سونتی، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اور قرآن پاک میں آتا ہے کہ:
"’’اور جو کسی صاحب ایمان کو بالارادہ قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور
( اللہ نے) اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘((النساء۴:۹۳)
اتنے واضع اسلامی احکامات کے باوجود بھی مسلمانوں کے خلاف ابن وہاب نے ہتھیار اٹھائے جو کسی تاویل کی وجہ سے ہی اٹھائے ہونگے۔ یعنی مسلمانوں کو مشرک سمجھ لینا۔جیساکہ ذیل میں مزید وضاحت ہوجاتی ہے
ابن وہاب اور ابن سعود نے کسی غیرمسلم کے خلاف جہاد تو کیا نہیں تاریخ اسلامی اس بات کی گواہ ہے پھر انہوں نے کس سے قتال کیا اور کس بات کو بنیاد بنا کر کیا؟ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف قتال کیا اس تاویل کے بناء پر کہ جزیرہ عرب کے بیشتر لوگ مشرک ہوگئے ہیں اس لئے ان سے قتال کرنا جائز ہے۔
جزیہ غیرمسلموں سے لیا جاتا ہے لیکن ابن وہاب کے پیروکاروں نےمسلمانوں سے بھی جزیہ لیا جس کی تصدیق فرقہ وہابیہ کے ترجمان نواب صدیق اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
سلفیوں کے ایک اور عالم ابن وہاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
آپ نے طالب علمی کے عہد ہی سے اپنے ملنے جلنے والوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کردی تھی(جیسے عرب کے لوگ مسلمان نہیں بلکہ مشرک تھے)۔
نام نہاد مدعیان علم کی گمراہیوں کا پردہ فاش کرنے لگ گئے تھے۔ آپ جب مدینہ طیبہ میں تھے اور وہاں لوگوں کو نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے استغاثہ کرتے سنتے تو غصہ سے بےقابو ہوجایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ شیخ محمد حیات سندھی سے پوچھا:
شیخ! آپ یہ شرکیہ دعا مانگنے والوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ان کے اعمال باطل اور انکے کرتوت سے ہم بری اور بیزار ہیں۔
(شیخ احمد بن حجر، حیات محمدبن عبدالوہاب ص 29(
ابن وہاب کے مداح شیخ احمدبن حجر کے مطابق محمد بن عبدالوہاب کو مدینہ طیبہ میں شرک ہوتا ہوا نظر آتا تھا اور شرکیہ کلمات کو سن کر وہ غصہ سے بےقابو ہوجایا کرتے تھے.حالانکہ قرآن میں وسیلہ کے حوالے سے یہ حکم آیا ہے کہ:
شیخ ابن کثیر نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
وقوله: (: وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.) يرشد تعالی العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان ان يأتوا إلی الرسول صلی الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده، ويسألوه ان يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلک تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال: (لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.)
وَقَدْ
ذَکَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ:اَلشَّيْخُ اَبُوْ نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ
فِیْ کِتَابِهِ "اَلشَّامِلْ" اَلْحِکَايَةَ الْمَشْهُوْرَةَ عَنِ
الْعُتْبِیِّ، قَالَ کُنْتُ جالساً عند قَبْرِ النبیِّ صَلَّی اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ اَعْرَابِیٌّ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ
عَلَيْکَ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، سَمِعْتُ اللَّهَ تعالی يَقُولُ : وَلَوْ
اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ
وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا
رَحِيمًا.)، وقَدْ جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِیْ مُسْتَشْفِعًا بِکَ
إِلَی رَبِّیْ ثُمَّ اَنْشَأَ يَقُولُ :
يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ اَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ القَاعُ وَالاَکَمُ
نَفْسی الفِدَاءُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُهُ
�� فِيهِ العَفَافُ ، وَفِيهِ الْجُودُ وَالکَرَمُ
�
ثُمَّ
انْصَرَفَ الْاَعْرَابِیُّ فَغَلَبَتْنِیْ عَيْنِیْ، فَرَاَيْتُ
النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَقَالَ : يَا
عُتْبِیُّ ! اِلْحَقِ الْاَعْرَابِیَّ ، فَبَشِّرْهُ اَنَّ اللَّهَ
تَعَالی قَدْ غَفَرَ لَهُ .
اتنے صریح قرآنی احکامات کے باوجود بھی محمد بن عبدالوہاب فرقہ وہابیہ کے بانی کا وسیلہ کو شرک قرار دیکر مسلمانوں کو مشرک قرار دینا کتنا بڑا ظلم ہے۔
محمد بن عبدالوہاب کے ایک اور مداح
مقدمہ کتاب التوحید ص 7 میں اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ :
مدینہ منورہ میں جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں استغاثہ اور من دون اللہ سے فریاد سنتے تو انکے غیظ و غضب کی ہنڈیا پھٹنے کو آ جاتی"۔یہ شیخ ابن وہاب نجدی جنہیں روزہ رسول پر شرک ہوتے نظر آیا انکی نظر سے یہ حدیث نہیں گزری جس میں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دعا فرمادی تھی کہ "اے اللہ میری قبر کو بت نہ بننے دیناکہ اس کی عبادت کی جائے۔ اور یہ دعا قبول بھی ہوچکی ہے کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مستجاب الدعوات ہیں اور یہ دعا قبول ہوچکی ہے, اسی لیے شیطان جزيرہ عرب میں اپنی پرستش کیے جانے پر مایوس ہوچکا ہے البتہ لڑائی جھگڑے میں شیطان کی پیروی کی جائے گی جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ:
""٭ حضور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہبےشک تحقیق شیطان اس بات سے مایوس ہوچکاہے کہ نمازی حضرات اسکی جزیرہ عرب میں عبادت کرینگے لیکن وہ ان میں لڑائي اور فساد کرا دیگا۔""
صحیح مسلم: والیم:3، حدیث 2606، صفحہ1715(٭
جب شیطان جزیرہ عرب میں اپنی عبادت کیے جانے پر مایوس ہوچکا ہے
تو پھر ایک انسان اٹھ کر کیسے دعوی کرسکتا ہے کہ جزیرہ عرب میں اور وہ بھی روضہ رسول پر شرک ہوتا تھا حالانکہ انکے شرک والے دعوے کی نفی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ:
""٭حضور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نےدعا فرمائی کہ:
اے اللہ!
میری قبرکو بت نہ بناناکہ اس کی پوجا ہو۔
)موطا امام مالک، ص 169، مترجم مشکوۃ، ص 72( ٭
جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم مستجاب الدعوات ہیں تو پھر یقین رکھنا چاہیے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی قبر کو آج تک نہ پوجاگیا ہے اور نہ کبھی اسکو پوجا جائیگا اور نہ ہی روضہ رسول پر کبھی شرک وقوع پذیر ہوگا.
کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شرک وقوع پذیر ہوگا.
اگر ایسا ہوتا تو یقینا حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکی نشاندہی فرما دیتے. لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما کرکہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکاکہ مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کرینگے." ایسے ہر خدشے کی نفی فرمادی جس میں شرک کا خطرہ ہوسکتا تھا.
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری پردہ پوشی کے بعد تمام اہل عرب میں ارتداد پھیل گیا تھا تو اس وقت بھی صرف مدینہ اور مکہ کے لوگوں کے ایمان سلامت رہے تھے. جبکہ اہل نجد والے سب سے پہلے مرتد ہوگئے تھے.
ابن وہاب کے ایک اور مداح شیخ نجدی کی دعوت توحید کا بنیادی پتھر شیخ محمد حامد الفقی فتح المجید شرح کتاب التوحید مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ کے حاشیہ، جس کی تصحیح و نظرثانی شیخ عبدالعزيز بن باز رئیس الجامعۃ الاسلامیۃ مدینتہ منورہ نے کی ہے لکھتے ہیں کہ:
یہ شرک ایسا معاملہ ہے کہ اس میں گرنے سے بےخطر نہیں رہا جاسکتا۔ صحابہ و تابعین علیہم الرضوان کے زمانہ کے بعد اس امت کے بڑے بڑے ذہین لوگ اس میں مبتلاء ہوگئے، بت بناکر ان کی پوجا شروع کردی گئی۔ جس بات کا حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنی ذات اور اپنی اولاد کے متعلق خطرہ تھا، قرون مفضلہ کے بعد امت کی اکثریت اسکی مرتکب ہوگئی۔ قبروں پر مسجدیں اور گنبد بنائے گئے اور ہرقسم کی عبادت انکی طرف پھیر دی گئی۔ اس کو دین بنالیاگیا۔ جبکہ یہ اوثان اور اصنام یعنی بت ہیں جو حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم کے بتوں اور عرب و غیر عرب کے لات و مناۃ و عزی بتوں کی طرح ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر شرک فی الربویۃ میں مبتلاء ہوگئے جسکی داستان بڑی طویل ہے۔""""
محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار محمد الفقی کے نزدیک صحابہ کرام کے بعد امت مسلمہ کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوگئ تھی. اور لوگ بت بناکر انکی پوجا کرنے لگے تھے. حالانکہ محترم نے صریح کذب بیانی سے کام لیا ہے. اگر مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوجاتی تو مستند کتابوں میں ان کا ذکر ضرور ہوتا. امام بخاری سے لیکر امام بن کثیر تک جتنے بھی جید آئمہ کرام گزرے ہیں وہ امت کے ایسے حالات کی خبر ضرور دیتے. لیکن ایسا کچھ نہیں تھا جسکی وجہ سے ہمیں آج تک ایسی کوئی خبر نہیں ملی سوائے ابن وہاب اور انکے پیروکاروں کے جو کوئی بھی تاریخی حوالہ پیش کرنے سے قاصر ہیں. احادیث کا مفہوم ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی. لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوگئی تھی. انا للہ و انا الیہ راجعون.
ان حوالہ جات سے معلوم ہو رہا ہے کہ شیخ نجدی نے اپنے دور میں باشندگان عرب کو بزعم خویش شرک میں مبتلاء دیکھ کر ان کو مشرک بھی جانا اور ان پر تلوار بھی چلائی جیساکہ:
قاضی شوکانی نجدیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
ہمارے یمن کے حاجیوں کے قافلہ کے امیر الحجاج السیّد محمد بن حیسن المراجلی نے خود مجھ سے(قاضی شوکانی سے) بیان کیاکہ ہمارے قافلے کو نجدی جماعت کی ایک ٹولی ملی تو اس نے مجھے اور میرے ساتھ والے یمن کے سارے حاجیوں کو "کفار کہہ کر خطاب کیا۔
(البدر الطالع بحوالہ مولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی،"شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماء حق ص 132)وہ یمنی جنکے بارے میں فرمایا گیاکہ ایمان یمانی ہے جن کے دل نرم ہیں اور جن کے لیے دعا فرمائی انکو فرقہ وہابیہ والوں نے کافر قرار دیا .
ابھی تک ہم نے محمد بن عبدالوہاب فرقہ وہابیہ کے بانی کے عقائد کے متعلق مختصرا پڑھا جبکہ انکے قتال کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ انکے قتال کی ایک لمبی داستان ہے جو اس مضمون میں سما نہیں سکتی البتہ دوران قتال ان باتوں کا مختصرا تذکرہ ضرور کریں گے جن کو دوران جہاد کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے.
ابن وہاب کے عقائد سے آپ نے اندازہ کرلیا ہوگاکہ انہوں نے مسلمانوں کو مشرک سمجھ لیا تھا جس کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے خلاف تلوار نکال لی.
اب آپ خود اس حدیث کا مصداق کون ہے بہتر سمجھ سکتے ہیں ہم کسی کا نام نہیں لیں گے.
اگر آپ اس حدیث کا مصداق ابن وہاب کو سمجھتے ہیں تو آپ پر سلام لیکن انکے سوا آج تک کسی نے شرک کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تلوار بھی تو نہیں نکالی. اگر کسی نے نکالی ہوتو پورے حوالے سے ہمیں آگاہ ضرور کیجیے گا.
محمد بن عبدالوہاب بنی تمیم یعنی بنومضر کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرمائي گئی جبکہ محمد بن سعود بنو ربیعہ کی شاخ عنزہ سے ہیں جیساکہ نواب بھوپالی لکھتے ہیں کہ:
نام ان کا (ابن سعود کا) محمد ہے نجد کے رہنے والے تھے۔ آثار الادھار میں مذکور ہے کہ وہ مشائخ عرب عنزہ میں سے ہیں۔ جو ایک قبیلہ کا نام ہے۔ اس میں یہ قبیلہ مسالیخ کے شیخ تھے۔ (ترجمان وہابیہ ص 132، ازنواب صدیق حسن بھوپالی)
اب دونوں شیخوں کا شجرہ نسب نقشہ سے سمجھ لیں۔
محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود کا مسلمانوں کے خلاف قتال کا مختصر ذکر:
اس سلسلے میں ہمارے پیش نظر کتاب "عنوان المجد فی تاریخ نجد" ہے جو مؤرخ
وہابیہ شیخ عثمان بن عبداللہ بن بشر نجدی حنبلی کی تالیف ہے اور وزارت
المعارف السعودیہ کی مطبوعہ ہے۔
1159 ہجری میں وہابیوں نے علمبردار
اہلسنت مرد حردھام بن دواس رحمتہ اللہ علیہ والئی ریاض کے محل پر رات کے
وقت حملہ کیا تو انہوں نے دروازے بند کرلئے تو وہاں سے ناصر بن معمر اور
ترکی بن دواس اسکے گھر جاگھسے۔ ت(فعقروا ابلا کثیرۃ ص 27) تو وہاں پر موجود بہت سارے اونٹوں کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔
"نجدیوں نے سب سے بڑے بدبخت قذار بن سالف کہ اس نے حضرت سیّدنا صالح علیہ السّلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں کی سنت پر عمل کرکے کس قدر اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا تھا۔
ریاض کے ایک مقام الشراک پر ابن سعود نے صبح کے وقت حملہ کردیا جب کہ ابن دواس رحمتہ اللہ علیہ کے جانثار بھی تیار تھے۔ سخت لڑائي ہوئی جس میں اہل ریاض کی ایک جماعت واصل بحق ہوگئی اور مسلمانوں (یعنی حملہ آوور وہابیوں ) کے بہت سے آدمی اپنے انجام کو پہنچے۔
(ص 28)
(ص 31، 32) اسی سال وہابیہ نے ایک اور شہر الخرج پر یلغار کردی تو اہل دلم کی بکریاں پکڑ لائے۔ جب اہل علاقہ نے بکریوں کی واپسی کا تقاضا کیا تو مسلمانوں نے متعدد افراد کو قتل کردیا اور گھر کی راہ لی۔(بقول انکے مقتولین مسلمان نہیں تھے)۔
مال و متاع سے بھری دکانیں لوٹیں (ص 47)
اور انکے کھیتوں میں آگ لگادی۔ (ص 41)
بعض کھجوروں کے درخت کاٹ دئيے۔ (42)
عبدالعزیز نےایک بستی سبیع پر قذاقی کا پروگرام بنایا اور ان خانہ بدوش بدووں کے تقریبا 200 اونٹ قبضہ میں لے لئے۔ (ص 43)
شیخ نجدی نے عبدالعزیز کو روانہ کیا دوران لڑائي پانچ سو نجرانی شہید ہوگئے۔ اور دوسو چھیاسٹھ وہابی مارے گئے اور دو سو بیس وہابی قید ہوئے (145)۔ واضع ہوکہ نجران یمن کا ایک شہر ہے۔(منجد ص 706)
کہ اس سال دھام بن دواس نے جنگ کی اور مرتد ہوگیا اور تیسری جنگ چھڑ گئی جس میں بہت سارے سپاہی مارے گئے۔ (42)
ا
اب دو آیات پڑھیں اور شیخ نجدی کا درج بالا کارناموں کا جائزہ لیں۔
اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہے (اخنس بن شریق منافق) کہ دنیا کی
زندگی میں اسکی بات تجھے بھلی لگے اور وہ اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ
لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہے۔ جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا
پھرے اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور اللہ فساد سے راضی نہیں۔(سورۃ البقرہ آیت 204/205)
اس تمام بحث کا ایک اجمالی خاکہ پیش ہے:
مدینہ طیبہ کے مشرق میں
عرب کے صوبہ نجد میں
نجد کے باشی قبیلہ مضر میں
قبیلہ مضر کی ایک اہم شاخ بنو تمیم میں
لذت و حلاوت قرآن سے محروم اسکی بکثرت تلاوت کرنے والا
طویل نمازوں اور سجدہ ریزیوں سے پیشانیاں داغنے والا
مسلمانوں کے لئے عبرت کی حدتک روزوں کا پابند
اپنا اور اپنے متبعین کا سرمنڈانے والا
مسلمانوں پر شرک کا الزام دے کر انہیں واجب القتل اور ان کے اموال کو مباح جاننے والا اور غلبہ کی صورت میں ان پر جزیہ مسلط کرنے والا
42 سال کی عمر (ابن سعود کیساتھ معائدہ کے وقت) سے لیکر 91 سال کی عمرتک شب و روز مسلمانوں سے نبرد آزما رہنے کے باوجود کسی ایک یہودی یا عیسائی یا مجوسی یا آتش پرست یا کسی اور کافر (جوکھلم کھلا توحید کا منکر ہو) کو قتل نہ کرنے والا شخص ہوجانا یقینا غیب دان صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا عظیم ترین معجزہ ہے۔
اب ہم محمد بن عبدالوہاب جنہیں عرف عام میں ابن وہاب کہا جاتا ہے انکے بارے میں اور انکے پیروکاروں کے متعلق امام صاوی کا نقطہ نظر جان لیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں امام صاوی فرماتے ہیں کہ:
قال الشيخ أحمد بن محمد الصاوي المالكي الصاوي المتوفى سنة 1241 هـ أي منذ أكثر من 170 سنة في حاشيته على تفسير الجلالين كتاب "حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين".
المجلد الخامس ص 78 في تفسير قول الله تعالى {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ} (فاطر الآية 6). "وقيل هذه الآية نزلت في الخوارج الذين يحرّفون تأويل الكتاب والسنة ويستحلون بذلك دماء المسلمين وأموالهم كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون استحوذ عليهم الشيطان فأنساهم ذكر الله أولئك حزب الشيطان ألا إن حزب الشيطان هم الخاسرون نسأل الله الكريم أن يقطع دابرهم". انتهى كلام الشيخ الصاوي المالكي.
حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين للفقيه أحمد بن محمد الصاوي المالكي المتوفي 1241
حاشیہ احمد بن محمد الصاوی کے جدید نسخے میں اہل نجد کے پیروکاروں نے تحریف کردی ہے۔ آپ انکی اس تحریف کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرسکتے ہیں.
درج بالا حاشیہ الصاوی میں یہ الفاظ شامل نہیں ہیں " كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون"""
امام ابن عابد شامی فرماتے ہیں کہ جیساکہ ہمارے زمانہ میں فتنہ خارجیت برپا ہوا۔ (ابن) عبدالوہاب کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین شریفین پر زبردستی غلبہ پالیا۔ وہ خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرتے تھے جبکہ انکا عقیدہ تھاکہ صرف وہی مسلمان ہیں۔ اور انکے عقیدے کے برخلاف اعتقاد رکھنے والے مشرک ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اہلسنت اور انکے علماء کو قتل کرنا مباح قرار دیا حتی کہ اللہ تعالی نے انکی شان و شوکت کو توڑ دیا۔ ان کے شہروں کو برباد فرما دیا اور مسلمانوں کے لشکر کی مدد فرمائی۔ یہ 1233 ہجری کا واقعہ ہے۔
(فتاوی شامی شریف، ص 413/ج3)
عرب کے صوبہ نجد میں
نجد کے باشی قبیلہ مضر میں
قبیلہ مضر کی ایک اہم شاخ بنو تمیم میں
لذت و حلاوت قرآن سے محروم اسکی بکثرت تلاوت کرنے والا
طویل نمازوں اور سجدہ ریزیوں سے پیشانیاں داغنے والا
مسلمانوں کے لئے عبرت کی حدتک روزوں کا پابند
اپنا اور اپنے متبعین کا سرمنڈانے والا
مسلمانوں پر شرک کا الزام دے کر انہیں واجب القتل اور ان کے اموال کو مباح جاننے والا اور غلبہ کی صورت میں ان پر جزیہ مسلط کرنے والا
42 سال کی عمر (ابن سعود کیساتھ معائدہ کے وقت) سے لیکر 91 سال کی عمرتک شب و روز مسلمانوں سے نبرد آزما رہنے کے باوجود کسی ایک یہودی یا عیسائی یا مجوسی یا آتش پرست یا کسی اور کافر (جوکھلم کھلا توحید کا منکر ہو) کو قتل نہ کرنے والا شخص ہوجانا یقینا غیب دان صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا عظیم ترین معجزہ ہے۔
اب ہم محمد بن عبدالوہاب جنہیں عرف عام میں ابن وہاب کہا جاتا ہے انکے بارے میں اور انکے پیروکاروں کے متعلق امام صاوی کا نقطہ نظر جان لیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں امام صاوی فرماتے ہیں کہ:
قال الشيخ أحمد بن محمد الصاوي المالكي الصاوي المتوفى سنة 1241 هـ أي منذ أكثر من 170 سنة في حاشيته على تفسير الجلالين كتاب "حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين".
المجلد الخامس ص 78 في تفسير قول الله تعالى {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ} (فاطر الآية 6). "وقيل هذه الآية نزلت في الخوارج الذين يحرّفون تأويل الكتاب والسنة ويستحلون بذلك دماء المسلمين وأموالهم كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون استحوذ عليهم الشيطان فأنساهم ذكر الله أولئك حزب الشيطان ألا إن حزب الشيطان هم الخاسرون نسأل الله الكريم أن يقطع دابرهم". انتهى كلام الشيخ الصاوي المالكي.
حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين للفقيه أحمد بن محمد الصاوي المالكي المتوفي 1241
حاشیہ احمد بن محمد الصاوی کے جدید نسخے میں اہل نجد کے پیروکاروں نے تحریف کردی ہے۔ آپ انکی اس تحریف کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرسکتے ہیں.
درج بالا حاشیہ الصاوی میں یہ الفاظ شامل نہیں ہیں " كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون"""
امام ابن عابد شامی فرماتے ہیں کہ جیساکہ ہمارے زمانہ میں فتنہ خارجیت برپا ہوا۔ (ابن) عبدالوہاب کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین شریفین پر زبردستی غلبہ پالیا۔ وہ خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرتے تھے جبکہ انکا عقیدہ تھاکہ صرف وہی مسلمان ہیں۔ اور انکے عقیدے کے برخلاف اعتقاد رکھنے والے مشرک ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اہلسنت اور انکے علماء کو قتل کرنا مباح قرار دیا حتی کہ اللہ تعالی نے انکی شان و شوکت کو توڑ دیا۔ ان کے شہروں کو برباد فرما دیا اور مسلمانوں کے لشکر کی مدد فرمائی۔ یہ 1233 ہجری کا واقعہ ہے۔
(فتاوی شامی شریف، ص 413/ج3)
No comments:
Post a Comment