Featured Post

عقائد میں احتیاط کے تقاضے

عقائد میں احتیاط کے تقاضے 1 : یا محمد یا رسول اللہ کہنا شرک نہیں 2:  ایک شبہ اور اس کا ازالہ 3: اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دعا ...

Monday, March 23, 2015

خوابوں کی تعبیر

خوابوں کی تعبیر

خوابوں سے متعلق دو مشہور کتب ہیں

١: تعطیر الانام فی تعبیرالمنام
خواب اور تعبیر

2: تعبیرالرؤیا
خوابوں کی تعبیر

آئيے قرآن و حدیث کی روشنی میں خوابوں بشارتوں کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

 یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کا مطلقًا خواب کا انکار کر دینا کہ سرے سے خواب یا رویائے صالحہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا یہ گمان کرنا کہ خواب محض جھوٹ اور من گھڑت ہے، ایسا رویہ جہالت اور لا علمی ہے، کیونکہ خواب کے وجود اور تصور کا صراحتًا انکار کر دینا کفر ہے۔ اس لئے کہ خواب کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے اور خود سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.
يونس، 10 : 63، 64
(وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہےo ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)۔
قرآن مجید کی تمام تفاسیر میں ہے کہ بشارت سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو اللہ رب العزت ایمان والوں کو عطا کرتا ہے۔
امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ طبری سے لے کر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تک تمام مفسرین نے پوری تصریحات کے ساتھ اس امر کی تائید کی ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر طبری میں، قاضی ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ پانی پتی تفسیر مظہری میں، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں اور تمام آئمہ تفسیر نے صراحت کے ساتھ یہ بات درج کی ہے کہ اس قرآنی آیت کے تحت درج ’’بشری‘‘ سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو ایمان والے دیکھتے ہیں۔ 
سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے
وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ.
يوسف، 12 : 6
اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہت سے کمالات اور معجزات عطا فرمائے، ان میں خوابوں کی تعبیر کا علم اور فن بطور خاص عطا فرمایا۔ اس کا ذکر سورہ یوسف میں مذکور ہے۔ 
مثلاً بادشاہ مصر اور قیدیوں کے خواب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بیان ہوئے۔ آپ نے ان کی تعبیر بیان فرمائی اور اس تعبیر کے مطابق آئندہ واقعات رونما ہوئے۔
 قرآن مجید دوٹوک انداز میں خوابوں کے وجود کی صداقت کا بیان کر رہا ہے کہ تعبیر کا فن اللہ پاک نے اپنے نبی کو عطا کیا۔ خواب کے وجود کا انکار کہ یہ محض وہم ہے، یہ من گھڑت چیز ہے، یہ باطل ہے اور رویائے صالحہ کا کوئی وجود نہیں، خود قرآن مجید کی آیت کا انکار ہے۔ 
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ نے تعبیر الرویا کے باب میں ایک حدیث پاک نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ
من لم يومن بالرويا الصالحه لم يومن باﷲ ولا باليوم الآخرة.
نابلسي، تعطير الانام في تعبير المنام : 3
جو شخص نیک خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔

امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ جو دنیائے اہل سنت کے امام ہیں۔ انہوں نے اپنے عقائد میں درج کیا ہے کہ خواب کا مطلقاً انکار کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔
حدیث نبوی میں رویا صالحہ کا ذکر صراحتاً موجود ہے، بلکہ حدیث مبارکہ کی کتابوں میں خوابوں کے حوالے سے عنوانات، ابواب اور فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جن کا دنیا میں کسی مسلک کا کوئی عالم انکار نہیں کر سکتا ان میں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ 
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
لم يبق من النبوة الا المبشرات

اب نبوت باقی نہیں رہی (ہاں اس کا فیض) مبشرات کی صورت میں باقی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا 
’وما المبشرات؟‘‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبشرات سے کیا مراد ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الرویا الصالحہ‘‘ (مبشرات سے مراد نیک خواب ہیں)۔  
 بخاري، الصحيح، کتاب التعبير، باب المبشرات، 6 : 2564، رقم : 6589
گویا اب قیامت تک کوئی نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو کرے گا وہ کافر و مرتد ہو گا۔ نبوت فیضان مبشرات کی صورت میں قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

دوسرے مقام پر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبي قال فشق ذلک علي الناس فقال لکن المبشرات.

میرے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اب کوئی رسول آ سکتا ہے نہ کوئی نبی لیکن میرے بعد مبشرات اور بشارتیں ہوں گی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ نیک خواب جو اہل ایمان کو آتے ہیں۔
ترمذي، السنن، کتاب الرؤيا عن رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم، باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، 4 : 533، رقم : 2272 
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ 
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ايها الناس لم يبق من مبشرات النبوة الا الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له

اے لوگو! مبشرات نبوت میں ماسوائے نیک خوابوں کے جو کسی مومن کو دکھائی دیتے ہیں کچھ بھی باقی نہیں رہا
 ابن ماجه، السنن، کتاب تعبير الرويا، باب الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له، 3 : 1283، رقم : 3899
گویا اب نبوت من کل الوجود ختم کر دی گئی ہے۔ نبوت کے سارے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں لیکن ایک چیز جو اللہ نے میری امت کے لیے بطور نعمت باقی رکھی ہے وہ اہل ایمان کو دکھائے جانے والے نیک خواب و مبشرات ہیں۔
صحیح بخاری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
الرويا الصالحه من اﷲ

نیک خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتے ہیں۔
بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس و جنوده، 2 : 1198، رقم : 3118

اللہ تعالیٰ نے نیک خواب و مبشرات کو مسلمانوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ و سبب بنایا ہے، اللہ رب العزت نے اپنے نیک و مقرب بندوں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کی ہدایت کے لیے خوابوں اور بشارات کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ پہلے ہدایت انبیاء پر وحی کی صورت میں فرشتے لاتے تھے، اللہ کا وہ کلام کامل و اکمل اور قطعی و حتمی ہدایت ہوتا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وحی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اب خوابوں اور بشارات کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
 ترمذی شریف میں حضرت ابو سعید خدری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اصدق الرويا بالاسحار
 وہ خواب جو سحری کے وقت رات کے پچھلے پھر آتے ہیں وہ دیگر خوابوں کے مقابلے میں زیادہ سچے ہوتے ہیں۔
ترمذي، السنن، کتاب الرويا عن رسول الله، باب قوله لهم البشري في الحياة الدنيا، 4 : 534، رقم : 2274
صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
فان راي رويا حسنة فليبشر
جو کوئی اچھا، نیک خواب دیکھے تو اس پر خوش ہو۔
سنن ابن ماجہ میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
تم میں سے کوئی اگر اچھا اور پسندیدہ خواب دیکھے تو جس سے مناسب سمجھے بیان کرے۔
 ایک اور حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
  جو شخص کوئی برا خواب دیکھے وہ اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔
سنن ابی داؤد میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
ثم ليتعوذ من شره
 (جو کوئی برا خواب دیکھے) تو اس کے شر سے اللہ کے حضور پناہ مانگے۔
  ابو داود، السنن، کتاب الادب، باب ماجاء في الرويا، 4 : 305، رقم : 5021

سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خواب دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں، کیا کروں؟
 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کچھ کلمات بتائے کہ اگر برا خواب دیکھو اور ڈرو تو یہ کلمات پڑھ لیا کرو، اللہ پاک اس کے شر اور خوف سے تمہیں پناہ دے گا۔
اگر خواب کا کوئی وجود نہ ہوتا اور اس کے اچھے برے اثرات مرتب نہ ہوتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے خواب کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین نہ فرماتے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب کے آداب بیان کیے اور خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
الرويا ثلاث فالرويا الحسنة بشري من اﷲ عزوجل والرويا يحدث بها الرجل نفسه والرويا تحزين من الشيطن.

خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے۔
حاکم، المستدرک، 4 : 422، رقم : 8174

غرض یہ کہ نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور بشارت ہوتا ہے، برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے،
 تیسرا تحدیث النفس، منتشر الخیالی جیسے آپ نے دیکھا کہ اچانک آپ عورت بن گئے یک لخت دیکھا کہ سرکٹ گیا ہے تھوڑی دیر کے بعد آپ شیر بن گئے ہیں، پھر دیکھا کہ پانی میں گر گئے ہیں ہوا میں اڑ رہے ہیں، اس قسم کے اوٹ پٹانگ خوابوں کو منتشر الخیالی کہتے ہیں، ان کی کوئی تاویل و تعبیر نہیں ہوتی۔
قرآن مجید کے علاوہ صحیح بخاری و مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، موطا امام مالک اور احادیث کی دیگر کتب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے خواب بیان کیے گئے ہیں، خوابوں اور بشارتوں کے حوالے سے کتب احادیث میں ابواب و فصول قائم ہیں مثلاً کتاب الرویا، الرؤیا الحسنہ۔
امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی فتح الباری، علامہ انور شاہ کاشمیری کی فیض الباری، مولانا ادریس کاندھلوی کی التعلیق الصبیح میں خوابوں اور بشارات کے حوالے سے ان گنت تفصیلات موجود ہیں، امام کرمانی رحمۃ اللہ علیہ امام عینی رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھیں، ہر ایک کے ہاں اس باب میں قاری کو بہت کچھ ملے گا۔ اس حوالے سے ارباب عقل و دانش نے ستر ستر اسی اسی اور سو سو صفحات پر مشتمل ابواب اپنی کتب میں قائم کیے ہیں۔

 امام نابلسی کی خوابوں سے متعلق کتاب
تعطیر الانام فی تعبیرالمنام
خواب اور تعبیر کا لنک درج ذیل ہے جس سے آپ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
https://drive.google.com/open?id=0B_XN5yktHRQ_RXN6X2pxT3dvLTQ&authuser=0


امام سیرین کی مشہور کتاب
تعبیرالرؤیا
اس کتاب کا لنک درج ذیل ہے جس سے آپ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں
https://drive.google.com/open?id=0B_XN5yktHRQ_LTE5MktBemtscDQ&authuser=0

Speciall Courtesy To www.thefatwa.com


Thursday, March 19, 2015

نجد کہاں پر ہے اور حدیثِ شرک کا مصداق کون ہے؟

نجد, بنوتمیم کا بیان اور حدیث شرک کا مصداق کون

نجد پارٹ ون میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جس نجد سے فتنوں کا نکلنا مراد ہے وہ نجد عراق اور حجاز کے درمیان واقع ہے۔ اور نجد کے جن قبیلوں سے فتنوں کے نکلنے کی نشاندہی فرمائي گئی  وہ قبیلے مضر و ربیعہ ہیں۔
 مضر کی مشہور شاخ بنوتمیم ہے جس سے پہلا گستاخ رسول نکلا تھا،
 جبکہ ربیعہ کی مشہور شاخ بنوحنیفہ ہے
 جس سے پہلا جھوٹا داعی نبوت میسلمہ کذاب نکلا تھا۔۔
اس پارٹ میں ہم نبوتمیم اور خوارج کے متعلق آیات قرآنی اور فرامین مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا مطالعہ کریں گے اور حدیث شرک کا مصداق کون ہے اس پر بھی بحث کریں گے.
           کچھ لوگ ایک حدیث جو صحاح ستہ کی مختلف کتابوں میں بیان ہوئی ہے اسکے بہت حوالے دیتے ہیں کہ یہ دیکھو بنی تمیم کی فضیلت بیان ہوئی ہے لیکن وہ آیات قرآنی اور احادیث بیان نہیں کرتے جن میں بنو تمیم اور انکے لوگوں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
وہ لوگ نہ تو بنی تمیم کی بشارت ٹھکرانے والی حدیث بیان کرتے ہیں اور نہ ہی وہ حدیث بیان کرتے ہیں جن میں بنو تمیم کو محروم کردیاگیا۔ اس حوالے سے ہم چند احادیث بیان کریں گے تاکہ احادیث سے آپ کو سمجھ آ جائے۔ 

بنو تمیم کی فضیلت والی حدیث

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سے میں نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے بنی تمیم کے بارے میں تین باتیں سنیں ہیں، میں ان سے ہمیشہ محبت رکھتا ہوں، ان میں یہ تین باتیں پائي جاتی ہیں:
1: میری امت میں سے وہ دجال پر سب سے زیادہ سخت ہونگے۔
2: اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس انکی ایک قیدی عورت تھی، آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ 'اسے آزاد کردو یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔
3: اور انکے صدقات آئے تو آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ یہ میری قوم کے صدقات ہیں۔
بخاری: کتاب العتق: باب من ملک من العرب
درج بالا حدیث میں تین نقطے بیان ہوئے ہیں
1: وہ دجال پر سب سے زیادہ سخت ہونگے۔ اس سے پتہ چلاکہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ جس طرح دجال سخت ہوگا, مقابلے میں بنی تمیم والے بھی سخت ہیں۔ بنی تمیم کے وہ لوگ یقینا خوش بخت لوگ ہوں گے جو دجال سے مقابلہ کریں گے۔ اللہ ہمیں بھی بنوتمیم کے اس گروہ میں شامل کرے جو دجال سے مقابلہ کریگا لیکن ایک حدیث کا مفہوم ہےکہ "بنوتمیم کے ایک گستاخ رسول شخص عبداللہ ذی الخویصرہ کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہونگے "
"جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آتا ہےکہ " اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ 
ایک اور حدیث میں فرمایاکہ"آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے 
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا"یعنی  بنوتمیم کے ذي الخویصرہ کی نسل سے لوگ دجال کے  وقت مسلح خروج کریں گے۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنوتمیم کے کچھ لوگ دجال کے خلاف لڑ رہے ہونگے اور کچھ لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے ہونگے۔
2: دوسرا نقطہ یہ بیان ہوا ہے کہ اسے آزاد کردو یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔  حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے قبیلہ اسلم کو بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد قرار دیا ہے۔

قبیلہ اسلم اولاد اسماعیل علیہ السّلام سے ہے
حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قبیلہ اسلم کے کچھ لوگوں کی طرف تشریف لےگئے اور وہ بازار میں تیراندازی کر رہے تھے تو حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا" اے اولاد اسماعیل! تیراندازی کرو اس لئے کہ تمہارے باپ (اسماعیل) تیرانداز تھے اور میں فلاں شخص کے ساتھ ہوں، کسی ایک فریق کے بارے میں (آپ نے ایسا فرمایا) پاس دوسرے فریق کے لوگوں نے اپنے ہاتھ روک لئے، حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ ان کو کیا ہوگیا!
لوگوں نے عرض کیا ہم کیسے تیراندازی کریں آپ تو فلاں کے ساتھ ہیں، فرمایا: تیراندازی کرو میں سب کے ساتھ ہوں۔
(صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 723)
اس سے پتہ چلاکہ آل اسماعیل والا امتیاز صرف بنی تمیم کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ بنو اسلم بھی آل اسماعیل سے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی کئی اور قبائل ہیں۔
3: یہ میری قوم کے صدقات ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ آل اسماعیل حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہی قوم ہے ۔ جیساکہ درج ذیل حدیث میں بھی آیاہےکہ:
غالب رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے فیس (قبیلہ) کا ذکر کیا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اللہ قیس والوں پر رحم کرے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ قیس والوں کےلئے اللہ سے رحمت کی دعا کررہے ہیں؟ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ ہاں" انہوں نے ہمارے باپ اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ کا مذہب اختیار کیا۔
قیس! سلامتی ہو ہمارے یمن پر، یمن! سلام ہو ہمارے قیس پر۔ قیس والے زمین پر اللہ کی آرمی ہیں۔
)Tabrani, Declared Sahih By Al-Haythami, x, 49()
نتیجہ: پتہ چلاکہ بنوتمیم کو دوسرے قبیلوں پر فضیلت حاصل نہیں تھی بلکہ دوسرے قبیلوں کو بنوتمیم پر فضیلت حاصل یے جس کا ذکر ہم اپنے مقام پر کرینگے.


بنوتمیم کے لوگوں کو سورۃ الحجرات میں بےعقل کہاگیا ہے :

آیات قرآنی
"اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾
"وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔)

یہ آیت بنی تمیم کے دیہاتی لوگوں کے حق میں نازل ہوئی، قبیلہ بنی تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت مسجد نبوی میں آئے، حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس وقت آرام فرما رہے تھے تو یہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے تھے کہ اے محمد باہر آئيے۔

 ابن کثیر، آیت نمبر 4 اور 5  کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

ان لوگوں کی مذمت بیان فرمائي جا رہی ہے جو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، یہ امہات المؤمنین کے گھر تھے۔ اجڈ بدوؤں کا یہی طریقہ تھا۔ یہ اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئي۔

(تفسیر ابن کثیر، جلد 4، صفحہ 363، سورت الحجرات)

 قرآن میں بنوتمیم کے لوگوں کو بےعقل کہاگیا۔ آگے حدیث میں آتا ہے کہ
بنوتمیم نے بشارت ٹھکرا دی
جیساکہ بیان ہواکہ "  بنوتمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا اے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت قبول نہیں کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔"
صحیح بخاری, کتاب المغازی
باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان
حدیث نمبر :4365
تبصرہ: وہ کتنے بدقسمت لوگ ہونگے جنہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشارت دیں اور وہ ٹھکرا دیں.


کن قبیلوں کے حصے میں مغفرت اور سلامتی کی بشارتیں آئیں.

 بنوتمیم اور دیگر قبائل کی نسبت. قبیلہ غفار کو مغفرت کی مغفرت کی بشارت دی گئی جبکہ قبیلہ اسلم کی اللہ نے حفاظت فرمائی جو بہت بڑی خوشخبریاں ہیں جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ:

بَاب دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِغِفَارَ وَأَسْلَمَ
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۱۱/ حدیث مرفوع
۶۴۱۱۔ حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِفَارُ غَفَرَ اللہُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللہُ۔

۶۴۱۱۔ ہداب بن خالد، سلیمان بن مغیرہ، حمید بن ہلال، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قبیلہ غفار کی اللہ نے مغفرت فرما دی اور قبیلہ اسلم کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۱۵/ حدیث مرفوع
۶۴۱۵۔ و حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسٰی عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاکٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللہُ وَغِفَارُ غَفَرَ اللہُ لَهَا أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْهَا وَلٰکِنْ قَالَهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ۔
۶۴۱۵۔ حسین بن حریث، فضل بن موسی، خثیم بن عراک بواسطہ اپنے والد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی، یہ بات میں نےنہیں کہی بلکہ اللہ عزوجل نے اس طرح فرمایا ہے۔


اللہ اور اسکا رسول کن کن قبیلوں کے مددگار ہیں

بَاب مِنْ فَضَائِلِ غِفَارَ وَأَسْلَمَ وَجُهَيْنَةَ وَأَشْجَعَ وَمُزَيْنَةَ وَتَمِيمٍ وَدَوْسٍ وَطَيِّءٍ
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۰/ حدیث مرفوع
۶۴۲۰۔ حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِکٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارُ وَمُزَيْنَةُ وَجُهَيْنَةُ وَغِفَارُ وَأَشْجَعُ وَمَنْ کَانَ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللہِ مَوَالِيَّ دُونَ النَّاسِ وَاللہُ وَرَسُولُهٗ مَوْلَاهُمْ۔

۶۴۲۰۔ زہیر بن حرب، یزید ابن ہارون، ابومالک اشجعی، موسی بن طلحہ، حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبائل انصار مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار، اشجع اور جو عبد اللہ کی اولاد میں سے ہیں یہ دوسرے لوگوں کے علاوہ میرے مددگار اور اللہ اور اس کے رسولؐ ان سب کے مددگار ہیں۔
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۱/ حدیث مرفوع
۶۴۲۱۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ وَمُزَيْنَةُ وَجُهَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَأَشْجَعُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًی دُونَ اللہِ وَرَسُولِهٖ۔

۶۴۲۱۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر بواسطہ اپنے والد، سفیان، سعد بن ابراہیم، عبد الرحمٰن بن ہرمز الاعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قریش اور انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار، اشجع مددگار ہیں اور ان کا حمایتی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سواء کوئی نہیں۔

بنوتمیم سے کون کون سے قبیلے بہتر ہیں:
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۳/ حدیث مرفوع
۶۴۲۳۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ ابْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهٗ قَالَ أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَمُزَيْنَةُ وَمَنْ کَانَ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةُ خَيْرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ وَبَنِي عَامِرٍ وَالْحَلِيفَيْنِ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ۔

۶۴۲۳۔ محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد ابن ارہیم، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار، مزینہ، جہینہ یہ بہتر ہیں بنی تمیم، بنی عامر اور دونوں حلیفوں اسد اور غطفان سے.
حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۴/ حدیث مرفوع
۶۴۲۴۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ عَبْدٌ أَخْبَرَنِي و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنِ الْأَعْرَجِ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ لَغِفَارُ وَأَسْلَمُ وَمُزَيْنَةُ وَمَنْ کَانَ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ قَالَ جُهَيْنَةُ وَمَنْ کَانَ مِنْ مُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَطَيِّئٍ وَغَطَفَانَ۔

۶۴۲۴۔ قتیبہ بن سعید، مغیرہ حزامی، ابوزناد، اعرج ،حضرت ابوہریرہؓ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ عمرو الناقد، حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد بواسطہ اپنے والد، صالح، اعرج ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے! قبیلہ غفار، اسلم، جہینہ اللہ کے ہاں قیامت کے دن قبیلہ اسد غطفان ہوازن اور تمیم سے بہتر ہوں گے۔

حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۲۵/ حدیث مرفوع
۶۴۲۵۔ حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمٰعِيلُ يَعْنِيَانِ ابْنَ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَشَيْئٌ مِنْ مُزَيْنَةَ وَجُهَيْنَةَ أَوْ شَيْئٌ مِنْ جُهَيْنَةَ وَمُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللہِ قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ وَهَوَازِنَ وَتَمِيمٍ۔

۶۴۲۵۔ زہیر بن حرب، یعقوب دورقی، اسماعیل ابن علیہ، ایوب، محمد، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ اسلم، غفار اور مزینہ میں سے کچھ اور جہینہ یا جہینہ میں سے کچھ اور قبیلہ مزینہ اللہ کے ہاں بہترین ہیں، راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپؐ نے فرمایا قیامت کے دن قبیلہ اسد غطفان ہوازن اور تمیم سے بہتر ہوں گے۔

حدیث:
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۴۳۰/ حدیث مرفوع
۶۴۳۰۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو کُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَکْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَکْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ کَانَ جُهَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ وَبَنِي عَبْدِ اللہِ بْنِ غَطَفَانَ وَعَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهٗ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا قَالَ فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي کُرَيْبٍ أَرَأَيْتُمْ إِنْ کَانَ جُهَيْنَةُ وَمُزَيْنَةُ وَأَسْلَمُ وَغِفَارُ۔

۶۴۳۰۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، وکیع، سفیان، عبدالملک بن عمیر، عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر قبیلہ جہینہ، اسلم اور غفار، بنی تمیم، بنی عبد اللہ بن غطفان اور عامر بن صعصعہ سے بہتر ہوں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آواز کو بلند فرمایا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! پھر تو وہ لوگ ناکامی اور خسارے میں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلا شبہ وہ ان سے بہتر ہیں۔


بنو تمیم ناکام و نامراد اور خسارے والا قبیلہ

دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
باب : ( قبیلہ ) (( مزینہ )) ، (( جہینہ )) ‘ اور (( غفار )) کی فضیلت۔
1734 : سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس (التمیمی ) رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ حاجیوں کو لوٹنے والے ( قبائل ) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے لوگوں نے بیعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ( قبیلہ ) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ قبائل بنی تمیم، بنی عامر، اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو یہ لوگ ( یعنی بنی تمیم وغیرہ ) خسارے میں رہے اور نامراد ہوئے )؟ وہ بولا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ ان سے بہتر ہیں ( یعنی قبیلہ اسلم اور غفار وغیرہ قبیلہ بنی تمیم وغیرہ سے بہتر ہیں۔
(اقرع بن حابس قبیلہ بنوتمیم سے تھے)

حدیث:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایاکہ تم جانتے ہوکہ جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غفطان اور بنی صعصعہ سے بہت اچھے ہیں، تو ایک آدمی نے عرض کیاکہ بنی تمیم وغیرہ نامراد اور ناکام ہوگئے؟ ارشاد فرمایا"ہاں" جہینہ وغیرہ کے قبائل بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ سے بہت اچھے ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 731، حدیث 7310)

حدیث:
حضرت ابوبکرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس (التمیمی)  نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیاکہ سراق الحجیج جو اسلم قبیلہ سے ہے اور غفار،مزینہ اور جہینہ نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلّم سے بیعت کی ہے تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا"کیا تم جانتے ہوکہ اسلم مزینہ اور جہینہ یہ سب بنوتمیم، بنو عامر اورغطفان ناکام اور نامراد سے بہتر ہیں؟
اقرع بن حابس نے عرض کیا "جی ہاں"۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اسلم و غفار وغیرہ بنی تمیم وغیرہ سے بہت اچھے ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 732، صفحہ 731)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیرخواہ قبائل کون؟


حدیث:
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، غفار اور اشجح میرے خیرخواہ ہیں اور اللہ اور اسکے رسول کے سوا اور کوئی انکا حمایتی نہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 5، حدیث 3512)

تبصرہ
ان حادیث سے پتہ چلاکہ بنی تمیم کی فضیلت پر جو حدیث ہے وہ صرف بنی تمیم کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دیگر قبیلوں کی فضیلت بنو تمیم سے بڑھ کر ہے کہ جن کی افضلیت کے لئے حضور پاک صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اللہ کی قسم کھاکر فرمایا۔ اور جن کی فضیلت کی قسم نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کھائی ہو اسکے بعد کسی اوردلیل کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔
اب کوئی ایک حدیث کو بنیاد بنالے کہ بنوتمیم کی تعریف فرمائی گئی ہے اس لئے فتنہ اس سے نہیں نکل سکتا تو انکے لئے عرض ہےکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تھاکہ "انا مضری) میں مضری ہوں، حالانکہ مضر قبیلہ وہ قبیلہ ہے جہاں سے شیطان کے سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئي لیکن ظاہر ہے کہ مضر کی ساری نسل سے تو فتنے نہیں نکلیں گے اور فرما دیاکہ "میں بہترین قوم میں پیدا ہوا یعنی بنوہاشم میں.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب ہر ایک لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘)(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : (99)، 5 / 543 الرقم : 3532، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 584، الرقم : 3607 - 3608،(

سوال یہ ہے کہ:
پھر قبیلہ مضرکے کون سے قبیلے سے شیطان کا سینگ نکلے گا؟ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس قبییلے نے بشارت ٹھکرائی تھی، اور کن کن قبیلوں کو ناکام و نامراد قرار دیاگیا اور کن کن قبیلوں کو محروم کردیاگیا؟۔ بنو تمیم نے بشارت بھی ٹھکرائی، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ چند لوگ تھےجنہوں نے بشارت ٹھکرائی'  ان کو پوری قوم تو نہیں کہا جاسکتا ہے، توان سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ فرمان مصطفی ایک بار پھر پڑھ لیں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ بنو تمیم نے بشارت ٹھکرا دی۔ اس میں یہ نہیں فرمایاکہ بنو تمیم کے چند افراد نے بشارت ٹھکرا دی۔ سب سے پہلا گستاخ رسول بھی بنو تمیم کا ہی تھا، جس کی نسل سے فتنہ پرستوں کے نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئي، حجرہ مبارک کے باہر سے آوازیں دینے والے بھی بنو تمیم کے لوگ تھے، جن کی مذمت کےلئے قرآن کی آیات تک نازل ہوئيں۔ امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے ذوالخویصرہ تمیمی والے واقعہ سے کہ فتنہ کہاں سے نکلے گا۔
مزید فتنہ نجد سے منسلک ایک حدیث پیش کرتے ہیں پہلے گستاخ رسول کے حوالے سے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا (نجد کے)  چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہاڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘حديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب :
دوسری حدیث میں اسکی نسل سے فتنہ پروروں کے نکلنے کی پیشگوئی فرمائی کہ:  اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے ). ایک اور حدیث میں اس گستاخ کا نام اور قبیلہ ان الفاظ میں بیان ہواکہ:"ذی الخویصرہ نامی شخص جو کہ بنی تمیم سے تھا، نے کہا : یا رسول اللہ ! انصاف کیجیے."(معاذاللہ اسکو تقسیم رسول غیرمنصفانہ لگی )
(صحیح بخاری, کتاب الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811)
سو پتہ چلاکہ فتنہ پرور ذی الخویصرہ تمیمی نجدی کی نسل سے نکلیں گے.  نجد اور بنوتمیم سے نکلنے والے فتنوں کا بیان ہم الگ باب میں کریں گے لیکن یہاں ہم بنو تمیم سے نکلنے والے دو بڑے فتنوں کا ذکر کر رہے ہیں. پہلا فتنہ ذی الخویصرہ التمیی کا تھا جس کا مختصر بیان اوپر بیان ہو چکا ہے, اب ہم دوسرے فتنے کا بیان کریں گے اور حدیث شرک کا مصداق کون ہے اس پر مختصر سی روشنی ڈالیں گے.


حدیث شرک اور ابن وہاب التمیمی


تاریخ اسلام میں بڑے بڑے فتنے ظاہر ہوئے  لیکن کوئی ایسی جماعت نہ ملی جس نے مسلمانوں کی اکثریت کو مشرک قرار دیا ہو اور انکے خلاف شرک کے نام پر جنگ کی ہو سوائے محمد بن عبدالوہاب کے جنہوں نے مسلمانوں کو مشرک سمجھا اور اس بنیاد پر ان سے قتال بھی کیا. ہمیں درج ذیل حدیث کا مصداق ابن وہاب کے سوا کوئی نظر نہیں آیا. 
حدیث پاک میں آتا ہے کہ
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا،
 راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :
اے اﷲ کے نبی!
ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا؟
یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرک کا الزام لگانے والا۔‘

الحديث رقم 25 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220.(
خوارج نے کفر کے فتوے لگائے, کبیرہ گناہ کرنے والوں کو کافر تک کہا اور مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا لیکن کسی مسلمان جماعت پر شرک کا الزام لگاکر حملہ نہیں کیا.
 پھر تاریخ میں وہ وقت آتا ہے کہ مسلمانوں کو مشرک قرار دیکر انکی جان و مال کو حلال قرار دیا, اور روضہ رسول پر بوسیلہ رسول   اللہ  سے دعا مانگنے والوں کو مشرک قرار دیاگیا.
جیساکہ سلفیوں کے قاضی محمد بن عبد الوہاب کے حامی احمد بن حجر آل بوطامی سلفی قاضی قطر لکھتے ہیں کہ:
جنہوں نے توحید کو اچھی طرح پہچان لیا اور اسکی پیروی بھی کی اور شرک کو بھی جان لیا اور اسے ترک کردیا لیکن موحدین (وہابیوں ) سے نفرت کرتا ہے اور شرک (عامہ اہل اسلام) میں لت پت (مسلمان)  لوگوں سے محبت کرتا ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے۔
(حیات محمد بن عبدالوہاب نجدی ص 98، مترجم مختار احمد ندوی سلفی، مطبوعہ دارالاشاعت امام ابن تیمیہ()

 یہاں موحدین سے مراد وہابی ہیں جن کو ناپسند کرنے والا اور اہل سنت والجماعت کو پسند کرنے والا کافر قرار دیاگیا ہے کیونکہ جزیرۃ العرب میں صرف سنی آباد تھے کوئی عیسائی یا یہودی آباد نہیں تھے جن سے وہاں کے مسلمان محبت کرتے صرف نفرت کی وجہ سے فتوی کفر صادر فرما دیاگیا.


مقدمہ کتاب التوحید میں ص 7 میں لکھتے ہیں کہ

بقول انکے نجدین میں شرک ہوتا دیکھ چکے تھے محمد بن عبدالوہاب۔ یعنی اہل نجد والے شرک میں مبتلاء تھے۔

محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب نے زندگی میں کبھی کسی عیسائی یا یہودی یا کسی بت پرست ملک کے خلاف جہاد نہیں کیا جیساکہ ترجمان وہابیہ نواب صدیق حسین بھوپالی بتاتے ہیں کہ:
جہاد انکا صرف وہاں کے مسلمین بادیہ نشین کے ساتھ تھا. مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا کو تو کفر فرمایاگیا ہے لیکن یہ کیسا جہاد تھا جو صرف مسلمانوں کے خلاف تھا,اور اس پورے جہادی عمل میں ایک بھی عیسائی یا یہودی قتل نہ ہوا اور نہ انکے خلاف جہاد کیاگیا. 

محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب کے مسلح توحید کے جتھے ہر طرف سرگرداں ہونے شروع ہوگئے اور تلوار کی مدد سے ۔ جیساکہ ذیل میں لکھا ہےکہ:



جزیرہ عرب میں مسلمان بستے تھے جن کے خلاف تلوار اٹھائي گئی شرک کے نام پر۔ جبکہ عام حالات میں مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا سختی سے منع ہے جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ :"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر ہتھیار اٹھائے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔([ مسلم، رقم۹۸۔۱۰۰])
عَنْ إِیَاسِ بْنِ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ سَلَّ عَلَیْنَا السَّیْفَ فَلَیْسَ مِنَّا.
حضرت ایاس بن سلمہ (رضی اللہ عنہ) اپنے والد گرامی سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے اوپر تلوار سونتی، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
اور قرآن پاک میں آتا ہے کہ:
"’’اور جو کسی صاحب ایمان کو بالارادہ قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور
( اللہ نے) اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘((النساء۴:۹۳)

اتنے واضع اسلامی احکامات کے باوجود بھی مسلمانوں کے خلاف ابن وہاب نے ہتھیار اٹھائے جو کسی تاویل کی وجہ سے ہی اٹھائے ہونگے۔ یعنی مسلمانوں کو مشرک سمجھ لینا۔جیساکہ ذیل میں مزید وضاحت ہوجاتی ہے 
 ابن وہاب اور ابن سعود نے کسی غیرمسلم کے خلاف جہاد تو کیا نہیں تاریخ اسلامی اس بات کی گواہ ہے پھر انہوں نے کس سے قتال کیا اور کس بات کو بنیاد بنا کر کیا؟ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف قتال کیا اس تاویل کے بناء پر کہ جزیرہ عرب کے بیشتر لوگ مشرک ہوگئے ہیں اس لئے ان سے قتال کرنا جائز ہے۔

جزیہ غیرمسلموں سے لیا جاتا ہے لیکن ابن وہاب کے پیروکاروں نےمسلمانوں سے بھی جزیہ لیا جس کی تصدیق فرقہ وہابیہ کے ترجمان نواب صدیق اس طرح سے کرتے ہیں کہ:
  
 سلفیوں کے ایک اور عالم ابن وہاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
آپ نے طالب علمی کے عہد ہی سے اپنے ملنے جلنے والوں کو توحید کی دعوت دینا شروع کردی تھی(جیسے عرب کے لوگ مسلمان نہیں بلکہ مشرک تھے)۔
 نام نہاد مدعیان علم کی گمراہیوں کا پردہ فاش کرنے لگ گئے تھے۔ آپ جب مدینہ طیبہ میں تھے اور وہاں لوگوں کو نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے استغاثہ کرتے  سنتے تو غصہ سے بےقابو ہوجایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ شیخ محمد حیات سندھی سے پوچھا:
 شیخ! آپ یہ شرکیہ دعا مانگنے والوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ان کے اعمال باطل اور انکے کرتوت سے ہم بری اور بیزار ہیں۔
(شیخ احمد بن حجر، حیات محمدبن عبدالوہاب ص 29(
 ابن وہاب  کے مداح شیخ احمدبن حجر کے مطابق محمد بن عبدالوہاب کو مدینہ طیبہ میں شرک ہوتا ہوا نظر آتا تھا اور شرکیہ کلمات کو سن کر وہ غصہ سے بےقابو ہوجایا کرتے تھے.حالانکہ قرآن میں وسیلہ کے حوالے سے یہ حکم آیا ہے کہ:

شیخ ابن کثیر نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے:
وقوله: (: وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.) يرشد تعالی العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان ان يأتوا إلی الرسول صلی الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده، ويسألوه ان يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلک تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال: (لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.)
وَقَدْ ذَکَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ:اَلشَّيْخُ اَبُوْ نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِیْ کِتَابِهِ "اَلشَّامِلْ" اَلْحِکَايَةَ الْمَشْهُوْرَةَ عَنِ الْعُتْبِیِّ، قَالَ کُنْتُ جالساً عند قَبْرِ النبیِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ اَعْرَابِیٌّ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَيْکَ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، سَمِعْتُ اللَّهَ تعالی يَقُولُ : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.)، وقَدْ جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِیْ مُسْتَشْفِعًا بِکَ إِلَی رَبِّیْ ثُمَّ اَنْشَأَ يَقُولُ :
يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ اَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ القَاعُ وَالاَکَمُ
نَفْسی الفِدَاءُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُهُ
�� فِيهِ العَفَافُ ، وَفِيهِ الْجُودُ وَالکَرَمُ
ثُمَّ انْصَرَفَ الْاَعْرَابِیُّ فَغَلَبَتْنِیْ عَيْنِیْ، فَرَاَيْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَقَالَ : يَا عُتْبِیُّ ! اِلْحَقِ الْاَعْرَابِیَّ ، فَبَشِّرْهُ اَنَّ اللَّهَ تَعَالی قَدْ غَفَرَ لَهُ .
اتنے صریح قرآنی احکامات کے باوجود بھی محمد بن عبدالوہاب فرقہ وہابیہ کے بانی کا  وسیلہ کو شرک قرار دیکر مسلمانوں کو  مشرک قرار دینا کتنا بڑا ظلم ہے۔


محمد بن عبدالوہاب کے ایک اور مداح

 مقدمہ کتاب التوحید ص 7 میں اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ :
مدینہ منورہ میں جب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں استغاثہ اور من دون اللہ سے فریاد سنتے تو انکے غیظ و غضب کی ہنڈیا پھٹنے کو آ جاتی"۔
یہ شیخ ابن وہاب نجدی جنہیں روزہ رسول پر شرک ہوتے نظر آیا انکی نظر سے یہ حدیث نہیں گزری جس میں  حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دعا فرمادی تھی کہ "اے اللہ میری قبر کو بت نہ بننے دیناکہ اس کی عبادت کی جائے۔ اور یہ دعا قبول بھی ہوچکی ہے کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مستجاب الدعوات ہیں اور یہ دعا قبول ہوچکی ہے,  اسی لیے  شیطان جزيرہ عرب میں اپنی پرستش کیے جانے پر مایوس ہوچکا ہے البتہ لڑائی جھگڑے میں شیطان کی پیروی کی جائے گی جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ:
""٭ حضور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہبےشک تحقیق شیطان اس بات سے مایوس  ہوچکاہے  کہ نمازی حضرات اسکی   جزیرہ عرب میں عبادت کرینگے لیکن وہ ان میں لڑائي  اور فساد کرا دیگا۔""
صحیح مسلم: والیم:3، حدیث 2606، صفحہ1715(٭
جب شیطان جزیرہ عرب میں اپنی عبادت کیے جانے پر مایوس ہوچکا ہے
تو پھر ایک انسان اٹھ کر کیسے دعوی کرسکتا ہے کہ جزیرہ عرب میں اور وہ بھی روضہ رسول پر شرک ہوتا تھا حالانکہ انکے شرک والے دعوے کی نفی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ:
""٭حضور صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نےدعا فرمائی کہ:
 اے اللہ!
میری قبرکو بت نہ بناناکہ اس کی پوجا ہو۔
)موطا امام مالک، ص 169، مترجم مشکوۃ، ص 72( ٭
 جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم مستجاب الدعوات ہیں  تو پھر یقین رکھنا چاہیے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی قبر کو آج تک نہ پوجاگیا ہے  اور نہ کبھی اسکو پوجا جائیگا اور نہ ہی روضہ رسول پر کبھی شرک وقوع پذیر ہوگا.
 کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شرک وقوع پذیر ہوگا.
اگر ایسا ہوتا تو یقینا حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکی نشاندہی فرما دیتے. لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما کرکہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکاکہ مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کرینگے." ایسے ہر خدشے کی نفی فرمادی جس میں شرک کا خطرہ ہوسکتا تھا.
  جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری پردہ پوشی کے بعد تمام اہل عرب میں ارتداد پھیل گیا تھا تو اس وقت بھی صرف مدینہ اور مکہ کے لوگوں کے ایمان سلامت رہے تھے. جبکہ اہل نجد والے سب سے پہلے مرتد ہوگئے تھے.


 ابن وہاب کے ایک اور مداح شیخ نجدی کی دعوت توحید کا بنیادی پتھر شیخ محمد حامد الفقی فتح المجید شرح کتاب التوحید مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ کے حاشیہ، جس کی تصحیح و نظرثانی شیخ عبدالعزيز بن باز رئیس الجامعۃ الاسلامیۃ مدینتہ منورہ نے کی ہے لکھتے ہیں کہ:

یہ شرک ایسا معاملہ ہے کہ اس میں گرنے سے بےخطر نہیں رہا جاسکتا۔ صحابہ و تابعین علیہم الرضوان کے زمانہ کے بعد اس امت کے بڑے بڑے ذہین لوگ اس میں مبتلاء ہوگئے، بت بناکر ان کی پوجا شروع کردی گئی۔ جس بات کا حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنی ذات اور اپنی اولاد کے متعلق خطرہ تھا، قرون مفضلہ کے بعد امت کی اکثریت اسکی مرتکب ہوگئی۔ قبروں پر مسجدیں اور گنبد بنائے گئے اور ہرقسم کی عبادت انکی طرف پھیر دی گئی۔ اس کو دین بنالیاگیا۔ جبکہ یہ اوثان اور اصنام یعنی بت ہیں جو حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم کے بتوں اور عرب و غیر عرب کے لات و مناۃ و عزی بتوں کی طرح ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر شرک فی الربویۃ میں مبتلاء ہوگئے جسکی داستان بڑی طویل ہے۔""""

محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار محمد الفقی کے نزدیک صحابہ کرام کے بعد امت مسلمہ کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوگئ تھی. اور لوگ بت بناکر انکی پوجا کرنے لگے تھے. حالانکہ محترم نے صریح کذب بیانی سے کام لیا ہے. اگر مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوجاتی تو مستند کتابوں میں ان کا ذکر ضرور ہوتا. امام بخاری سے لیکر امام بن کثیر تک جتنے بھی جید آئمہ کرام گزرے ہیں وہ امت کے ایسے حالات کی خبر ضرور دیتے. لیکن ایسا کچھ نہیں تھا جسکی وجہ سے ہمیں آج تک ایسی کوئی خبر نہیں ملی سوائے ابن وہاب اور انکے پیروکاروں کے جو کوئی بھی تاریخی حوالہ پیش کرنے سے قاصر ہیں. احادیث کا مفہوم ہے کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی. لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلاء ہوگئی تھی. انا للہ و انا الیہ راجعون.
ان حوالہ جات سے معلوم ہو رہا ہے کہ شیخ نجدی نے اپنے دور میں باشندگان عرب کو بزعم خویش شرک میں مبتلاء دیکھ کر ان کو مشرک بھی جانا  اور ان پر تلوار بھی چلائی جیساکہ: 
قاضی شوکانی نجدیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
ہمارے یمن کے حاجیوں کے قافلہ کے امیر الحجاج السیّد محمد بن حیسن المراجلی نے خود مجھ سے(قاضی شوکانی سے) بیان کیاکہ ہمارے قافلے کو نجدی جماعت کی ایک ٹولی ملی تو اس نے مجھے اور میرے ساتھ والے یمن کے سارے حاجیوں کو "کفار کہہ کر خطاب کیا۔
(البدر الطالع بحوالہ مولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی،"شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماء حق ص 132)
وہ یمنی جنکے بارے میں فرمایا گیاکہ ایمان یمانی ہے جن کے دل نرم ہیں اور جن کے لیے دعا فرمائی انکو فرقہ وہابیہ والوں نے کافر قرار دیا .

ابھی تک ہم نے محمد بن عبدالوہاب فرقہ وہابیہ کے بانی کے عقائد کے متعلق مختصرا پڑھا جبکہ انکے قتال کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ انکے قتال کی ایک لمبی داستان ہے جو اس مضمون میں سما نہیں سکتی البتہ دوران قتال ان باتوں کا مختصرا تذکرہ ضرور کریں گے جن کو  دوران جہاد کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے.
ابن وہاب کے عقائد سے آپ نے اندازہ کرلیا ہوگاکہ انہوں نے مسلمانوں کو مشرک سمجھ لیا تھا جس کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے  خلاف تلوار نکال لی.
اب آپ خود اس حدیث کا مصداق کون ہے بہتر سمجھ سکتے ہیں ہم کسی کا نام نہیں لیں گے.

اگر آپ اس حدیث کا مصداق ابن وہاب کو سمجھتے ہیں تو آپ پر سلام لیکن انکے سوا آج تک کسی نے شرک کے نام پر مسلمانوں کے خلاف تلوار بھی تو نہیں نکالی. اگر کسی نے نکالی ہوتو پورے حوالے سے ہمیں آگاہ ضرور کیجیے گا.

محمد بن عبدالوہاب بنی تمیم یعنی بنومضر کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرمائي گئی جبکہ محمد بن سعود بنو ربیعہ کی شاخ عنزہ سے ہیں جیساکہ نواب بھوپالی لکھتے ہیں کہ:
نام ان کا (ابن سعود کا) محمد ہے نجد کے رہنے والے تھے۔ آثار الادھار میں مذکور ہے کہ وہ مشائخ عرب عنزہ میں سے ہیں۔ جو ایک قبیلہ کا نام ہے۔ اس میں یہ قبیلہ مسالیخ کے شیخ تھے۔ (ترجمان وہابیہ ص 132، ازنواب صدیق حسن بھوپالی)
اب دونوں شیخوں  کا شجرہ نسب نقشہ سے سمجھ لیں۔

محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود کا مسلمانوں کے خلاف قتال کا مختصر ذکر:

اس سلسلے میں ہمارے پیش نظر کتاب "عنوان المجد فی تاریخ نجد" ہے جو مؤرخ 
وہابیہ شیخ عثمان بن عبداللہ بن بشر نجدی حنبلی کی تالیف ہے اور وزارت المعارف السعودیہ کی مطبوعہ ہے۔
1159 ہجری میں وہابیوں نے علمبردار اہلسنت مرد حردھام بن دواس رحمتہ اللہ علیہ والئی ریاض کے محل پر رات کے وقت حملہ کیا تو انہوں نے دروازے بند کرلئے تو وہاں سے ناصر بن معمر اور ترکی بن دواس اسکے گھر جاگھسے۔ ت
(فعقروا ابلا کثیرۃ ص 27) تو وہاں پر موجود بہت سارے اونٹوں کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔
"نجدیوں نے سب سے بڑے بدبخت قذار بن سالف کہ اس نے حضرت سیّدنا صالح علیہ السّلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں کی سنت پر عمل کرکے کس قدر اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا تھا۔

ریاض کے ایک مقام الشراک پر ابن سعود نے صبح کے وقت حملہ کردیا جب کہ ابن دواس رحمتہ اللہ علیہ کے جانثار بھی تیار تھے۔ سخت لڑائي ہوئی جس میں اہل ریاض کی ایک جماعت واصل بحق ہوگئی اور مسلمانوں (یعنی حملہ آوور وہابیوں ) کے بہت سے آدمی اپنے انجام کو پہنچے۔
(ص 28)
(ص 31، 32) اسی سال وہابیہ نے ایک اور شہر الخرج پر یلغار کردی تو اہل دلم کی بکریاں پکڑ لائے۔ جب اہل علاقہ نے بکریوں کی واپسی کا تقاضا کیا تو مسلمانوں نے متعدد افراد کو قتل کردیا اور گھر کی راہ لی۔(بقول انکے مقتولین مسلمان نہیں تھے)۔
مال و متاع سے بھری دکانیں لوٹیں (ص 47)
اور انکے کھیتوں میں آگ لگادی۔ (ص 41)
بعض کھجوروں کے درخت کاٹ دئيے۔ (42)
عبدالعزیز نےایک بستی سبیع پر قذاقی کا پروگرام بنایا اور ان خانہ بدوش بدووں کے تقریبا 200 اونٹ قبضہ میں لے لئے۔ (ص 43)
شیخ نجدی نے عبدالعزیز کو روانہ کیا دوران لڑائي پانچ سو نجرانی شہید ہوگئے۔ اور دوسو چھیاسٹھ وہابی مارے گئے اور دو سو بیس وہابی قید ہوئے (145)۔ واضع ہوکہ نجران یمن کا ایک شہر ہے۔(منجد ص 706)
کہ اس سال دھام بن دواس نے جنگ کی اور مرتد ہوگیا اور تیسری جنگ چھڑ گئی جس میں بہت سارے سپاہی مارے گئے۔ (42)
ا
اب دو آیات پڑھیں اور شیخ نجدی کا درج بالا کارناموں کا جائزہ لیں۔
اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہے (اخنس بن شریق منافق) کہ دنیا کی زندگی میں اسکی بات تجھے بھلی لگے اور وہ اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہے۔ جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور اللہ فساد سے راضی نہیں۔
(سورۃ البقرہ آیت 204/205)

اس تمام بحث کا ایک اجمالی خاکہ پیش ہے:
مدینہ طیبہ کے مشرق میں
عرب کے صوبہ نجد میں
نجد کے باشی قبیلہ مضر میں
قبیلہ مضر کی ایک اہم شاخ بنو تمیم میں
لذت و حلاوت قرآن سے محروم اسکی بکثرت تلاوت کرنے والا
طویل نمازوں اور سجدہ ریزیوں سے پیشانیاں داغنے والا
مسلمانوں کے لئے عبرت کی حدتک روزوں کا پابند
اپنا اور اپنے متبعین کا سرمنڈانے والا
 مسلمانوں پر شرک کا الزام دے کر انہیں واجب القتل اور ان کے اموال کو مباح جاننے والا اور غلبہ کی صورت میں ان پر جزیہ مسلط کرنے والا
42 سال کی عمر (ابن سعود کیساتھ معائدہ کے وقت) سے لیکر 91 سال کی عمرتک شب و روز مسلمانوں سے نبرد آزما رہنے کے باوجود کسی ایک یہودی یا عیسائی یا مجوسی یا آتش پرست یا کسی اور کافر (جوکھلم کھلا توحید کا منکر ہو) کو قتل نہ کرنے والا شخص ہوجانا یقینا غیب دان صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا عظیم ترین معجزہ ہے۔ 

اب ہم محمد بن عبدالوہاب جنہیں عرف عام میں ابن وہاب کہا جاتا ہے انکے بارے میں اور انکے پیروکاروں کے متعلق امام صاوی کا نقطہ نظر جان لیں۔

محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں امام صاوی فرماتے ہیں کہ:
قال الشيخ أحمد بن محمد الصاوي المالكي الصاوي المتوفى سنة 1241 هـ أي منذ أكثر من 170 سنة في حاشيته على تفسير الجلالين كتاب "حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين".
المجلد الخامس ص 78 في تفسير قول الله تعالى {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ} (فاطر الآية 6). "وقيل هذه الآية نزلت في الخوارج الذين يحرّفون تأويل الكتاب والسنة ويستحلون بذلك دماء المسلمين وأموالهم 
كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون استحوذ عليهم الشيطان فأنساهم ذكر الله أولئك حزب الشيطان ألا إن حزب الشيطان هم الخاسرون نسأل الله الكريم أن يقطع دابرهم". انتهى كلام الشيخ الصاوي المالكي.
حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين للفقيه أحمد بن محمد الصاوي المالكي المتوفي 1241 

 حاشیہ احمد بن محمد الصاوی کے جدید نسخے میں اہل نجد کے پیروکاروں نے تحریف کردی ہے۔ آپ انکی اس تحریف کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرسکتے ہیں. 


درج بالا حاشیہ الصاوی میں یہ الفاظ شامل نہیں ہیں " كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون"""

 
امام ابن عابد شامی فرماتے ہیں کہ جیساکہ ہمارے زمانہ میں فتنہ خارجیت برپا ہوا۔ (ابن) عبدالوہاب کے متبعین نجد سے نکلے اور حرمین شریفین پر زبردستی غلبہ پالیا۔ وہ خود کو حنبلی مذہب سے منسوب کرتے تھے جبکہ انکا عقیدہ تھاکہ صرف وہی مسلمان ہیں۔ اور انکے عقیدے کے برخلاف اعتقاد رکھنے والے مشرک ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اہلسنت اور انکے علماء کو قتل کرنا مباح قرار دیا حتی کہ اللہ تعالی نے انکی شان و شوکت کو توڑ دیا۔ ان کے شہروں کو برباد فرما دیا اور مسلمانوں کے لشکر کی مدد فرمائی۔ یہ 1233 ہجری کا واقعہ ہے۔
(فتاوی شامی شریف، ص 413/ج3)


Wednesday, March 18, 2015

نجد کہاں پر ہے اور کہاں سے قرن الشیطان نکلا۔

نجد کا مرکز سعودی ریاض
نجد پارٹ ون


نجد کہاں پر ہے اور مشرق سے کون سا علاقہ مراد ہے
1:تعارف
2: مشرقين و مغربين کا بيان
3: حديث نجد
نجد کا لغوي معني اور حدود کا تعين
4
 5: عراق کے لغوي معني
6: احاديث ميقات ميں نجد اور عراق کا بيان
7: احاديث کثيرہ سے نجد واحد کا ثابت ہونا
8: تاريخي کتب سے نجد واحد کا ثابت ہونا
9: بني مضر اور بني ربيعہ کون ہيں اور کہاں رہتےہيں
10: بني مضر اور بني ربيعہ کا تاريخي پسں منظر
11: بنو مضر کے قبل از اسلام اخلاقي حالات
12: احاديث و شرح کي روشني ميں بنو مضر و ربيعہ کے مراکز کا تعين
13: بنوتميم کا شجرہ نسب سلفيوں کي زباني
(بنومضر کي بڑي شاخ)
14: بنوتميم کہاں رہتي ہے
15: کفر مشرقي ہے اور مشرق والوں سے کون لوگ مراد ہيں
16: بےعقل لوگ آيات قرآني کي روشني ميں
17: سورت الفتح کي آيت اور اسکي تفسير، نجدي فتنہ کے متعلق
18: نجد کو مشرقي کے نام سے بھي پکارا جاتا ہے
19: خلاصہ مضمون نجد پارٹ ون


 1: تعارف مضمون
مسلمانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ فتنوں والا نجد صرف ایک ہی  ہے جس کا ذکر احادیث تاریخ  میں آیا ہے. احادیث اور تاریخ اسلامی سے صرف ایک نجد کا ہی  وجود ملتا ہے . اس نجد کے قبیلوں کے خلاف غزوہ بھی ہوا جسے غزوہ نجد کہتے ہیں جبکہ بہت سے سریے بھی ہوئے, حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری پردہ پوشی کے بعد اہل نجد والوں نے ہی سب سے پہلے ارتداد کیا اور مرتد ہوئے, مسیلمہ کذاب, طلیحہ اسد جیسے لوگوں نے جھوٹی نبوت کا دعوے کیے . اسکے علاوہ پہلا گستاخ رسول بھی بنی تمیم کا ذی الخویصرہ التمیمی تھا جسکی نسل سے فتنہ پروروں کے پیدا ہونے اور اسکے ساتھیوں کی نشاندہی فرمائی گئی, خارجیوں کا بڑا فرقہ اباضیہ کا رہنما عبداللہ بن اباض جو بنو تمیم نجد کا تھا, اسکے علاوہ خوارج کا ابو بلال مرداس جسکو اسکی بہن نے خواب میں کتا بنے ہوئے دیکھا وہ بھی بنو تمیم کا تھا, عامر نجدہ جسکا تعلق قبیلہ بنو حنیفہ سے تھا جو نجد میں آباد تھا. حضرت علی علیہ السلام کو شہید کرنے والے بھی نجدی اور تمیمی تھے اور امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے والے تین لوگ تھے اور ان تین لوگوں  میں سے دو تمیمی  تھے. غرض کے نجد سے بےشمار فتنے نکلے اور فساد بپا ہوئے جنکی تفصیلات ہم الگ مضمون میں بیان کریں گے. لیکن یہاں ہم قرآن و حدیث و تاریخ سے نجد کی حدود کا تعین کریں گے اور ان دو قبیلوں کا بھی ذکر کریں گے جن سے شیطان کے سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرماکر فتنہ پرستوں کا تعین کردیاگیا اور اہل مشرق سے کون سے لوگ مراد ہیں انکا بھی تعین کریں گے.تمام واقعات کا ذکر غیرجانبدارانہ انداز سے کریں گے ان شاء اللہ. 

2: مشرقین و مغربین کا بیان
کچھ لوگ بارہ نجد کا بہت ذکر کرتے ہیں, حالانکہ احادیث و تاریخ سے صرف ایک نجد ثابت ہے جسکی سرحدیں حجاز سے لیکر عراق تک ہیں یعنی عراق و حجاز کے درمیان کا علاقہ نجد ہے. کچھ لوگ اہل عراق کو اہل مشرق ثابت کرنے کے لیے سمتوں کی قرآنی اصطلاح پیش کرتے ییں کیونکہ جب صرف دو سمتیں ہونگے تو ظاہر بات ہے کہ ایک مشرق ہوگی دوسری مغرب تیسری کوئی سمت نہیں ہوگی تو  اس طرح عراق خودبخود مشرق کی سمت میں آجائيگا جس سے عراق کو  مشرق میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ صرف دو سمتیں ہی ہیں جبکہ درج ذیل حدیث میں شمال کا بھی ذکر آیا ہے.


لیکن ہم ان لوگوں کے اصرار کو مدنظر رکھتے ہوئے سمتوں کی قرآنی اصطلاح کے مطابق ہی چلیں گے ۔ قرآن مجید میں سمتوں کے متعلق آیا ہے کہ:
"(وہی) دونوں مشرقوں کا مالک ہے اور (وہی) دونوں مغربوں کا مالک ہے۔"
(سورۃ رحمان 18/25)
----—--------------------------------++---------------------
سورۃ مزمل 73/10:
"وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، سو اُسی کو (اپنا) کارساز بنا لیں۔"
جبکہ عام طور پر مشرق، مغرب، شمال جنوب کی سمتیں استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن ہم اپنے کالم میں وہی اصطلاع بیان کريں گے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ 

آئیے سب سے پہلے وہ حدیث پڑھتے ہیں جس میں نجد کے لئے دعا نہیں فرمائی گئی :
3:حدیث نجد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ!  ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ  (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔
صحیح بخاری 2598/6، حدیث 6681۔
اس حدیث میں تین متعین خطوں کے نام لئے گئے ہیں لیکن کچھ احباب شام اور یمن کو تو علاقائی طورپر لیتے ہیں لیکن جب نجد کی باری آتی ہے تو یہ احباب نجد کے لغوی معنی نکال لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نجد ریاض مراد نہیں بلکہ ابھری ہوئی زمین مراد ہے، اور عرب میں بارہ نجد ہیں۔ حالانکہ حدیث کا لب و لباب واضع ہے کہ تین متعین خطے ہیں۔ جب ہم دو خطوں کے لغوی معنی اخذ نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم تیسرے خطے کا لغوی معنی کیونکر اخذ کرسکتے ہیں؟. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جو خطہ نجد کے نام سے مشہور تھا دراصل وہی نجد کا خطہ اس حدیث میں مراد ہے.  اب ہم نجد کے لغوی معنی پڑھتے ہیں:

3: نجد کے لغوی معنی
علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
"نجد زمین کا وہ حصہ ہے جو بلند و بالا، مضبوط و گاڑھا اور اونچائی پر واقع ہو"
(لسان العرب:45/14)
نجد کی حدود کا تعین 
علامہ یاقوت حموی اپنی شہرہ آفاق کتاب  معجم البلدان میں  لکھتے ہیں:
" نجد اس عریض (ترچھی) جگہ کا نام ہے جس کی بلندی کی طرف تہامہ اور یمن ہے اور پستی کی طرف عراق اور شام ہیں۔
 یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سارے کا سارا نجد یمامہ کے ماتحت ہے۔
(علامہ یاقوت حموی، معجم البلدان ج 5، ص 263)


ابن حجر عسقلانی نے خطابی کا قول نقل کیا ہےاپنی رائے نہیں دی ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ علامہ خطابی سے نقل کرتے ہیں:"نجد من جهة المشرق ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها وهي مشرق أهل المدينة وأصل النجد ما ارتفع من الأرض وهو خلاف الغورفإنه ما انخفض منها"۔)
(فتح الباری لابن حجر، باب قولہ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث نمبر:۶۶۸۱)
ترجمہ:" نجد مشرق کی طرف ہےاوراہل مدینہ کے لیے نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہیں اور یہ اہل مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اورنجد دراصل زمین کی سطح مرتفع کا نام ہے اوریہ لفظ غور)پستی( کے برعکس ہے،غور پستی کو کہتے ہیں۔."  حالانکہ خطابی کے اس قول سے جہمور آئمہ کرام نے اختلاف کیاہے کیونکہ جمہور آئمہ کرام کی نظر میں عراق مشرق میں نہیں ہے.

جیساکہ علامہ مالکی اس حدیث (نجد) کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
 مشرق سے مراد مدینہ کا مشرق ہے اور وہ نجد ہے، اسی طرح تبوک کے مشرق میں بھی نجد ہی ہے نیز اسکی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیاکہ وہاں سے زلزلے اور فتنے ہونگے اور شیطان کا سینگ وہی سے نکلے گا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ : اے اللہ! مضر کو سختی سے کچل دے اور مضر نجد میں ہے۔.
اکمال المعلم ج 1 ص 159
(مضرنجد ریاض میں رہتا ہےجسکی ایک بڑی شاخ بنو تمیم ہے)

علامہ بدرالدین عینی "عمدۃ القاری" شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں کہ
 "نجد عرب کا ایک علاقہ ہے اور تہامہ سے لیکر ارض عراق تک کا علاقہ نجد ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ عراق اور وجرہ اور غمرۃ الطائف کے درمیان والا علاقہ نجد ہے۔ عباب میں لکھا ہے کہ غور یعنی تہامہ کے برخلاف عرب کا وہ سارا بلند علاقہ جو تہامہ سے لیکر ارض عراق تک ہے نجد ہے۔
(امام بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 1، ص 266۔)


امام بدرالدین عینی شارح صحیح بخاری نجد کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہیں کہ:
قلت النجد الناحيّتہ التي  بين الحجاز والعراق۔
ميں کہتا ہوں کہ حجاز و عراق کے درميان کے علاقے کا نام نجد ہے۔
(عمدتہ القاري ص 266/1)

علامہ کرمانی نے علامہ عینی کا قول نقل کیا ہے
تہامہ سے جو اونچی زمین کا علاقہ ہے یہی وہ نجد ہے جو رآس الکفر(کفر کا سرچشمہ) اور نجد قرن الشیطان (گمراہ فرقوں کی ) کی جائے پیدائش ہے۔ ص 35۔
نجد قرن الشیطان وہ خطہ زمین ہے جس کی حد تہامہ حجاز سے شروع ہوکر عراق کے نیچان (غور یا ڈھلان) پر ختم ہوجاتی ہے۔ ص 36۔


علامہ  محمد طاہر فتنی حنفی کا قول
 اس حدیث (نجد قرن الشیطان) کا معنی بیان کرتے ہوئے نجدقرن شیطان کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :
"ھو اسم خاص لماذون الحجاز ممایلی العراق"
 یعنی یہ ایک خاص جگہ کا نام ہے جو حجاز کے علاوہ عراق  کے ساتھ ملتی ہے۔
(مجمع بحار الانوار صفحہ 680، جلد 4)
درج بالا ترجمہ سلفیوں کا ہے. اور یہ حوالہ سلفیوں کی بہت سی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے. حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سلفی ہمیشہ سے بارہ نجدوں کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں لیکن خود علامہ طاہر حنفی فتنی کا قول نقل فرماتے ہیں جن کی وضع کردہ تعریف کے مطابق نجد ایک مخصوص جگہ کا نام ہے جو عراق اور حجاز کے درمیان واقع یے.
  اس سے ثابت ہوا کہ عراق نجد نہیں بلکہ نجد کی سرحدیں عراق سے ملتی ہیں۔

علامہ احمد خطیب قسطلانی  بخاری کے مستند شارحین میں سے ہیں، لکھتے ہیں کہ
 یعنی سرزمین تہامہ سے لیکر عراق تک جو بلند علامہ ہے وہ نجد ہے۔
(احمد بن محمد خطیب قسطلانی، ارشاد الساری، جلد 2، صفحہ 212)۔
جمہور آئمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں ثابت ہواکہ نجد عراق اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جس کی سرحدیں عراق مدینہ، مکہ، یمن اور شام سے ملتی ہیں۔ نجد کے لئے قرن (یعنی سینگ کا نام) میقات کے لئے رکھ کر صاف فرما دیاکہ یہی شیطان  کے سینگ والا نجد ہے ۔جو نجد ریاض ہے  اور اس کا رقبہ تقریبا تیرہ لاکھ نوے ہزار مربع فٹ ہے

5: عراق کے لغوی معنی

مشہور عراق کئی شہروں پر مشتمل ہے، عراقن بول کر کوفہ اور بصرہ مراد لیتے ہیں، عراق کو عراق اس لئے کہتے ہیں کہ یہ عراق القربتہ سے ماخوذ ہے، مشکیزے کے نیچے والا سوراخ غرض جسے دوہرا کیا جاتا ہےکہ عرب کی سرزمین کی نسبت گہرائی میں واقع ہے اور سطح سمندر کے قریب واقع ہے۔ 
ابوالقاسمی زجاجی فرماتے ہیں کہ
ابن اعرابی نے کہا ہے کہ عراق کو عراق کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ نجد کی نسبت پست و نشیت علاقہ ہے اور سمندر کے قریب ہے۔ یہ عراق القربتہ سے ماخوذ ہے یعنی مشکیزے کے نیچے والا سوراخ۔
(علامہ یاقوت حموی، معجم البلدان، ص 93)
عراق کی لغوی تعریف سے یہ واضح ہواکہ عراق پست اور نیچی زمین کو کہتے ہیں جو سطح سمندر کے قریب تر ہو اور نجد ابھری ہوئی زمین کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

6: احادیث میقات میں نجد اور عراق کا بیان


میقات کے حوالے سے سینکڑوں احادیث ہیں لیکن ہم دو احادیث پیش کرتے ہیں تاکہ نقطہ نظر سمجھ آ جائے.
حدیث
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اہل نجد کے لئے قرن اور اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل مدینہ کے لئے  ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ میں نے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے اور مجھے خبر ملی ہے کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اہل یمن کے لئے یلملم ہے تو عراق کا ذکر ہوا تو انہوں فرمایا کہ اس زمانے میں عراق نہیں تھا۔ (یعنی اس زمانے میں عراق فتح نہیں ہوا تھا)۔
صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 1930، حدیث 2200۔
پتہ چلاکہ اس وقت عراق فتح نہیں ہوا تھا۔


جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے مدمقابل کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان (اہل عراق) کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔
(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1531).
  اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اہل عراق کے لیے میقات کا تعین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیونکہ اہل عراق کے لیے نجد کا میقات "قرن" نہیں تھا بلکہ  بہت دور تھا اور وہ اہل عراق کے راستے میں نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے انہیں اگر اہل نجد والا میقات اپنانا پڑتا تو انہیں بہت مشکل ہوتی۔. لہذا انکے لیے ذات "عرق "میقات مقرر کیا گیا. پس ثابت ہواکہ عراق اور نجد دو مختلف علاقے ہیں. نجد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تھا جسکے لیے میقات مقرر فرما دیا جبکہ عراق اس دور میں نہیں تھا جس وجہ سے اسکے لیے میقات مقرر نہیں کیاگیا.

میقات کے حوالے ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ کا قول:
فان لاھل الیمن  اذا قصد  وا مکۃ طریقان احداھما طریق اھل الجبال  وھم یصلون  الی قرن او یحاذونہ فھو میقاتھم "کما ھو میقات  اھل مشرق"۔
یمن والوں کے لئے مکہ مکرمہ آنے کے دو راستے ہیں  ایک راستہ پہاڑی لوگوں کا ہے وہ قرن یا اسکے محاذی  مقام سے ہوکر مکہ شریف آتے ہیں۔ یہی انکا میقات ہے جیساکہ یہ مشرق والوں کا میقات ہے۔
(فتح الباری، جلد 3، 382)۔

تبصرہ: یمن کے قریب نجد ریاض ہے جبکہ عراق اور یمن کے درمیان ریاض ہے۔ سو یمن والے اہل مشرق یعنی ریاض والوں کے میقات قرن کے راستے سے بھی آتے تھے۔
7: احادیث کثیرہ سے نجد واحد کا ثابت ہونا

اب ہم احادیث سے نجد کو ایک مخصوص علاقہ ثابت کرتے ہیں۔ نجد بھی ایک مخصوص علاقہ ہے جیسے شام اور یمن ہیں۔
Hadees Najd:
Amr ibn Abasa said: ‘Allah’s Messenger (s.w.s.) was one day reviewing the horses, in the company of Uyayna ibn Hisn ibn Badr al-Fazari. [. . .] Uyayna remarked: "The best of men are those who bear their swords on their shoulders, and carry their lances in the woven stocks of their horses, wearing cloaks, and are the people of the Najd." But Allah’s Messenger (s.w.s.) replied: "You lie! Rather, the best of men are the men of the Yemen. Faith is a Yemeni, the Yemen of [the tribes of] Lakhm and Judham and Amila. [. . .] Hadramawt is better than the tribe of Harith; one tribe is better than another; another is worse [. . .] My Lord commanded me to curse Quraysh, and I cursed them, but he then commanded me to bless them twice, and I did so [. . .] Aslam and Ghifar, and their associates of Juhaina, are better than Asad and Tamim and Ghatafan and Hawazin, in the sight of Allah on the Day of Rising. [. . .] The most numerous tribe in the Garden shall be [the Yemeni tribes of] Madhhij and Ma’kul.
’ (Ahmad ibn Hanbal and al-Tabarani, by sound narrators. Cited in Ali ibn Abu Bakr al-Haythami, Majma al-zawa’id wa manba‘ 
al-fawa’id [Cairo, 1352], X, 43 

غزوہ نجد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیا کہ کیا آپ نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ نماز خوف اد کی ہے؟  فرمایا "ہاں"۔ اس نے پوچھاکب؟ انہوں نے فرمایاکہ غزوہ نجد میں۔ مکمل حدیث کےلئے ریفرنس
نسائی شریف، جلد1، صفحہ 1318، حدیث 1546، باب صلوۃ الخوف
اگر یہ غزوہ عراق کے کسی نجد میں وقوع پذیر ہوتا تو کوفہ، بصرہ یا طبرستان کا نام ضرور آتا لیکن نہیں آیا کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے عراق کے خلاف جنگ نہیں کی تھی ۔ اور بیشتر 

غزوات اور سریے اہل نجد کے خلاف لڑے۔

باب نجد کی طرف جو لشکر  حضور علیہ السلام  نے روانہ فرمایا تھا
حضرت امام بخاری نے اس کو جنگ طائف کے بعد ذکر کیا ہے لیکن اہل مغازی نے کہا ہے کہ یہ لشکر فتح مکہ کو جانے سے پہلے  روانہ کیا تھا۔ ابن سعد نے کہاکہ یہ 8 ہجری کے ماہ شعبان کا واقعہ ہے، بعضوں نے کہا ماہ رمضان میں یہ لشکر روانہ کیا تھا، اس کے سردار ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس میں صرف 25 آدمی تھے جنہوں نے غطفان سے مقابلہ میں 200 اونٹ اور 2000 بکریاں حاصل کیں۔
(صحیح بخاری، جلد 8، باب نجد کا سریہ، حدیث 4338)
غطفان اسی علاقے میں بستا ہے جو مدینہ کی حدود سے لیکر عراق کی حدود تک آتا ہے۔


بنو حنیفہ نجد کی جانب چند سواروں کو بھیجا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے نجد کی جانب کچھ سواروں کو روانہ فرمایا تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے لے آئے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھا۔ ۔۔مکمل حدیث کے لئے حوالہ
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 690، حدیث 538،باب 1500)


بنی تمیم کی شاخ بنی عنبر
ابن اسحاق کا قول ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر کو رسول خدا نے بنی تمیم کی شاخ بنی عنبر سے جہاد کرنے بھیجا، انہوں نے شب خون مار کر مرد قتل کردئیے اور عورتوں کو قید کرلیا۔
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 687، باب 536)
یہ  غزوات اور سریے موجودہ نجد ریاض میں وقوع پذیر ہوئے تھے جو لاکھوں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اور ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس نجد کے خلاف غزوات ہوئے اور سریے ہوئے وہی نجد قرن الشیطان  ہے اور وہ سعودی عرب میں واقع ہے.

8: تاریخی کتب سے نجد واحد کا ثابت ہونا
اب ہم تاریخی واقعات سے ثابت کرتے ہیں کہ نجد صرف ایک مخصوص علاقہ ہے اور جس نجد سے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانے میں ہی بہت زیادہ فتنے نکلے تھے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسکے لئے دعا بھی نہیں کی۔

درج ذیل میں تاریخی واقعات درج ہیں۔


شیطان نے بھی نجد ریاض کا ہی شیخ بننا پسند کیا

مشرکوں نے جب دیکھاکہ مسلمانوں نے اپنی عورتیں اور بچے قبائل اوس و خزرج کے ہاں بھیج (مدینہ میں) دیئے تو سمجھ گئے کہ یہ صاحب اثر لوگ ہیں، اب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بھی وہی چلے جائيں گے۔ سب کے سب دارالندوہ میں جمع ہوئے، جتنے دانشمند اور صاحب الرائے تھے سب نے شرکت کی کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے معاملے میں باہم مشورہ کریں۔ نجد کے ایک بوڑھے کی شکل میں ایک شخص یہاں آیا کہ تلوار لٹک رہی تھی، موٹے کپڑے تھے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے متعلق بحث چھیڑی، ہر شخص نے اپنی رائے کے مطابق مشورہ دیا، ہر ایک کی رائے کو ابلیس رد کرتا تھا، کسی کی رائے کو پسند نہ کیا۔
ابوجہل نے کہاکہ میری رائے یہ ہے کہ ہم قریش کے ہر ہر قبیلے کا ایک ایک شخص لے لیں جو بہادر اور دلیر ہو، پھر اسے ایک تیز تلوار دے دیں تاکہ یہ سب مل کر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ماریں تاکہ آپ کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے اور بنی عبدمناف کی سمجھ میں بھی نہ آئےگا کہ اسکے بعد وہ کیا کریں۔ وہ  نجدی (ابلیس) کہنے لگاکہ اس نوجوان(ابوجہل) کی خوبی اللہ ہی کےلئے ہے۔ واللہ رائے تو یہی صاحب ہے ورنہ پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفجہ 234)۔
حتی کہ شیطان نے بھی نجدی بننا پسند کیا ہے۔ عراق کو نجد کہنے والے بتاسکتے ہیں کہ شیطان مردود کون سے نجد کا بن کر آیا تھا، نجد عراق یا نجد ریاض؟

اسلام اور نجدی باشندے
دانش گاہ پنجاب کا مطبوعہ اردو دائرہ معارف الاسلامیہ ملاحظہ ہو لکھتے ہیں کہ:
عہدی نبوی میں اس علاقے کے تعلقات اسلام کے ساتھ تقریبا آخر تک کھینچے ہی رہے۔ قبل از ہجرت ایک حج کے موقع پر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب کوئي پندرہ قبائل کے لوگوں سے یکے بعد دیگرے اس کی خواہش کی کہ آپ کو اپنے گھر لے چلیں تو بنو حنیفہ کے نجدی ہی سب سے زیادہ درشت اور بداخلاق ثابت ہوئے تھے۔ (ابن ہشام ص 283)

 
غزوہ غطفان نجد بحوالہ طبقات ابن سعد
ہجرت کے پچیسویں مہینے میں ربیع الاول میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا  نجد کی طرف غزوہ غطفان ہے جو التحیل کے نواح میں ذوی امر میں ہے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچی کہ بنی ثعلبہ و محارب کی ایک بڑی جماعت نے ذوی امر میں جمع ہوکر یہ قصد کیا ہے کہ وہ آپ کو تمام اطراف سے گھیر لیں، یہ فعل بنی محارب کے ایک آدمی ہے جس کا نام دہتور(دھاتور) بن الحارس ہے۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 271)

درج ذیل ہم ایک اور حوالے سے تفصیل دے رہے ہیں۔

قاریوں کی جماعت کی شہادت، یا واقعہ بئیر معونہ
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے 70 آدمیوں کی ایک جماعت  جسے قراء یعنی قاریوں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، مدینہ کے گردونواح میں  اس وقت تک نازل شدہ قرآن کی تعلیم کے لئے بھیجی تھی لیکن جب  وہ اس جگہ پہنچے تھے جسے بئیر معونہ کہا جاتا ہے تو بنی سلیم نے علم القرآن  سے انہیں روکا تھا اور جب انہوں نے کہا تھا کہ ہم نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے حکم سے یہاں آئے ہیں تو ان دشمنان اسلام نے اس پوری جماعت کو شہید کردیا۔ کہا جاتا ہے اور اسکی تائيد اکثر اہل خبر نے کی ہے کہ ابو براء عامر بن مالک بن جعفر نے حضور علیہ السّلام کی خدمت میں  حاضر ہوکر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم دعوت دینے والوں کو اہل نجد کی طرف روانہ فرمائيں تو اسے یقین ہے کہ وہ اسلام قبول کرکے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مطیع ہوجائيں گے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسے اسلام کی دعوت دی تھی لیکن وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا، تاہم آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسکے مذکورہ بالا مشورے کے بعد "اہل نجد" کے اسلام لانے اور اطاعت قبول کرنےکے بارے میں اندیشہ ظاہر کیا تھا تو البراء عامر بن مالک نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیا تھا کہ اہل نجد اسکے ہمسائے ہیں وہ اسکی بات ٹالیں گے۔
(البدایہ والنھایہ، جلد 4، صفحہ55،56)

سریہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنی کلاب کی جانب نجد کے مقام پر ہوا
شعبان 7 ہجری میں ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ضریہ کے نواح میں بمقام نجد سریہ بنی کلاب ہوا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 340)


امام بخاری وفد بنی حنیفہ اور قصہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ کے باب میں بیان کرتے ہیں کہ:
 عبداللہ بن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا کہ اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سناء ، وہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کی جانب کچھ سوار بھیجے، جو بنی حنیفہ کے ایک آدمی کو لائے جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا اور انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے  اسکے پاس آکر فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لمبا واقعہ ہیں۔

تفصیل کےلئے حوالہ چیک کریں۔
(البدایہ والنھایہ ، جلد 5، صفحہ 79)
حضرت ابو قتادہ بن رباعی  انصاری رضی اللہ عنہ کا شعبان سن 8 ہجری میں مقام خضر کی طرف سریا
یہ جگہ نجد میں بنو محارب کی زمین ہے۔ نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انکے ہمراہ پندرہ 15 افراد بنو غطفان کی طرف بھیجے۔
(المواہب الدنیاء جلد 1، صفحہ 406)

سریہ غالب بن عبداللہ اللیثی بجانب المفیعہ
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے غالب بنی عبداللہ کو بنی عوال اور بنی عبد بن ثعلبہ کی طرف بھیجا جو المفیعہ  میں تھے جو بطن نخل  سے النقرہ کی جانب علاقہ نجد میں ہے، اسکے اور مدینے کے درمیان آٹھ برد (96 میل) کا فاصلہ ہے۔
طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 241)
  1. سریہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا سریہ القروہ کی جانب ہجرت کی اٹھائيسویں مہینے کے شروع جمادی الآخر میں پیش آیا۔ جس میں زید امیر بن کر نکلے ، القروہ نجد کی الزبدہ اور الغمرہ کے درمیان  ذات عرق کے نواح میں ہے۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 272)



  • سریہ المندر بن عمرو
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہجرت کے چھتیسویں مہینے صفر میں بئیرمعونہ کی طرف المندر بن عمرو السعدی کا سریہ ہوا۔ عامر بن جعفر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ہدیہ دیا مگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے  قبول نہیں فرمایا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس پر اسلام پیش کیا، مگر اس نے اسلام قبول نہیں کیا اور دور بھی نہیں ہوا۔
عامر نے درخواست کی کہ اگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  اصحاب میں سے چند آدمی میرے ہمراہ میری قوم کے پاس بھیج دیں تو امید ہے کہ وہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعوت قبول کرلینگے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ مجھے اہل نجد کا خوف ہے۔ اس نے کہا میں تو ان کے ہمراہ ہوں پھر کیسے کوئی انکے سامنے آئيگا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 285)
یعنی کہ اہل نجد کے فتنہ پرور ہونے کی وجہ سے انکو خوف تھا۔ ان کی شرانگیزیوں کا پتہ تھا اسی لئے انہوں نے خوف کا اظہار کیا اور انہی افعال کی وجہ سے نجد کےلئے دعا بھی  نہیں فرمائی۔


غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ نجد، قبیلہ محارب کہاں پر ہے
غزوہ ذات الرقاع قبیلہ محارب سے ہوا جو قبیلہ غطفان کی ایک شاخ ہے۔ حضور علیہ السلام  نخل سے ذات الرقاع کی لڑائی میں گئے وہاں غطفان ملے لیکن لڑائی نہ ہوئی۔
غزوہ نجد
حضرت جابر رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا تھا۔
(صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 1305)


بنو حنیفہ نجد میں ہے
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کی طرف کچھ سواروں کو بھیجا، وہ بنی حنیفہ کے آدمی ثمامہ بن اثال کو پکڑ کر لائے۔ فل حدیث کے لئے حوالہ چیک کریں۔
(صحیح بخاری، ، جلد 2، صفحہ 1470، حدیث 1505)


تبصرہ
جس نجد کے لئے دعا نہ فرمائی اور کسی نے نجد کی تعریف  کی تو فرمایا کہ تم نے جھوٹ کہا  اور جس نجد کے خلاف غزوہ میں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود شرکت کی اور اپنے اصحاب کو بار بار لشکر دیکر بھیجا ہو اور جس نجد کے لوگوں سے لڑتے لڑتے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی گزری وہ نجد سعودی عرب ہے جس کے مرکز میں اب ریاض شہر آباد ہے۔ 
صحیح احادیث، تاریخی واقعات اور اقوال آئمہ کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ  نجد عراق نہیں بلکہ وہ خطہ زمین ہے جس میں سعودی دارالحکومت ریاض واقع ہے۔

9: بنی مضر اور بنی ربیعہ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں
بنی مضر اور ربیعہ نجد میں رہتے ہیں۔ جو عراق اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔
10: بنی مضر اور بنی ربیعہ کا تاریخی پس منظر
مضر بن نزار اور ربیعہ
اسکا ایک حقیقی بھائی عیاد تھا اور دو علاتی بھائی ربیعہ اور انمار تھے۔ جب نزار بن معد کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور اپنے مال کو ان میں تقسیم کردیا، اپنے بیٹوں کو مخاطب کرکے کہاکہ
"خیمہ جو سرخ چمڑیا کا تھا  اور اس طرح کا دوسرا مال یہ مضر کا ہے،  اس وجہ سے مضر کا نام مضر الحمراء ہوا۔

"یہ میرا سیاہ شامیانہ  اور اس رنگ کا دوسرا مال ربیعہ کا ہے۔، چونکہ سیاہ گھوڑا ملا اس لئے اس کا نام ربیعۃ الفرس ہوا۔
"اور یہ خادم اور اسکے مشابہ میرا مال  ہے وہ عیاد کا ہے، یہ بھورے رنگ کا تھا چنانچہ ابلق جانور اور کھرگاسی بھیڑ بکریاں لے لیں۔
(تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 41)


  1. سرخ خیمہ, دینار اور اونٹ جو سرخ تھے وہ مضر کو دئیے
  2. اور سیاہ شامیانہ اور سیاہ گھوڑے ربیعہ کو دئیے انکے باپ نے.
  3. (تاریخ طبری, جلد1 صفحہ 42)
بنو مضر اونٹ والے قرار پائے اور بنو ربیعہ گھوڑے والے قرار پائے۔ جیسا کہ آگے احادیث میں بھی اونٹ اور گھوڑے والوں کا ذکر آئيگا۔

11: بنی مضر کے قبل از اسلام اخلاقی حالات
اگرچہ قریش کو مکہ میں ایک حکومت حاصل ہوگئی اور قبائل مضر اطراف و جوانب ممالک کو شام و عراق میں اور کچھ حجاز میں منتشر و متفرق ہوگئے۔ اور بعض ان میں بادیہ نشین و خانہ بدوش ہوگئے، اور بعض اسباب عشرت اور سامان تمدن کی فراہمی میں مصروف ہوئے۔
 کبھی یہ فارس و روم سے عراق و شام میں لڑتے نظر آتے تھے اور کبھی اپنی حدود کی حفاظت کی غرض سے اپنی قوم کو جمع کرکے اہل عراق و شام سے مقابلہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان  لڑائيوں میں اور خون ریزيوں میں کبھی یہ مغلوب ہوکر خراج گزاری پر مجبور ہوجاتے تھے لیکن جب کبھی پھر کوئی موقع ہاتھ آ جاتا تھا تو خراج گزاری، اطاعت شاہی سے منحرف ہوکر مخالفت کربیٹھتے تھے۔
الغرض ٹھنڈے کلیجے  نہ یہ خود پانی پیتے تھے اور نہ پینے دیتے تھے۔ ہمیشہ شاہان عراق  و شام  کو استیصال، فساد و افتاء نیرا فتنہ میں رہنا پڑتا تھا۔

(تاریخ ابن خلدون، جلد 1، صفحہ 31)

بنی مضر کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلاکہ قبیلہ مضر کی وجہ سے اہل عراق و شام ہمیشہ فتنے میں مبتلاء رہتے تھے۔ بنو مضر والے نہ خود چین سے رہتے تھے اور نہ کسی کو رہنے دیتے تھے۔ یہ بات واضع ہوئی کہ یہ قبیلے نجد میں ہی رہتے تھے اور یہاں سے ہی وہ ااہل عراق اور اہل شام کے خلاف فساد بپاء کئے رہتے تھے کیونکہ نجد کی حدود شام اور عراق کیساتھ لگتی ہیں۔ فتح عراق کے بعد بنو مضر اور ربیعہ کے قبیلوں کی بڑی تعداد عراق میں جابسی تھی۔

12: احادیث کی روشنی میں بنی مضراور بنی ربیعہ کے مراکز کا تعین 
ایک لمبی حدیث کا ایک حصہ بیان کرتے ہیں جو قبیلہ قیس کے لوگوں کے حوالے سے ہے
یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! ہم صرف حرمت والے مہینوں میں ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 13)
حدیث
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ وفد عبدالقیس نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا:
یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! ہم ربیعہ کا قبیلہ ہیں اور کفار مضر ہمارے اور آپ کے درمیان رکاوٹ ہیں، لہذا ہم آپ کی خدمت میں سوائے شہرحرم کے نہیں آ سکتے ہیں۔
مکمل حدیث کے لئے ریفرنس دیکھیں
(صحیح بخاری، حدیث 1502، صفحہ 1467)
ان حادیث میں بتایا گیا کہ قبیلہ قیس کے لوگوں اور مدینہ والوں کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل تھا، اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ قبیلہ قیس کے لوگ کہاں کے رہنے والے تھے، قبیلہ قیس بنی ربیعہ کی ایک شاخ ہے۔
حدیث شریف
اے اللہ! عبدل قیس کی مغفرت فرماکہ یہ رضامندی سے کسی کے جبر کے بغیر مسلمان ہوگئے ہیں، اب یہ شرمندہ ہونگے اور نہ ہی ہلاک جبکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتے جب تک رسوا اور ہلاک نہ ہوجائيں،پھر نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے چہرے کا رخ موڑتے ہوئے قبلہ کی جانب کیا اور فرمایاکہ اہل مشرق میں سب سے بہترین لوگ بنو عبدالقیس ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 7، صفحہ 360، حدیث 17983)
یہ وفد بحرین کا رہنے والا تھا یعنی کہ مدینہ کے مشرق میں بحرین آتا ہے۔



اسکی شرح میں ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ :
اس میں دلیل ہے کہ قبیلہ عبدالقیس قبائل مضر سے پہلے مسلمان ہوا تھا اور عبدالقیس کا علاقہ بحرین اور عراق کی اطراف سے اسکے  ساتھ ملنے والے علاقے تھے۔
(فتح الباری، جلد 1، صفحہ 132)


امام نووی قبیلہ عبدل قیس کے بارے میں اپنی شرح میں لکھتے ہیں کہ : 
اہل مشرق میں سے افضل عبدالقیس کا وفد تمہارے پاس پہنچ چکا ہے۔ ان میں اشحج عصری بھی ہیں، وہ عہد توڑنے اور تبدیل کرنے والے نہیں اور نہ ہی شک کرنے والے ہیں کیونکہ قوم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی یہاں تک کہ وہ ان سے تنہا ہوگئے ہیں۔
(شرح صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 33)
علامہ بدرالدین عینی اسکی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
ربیعہ(عبدالقیس) اور مدینہ کے درمیان کفار کا قبیلہ مضر آباد تھا اور ربیعہ کے لوگوں کو مدینہ آتے وقت مضر سے گزر کر آنا پڑتاتھا۔

(عمدۃ القاری، جلد 1، صفحہ 305)
احادیث اور آئمہ کرام کی شرح سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قبیلہ قیس مشرق میں ہے اور قبیلہ قیس کے لوگ عراق کے بارڈر کے علاقے اور ملک بحرین میں آباد تھے۔ بحرین میں بنو ربیعہ کی شاخ قبیلہ عبدالقیس آباد تھا جسے قبیلہ قیس بھی کہا جاتا ہے۔ قبیلہ قیس کے رہائشی علاقے کی تصدیق اس حدیث سے ہوجاتی ہے. 
حدیث شریف
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مسجد میں جمعہ کی نماز ہونے کے بعد، سب سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کی گئی وہ (مقام) جواثی میں عبدل القیس کی مسجد ہے۔ جواثی بحرین میں ایک جگہ کا نام ہے۔
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 1469، حدیث 1504)
قبیلہ قیس بہت بڑا  قبیلہ تھا جو بحرین میں رہتا تھا۔
(المواہب لدنیا، صفحہ 652، جلد 1)

اس نقشے کے مطابق مدینہ کے مشرق قریب میں معونہ، بنوسعد، بنو غطفان، بنو اسد، بنو مرہ، بنو سلیم کے قبائل دکھائے گئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے عین مشرق بعید میں بنوتمیم کا علاقہ ظاہر کیاگیا ہے، بنو تمیم کے شمال میں بنو عامر اور جنوب میں حنیفہ کا علاقہ بتایاگیا ہے۔
 

13: بنو تمیم کا شجرہ نسب سلفیوں کی زبانی
(بنومضر کی بڑي شاخ)

بنی تمیم کا حسب و نسب
عدنان
سعد
سعد سے دو شاخيں
1: مضر
2: ربیعہ
مضر کی شاخیں
1: قبیس ایلان
2: تمیم
3: خزیعہ
ربیعہ کی شاخيں
1: وائل
2: عنزہ
وائل کی دو شاخيں
1: ثعلبہ
2: بکر
(المنجد، حصہ تاریخ، صفحہ 458)
اس شجرہ نسب میں کئی قبائل کے نام شامل نہیں ہیں مثلا بنو قیس وغیرہ لیکن پھر بھی ہم سلفیوں کی وضع کی گئی تعریف کو مان لیتے ہیں۔
اس حوالے سے علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ:
تمیم بنو مضر کا بہت بڑا قبیلہ ہے، یہ تمیم بن مر بن عدبان بن طبخہ بن الیاس  بن مضر کی طرف منسوب ہے۔
(عمدۃ القاری، جلد 13، صفحہ 104، صفحہ 83 جلد 8)


14: بنی تمیم کہاں رہتی ہے

بنو تمیم نجد میں ہی رہنے والی ہے
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کے سرداروں حضرت اقرع بن م حابس، حضرت عینیہ بن بدر اور انکے دیگر ساتھیوں کو سونا عطا کیا۔
اسکی شرح میں علامہ بدر الدین عینی نجد کے سردار حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ  عطارد بن حاجب کے ساتھ بنی تمیم کے اشراف کیساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔
(عمدۃ القاری، جلد 15، صفحہ 229)۔ نجد کے سرداروں میں ایک اقرع بن حابس تھے جو قبیلہ بنوتمیم سے تعلق رکھتے تھے۔



علامہ بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری خوارج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
یہ (ذوالخویصرہ کی نسل کے) لوگ نجد کے اس مقام سے نکلے جہاں بنو تمیم آباد ہیں۔
(عمدۃ القاری، جلد 24، صفحہ 90)
حدیث اور شرح سے واضع ہواکہ بنو تمیم کا قبیلہ نجد کا رہنے والا تھا اور اسی قبیلے سے پہلا گستاخ رسول  ذوالخویصرہ تمیمی نکلا تھا جس کی نسل سے فتنہ پروروں کے نکلنے کی نشاندہی فرمائي ۔
حدیث
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت عینیہ بن حصن فزاری رضی اللہ عنہ کو بنوتمیم کی طرف مقام السقیاء میں بھیجا اور یہ بنوتمیم کی سرزمین ہے۔ آپ محرم الحرام کی سن 9 ہجری میں پچاس 50 عربی شاہ سواروں کو لیکر تشریف لے گئے تھے، جن میں کوئی مہاجر اور انصار نہیں تھے۔ ۔۔۔۔۔ ان سواروں نے صحراء میں بنو تمیم کے لوگوں پر اچانک حملہ کیا۔ تفصیل کے لئے:
(طبقات ابن سعد، جلد 3، صفحہ 160)

 اہل نجد کے بنو تمیم و دیگر مضر کے قبائل سے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کافی غزوات و سریا کئے۔ بادیہ نشین یعنی صحرانشینی بھی بنی تمیم کا طرہ امتیاز تھا.
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے غزوات اور سریا کی کل تعداد 82 بیاسی ہے۔ قاضی سلمان منصور پوری نے لکھا: اور ان میں سے 23 تئیس غزوات و سریا قبائل نجد کے ساتھ پیش آئے۔ پتہ چلاکہ بنوتمیم نجد میں رہتی تھی۔

15: کفر مشرقی ہے, مشرق والوں سے کون لوگ مراد ہیں, احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں.
حدیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ ایمان یمانی ہے اور کفر مشرقی ہے۔ بکریوں والوں کے لئے سکون و اطمینان ہے جبکہ اونٹ اور گھوڑے والوں میں تکبر، غرور اور درشتگی پائی جاتی ہے، اور دجال جب احد کے پیچھے پہنچے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف موڑ دینگے، جہاں وہ ہلاک ہوگا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(جامع الترمذی، جلد 2، صفحہ 139، حدیث 124)
نوٹ: درج بالا حدیث میں پہلے بتایاگیا کہ ایمان اہل یمن والوں میں ہےاورکفر مشرق والوں ہیں ہے۔ پھرمشرق والوں یعنی بنی ربیعہ اور بنو مضرکے کفر کی یہ وجوہات بتائي گئيں کہ وہ تکبر و غرور کرنے والے ہیں اور درشت ہیں یعنی سخت دل ہیں۔ جبکہ احادیث میں آتا ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر غرور ہو وہ جنت میں نہیں جائيگا، یعنی غرور بھی کفرہے ۔اور اللہ اچھے اخلاق والوں کو پسند کرتا ہے جبکہ بداخلاق لوگوں کو ناپسند کرتا ہے۔ 
کچھ لوگ درج ذیل حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ اہل مشرق کا میقات ذات عرق تھا
 درج بالا حدیث کو البوصیری رحمۃ اللہ نے ابراہیم بن یزید الخوزی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابراہیم بن یزید پر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں جرح کی ہے لکھتے ہیں کہ
قال احمد: متروک الحدیث
وقال ابن معین: لیس بثقۃ، ولیس بشئ
وقال ابوزرعۃ وابوحاتم: منکرالحدیث، ضعیف الحدیث
وقال البخاری: سکتوا عنہ
قال الدولابی: یعنی ترکوہ
وقال النسائي: متروک الحدیث
امام ابن حجر العسقلانی التقریب میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
ابراہیم بن یزید الخوزی- بضم المعجمۃ وبالزای- ابواسماعیل المکی، مولی بنی، امیۃ، متروک الحدیث

اس حدیث کو ضعیف قرار دیاگیا جس میں اہل مشرق کے لئے میقات ذات عرق مقرر فرمایاگیا ہے۔ جبکہ ہم نے پہلے بھی احادیث پیش کیں جن میں اہل مشرق قبیلہ قیس والوں کو فرمایاگیا۔ جبکہ ہم درج ذیل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے ثابت کریں گے کہ اہل مشرق کون سے قبیلوں کو کہاگیا ہے۔
 

حدیث
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے تو آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایاکہ فتنہ یہاں ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔ اسے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دو یا تین مرتبہ دوہرایا۔ اور عبیداللہ بن سعید نے اپنی روایت میں آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس کھڑے تھے۔
(صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 1836، حدیث 2796)

حدیث
حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دو مرتبہ یہ دعا فرمائی کہ" اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت نازل فرما، ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ! ہمارے مشرق کے لئے بھی دعا فرمائيے، نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے اور دس میں سے نو فیصد شر یہی ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث 7094، ابن حبان 7301)

حدیث
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ کفر کا مرکز مشرق کی طرف ہے، فخر و تکبر گھوڑے والوں میں اور اونٹ والوں میں ہے جن کے دل سخت ہیں  اور نرمی، اخلاقی اور مسکینی بکری والوں میں ہے۔
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ ایمان تو یمن والوں میں ہے اور کفر مشرق کی طرف ہے اور بکری والوں میں مسکینی، نرم مزاجی ہوتی ہے اور  غرور اور ریاکاری، سخت مزاجی اور بد اخلاقی گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں ہے۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 186/187، حدیث 187/188)

 
حدیث
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ دلوں کی سختی اور سخت مزاجی مشرق والوں میں ہے، ایمان حجاز والوں میں ہے۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 192، حدیث 195)

حدیث
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یمن کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاکہ ایمان یمانی ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ فتنہ اور سنگدلی اونٹوں کی دموں کے قریب رہنے والوں مضر اور ربیعہ میں ہے جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے۔
(صحیح مسلم، صفحہ 52، جلد 1، بخاری 466، جلد 1)
نوٹ: اس حدیث میں نشاندہی کردی گئی کہ سنگدل، درشت لوگ بنی مضر اور بنی ربیعہ کے ہیں اور یہاں سے ہی شیطان کے دو سینگ نکلیں گے۔
 

حدیثحضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے یمن کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو یہاں (یمن میں) ہے اور سختی اور سنگدلی ربیعہ اور مضر اونٹوں والوں میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے ہانکتے چلے جاتے ہیں، جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے یعنی قبیلہ ربیعہ اور مضر۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 184، حدیث 183)



حدیث:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہوسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ  (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔
صحیح بخاری 2598/6، حدیث 6681۔

حدیث شریف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ یمن والے آگئے ہیں یہ لوگ نہایت نرم دل اور کمزور دل ہیں، ایمان بھی یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی اور مسکینی بکری والوں میں اور فخرو غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں (یعنی ربیعہ اور مضر)
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 189، حدیث 191)


نوٹ

درج بالا احادیث میں اہل مشرق یعنی بنو مضر و بنو ربیعہ کی ان خرابیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان میں "فخر و تکبر, درشتگی, دلوں کی سختی, ریاکاری, سخت مزاجی, بداخلاقی پائی جاتی ہے.
ان خرابیوں کا قرآن میں بھی ذکر آیا ہےجیساکہ فخروتکبر کے بارے میں فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶
بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو ۔ 
 
"وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا
"قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُلٌّ فِیۡہَاۤ ۙ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ حَکَمَ بَیۡنَ الۡعِبَادِ ﴿۴۸﴾
تکبر کرنے والے کہیں گے: ہم سب ہی اسی (دوزخ) میں پڑے ہیں بے شک اللہ نے بندوں کے درمیان حتمی فیصلہ فرما دیا ہے۔
حدیث:حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متکبر آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا اور نہ وہ جو جھوٹی شیخی بگھارتا ہے۔ (ابو داؤد)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم) 

 درشتگی اور بداخلاقی کے بارے میں
حدیث: حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر2101)
حدیث :حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: سخت گو اور درشت خوآدمی جنت میں نہیں جائے گا۔ (ابو داؤد)
ریاکاری یعنی شرک خفی
 اللہ تعالی فرماتا ہے:
” انا اغنی الشرکاء عن الشرک، من عمل عملا اشرک معی فیہ غیری ترکتہ وشرکہ” 
(صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الریاء ح:2985)
 میں تمام شرکاء سے برھ کر شرک سے مستغنی ہوں- جو شحص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں
 حدیث: ” الا احبرکم بما ھو اخوف علیکم عندی من المسیح الدّجال؟ قالو: بلی یا رسول اللہ! الشرک الحفی یقوم الرّجل فیصلی فیزیّن لما یرای من نظر رجل”: ( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب الریاء والسمعۃ، ح: 4204)
 کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے “شرک خفی” کہ کوئی شحص نماز کے لیےکھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے

 تبصرہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں ریاکاری، درشتگی، بداخلاقی، سخت مزاجی، اور فخروتکبر کا مفہوم سمجھنے میں مدد ملی۔ ان اعمال کی وجہ سے انسان آخرت میں جن حالات کا سامنا کریگا اس کا بھی پتہ چل گیا۔اور ان اعمال کو کفر قرار دیاگیا۔ کیونکہ نیک اعمال سے انسان جنت میں جاتا ہے اور بداعمال کی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے۔ کفر مشرقی سے جو چيزیں مراد تھیں وہ یہی اعمال تھے۔ اور ان اعمال کے کرنے والوں کے نام بنو ربیعہ اور بنو مضر بتائے گئے۔ اور انہی دو قبیلوں سے شیطان کے سینگ نکلنے کی پیشگوئي فرمائی گئي۔ اب حدیث نجد  اور احادیث "بنو ربیعہ و بنو مضر" پر نظر دوڑائي جائے  تو فتنہ پرستوں کی آماہ جگاہ کا پتہ چل جاتا ہے۔ بنو مضر اور بنو ربیعہ بحرین اور سعودی عرب کے نجد میں آباد تھے۔ جب  بنو تمیم شاخ بنو مضر وغیرہ نے جب عراق کی طرف ہجرت کی تو وہاں بھی فتنے پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ ان حالات کا ذکر ہم احادیث عراق و احادیث خوارج کے عنوان کے تحت کریں گے ان شاء اللہ۔
16: بےعقل لوگ، آیات قرآنی کی روشنی میں
ہم یہ حدیث دوبارہ زیربحث لا رہے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ یمن والے آگئے ہیں یہ لوگ نہایت نرم دل اور کمزور دل ہیں، ایمان بھی یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی اور مسکینی بکری والوں میں اور فخرو غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں (یعنی ربیعہ اور مضر)
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 189، حدیث 191)
شور مچانے والے دیہاتیوں کو مشرق میں کہا گیا ہے اور ان سے مراد بنو ربیعہ و بنو مضر ہیں، ان شور مچانے والے دیہاتیوں سے کون سے لوگ مراد ہوسکتے ہیں
آئيے سورت الحجرات آیت نمبر 4 اور 5 پڑھتے ہیں
آیات قرآنی
"اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾
"وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
یہ آیت بنی تمیم کے دیہاتی لوگوں کے حق میں نازل ہوئی، قبیلہ بنی تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت مسجد نبوی میں آئے، حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس وقت آرام فرما رہے تھے تو یہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے تھے کہ اے محمد باہر آئيے۔
 ابن کثیر، آیت نمبر 4 اور 5  کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
ان لوگوں کی مذمت بیان فرمائي جا رہی ہے جو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، یہ امہات المؤمنین کے گھر تھے۔ اجڈ بدوؤں کا یہی طریقہ تھا۔ یہ اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئي۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد 4، صفحہ 363، سورت الحجرات)
یہ آیات نجد کے لوگوں کے حق میں نازل ہوئيں جو بنی تمیم کے تھے اور ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اجڈ بدوؤں کا یہی طریقہ ہے۔  یعنی زور سے بولنا،دور سے پکارنا جس سے شور محسوس ہو۔


17: سورت الفتح کی آيت اور اسکی تفسیر، نجدی فتنہ سے متعلق
اب ہم ایک اور آیت پیش کرتے ہیں جو نجد کے حوالے سے نازل ہوئی

"عنقریب تم سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے۔
(سورۃ الفتح آیت 16)
اس آیت کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ:
زہری مقاتل اور ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ اس سے بنو حنیفہ یمامہ کے باشندے اور مسیلمہ کذاب مراد تھے۔ حضرت رافع بن خدیج صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ آیت پڑھتے تو تھے مگریہ معلوم نہ تھےکہ یہ کون لوگ ہیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنی حنیفہ (نجدیوں) کے خلاف جہاد کی دعوت دی تو ہمیں پتہ چلاکہ اس آيت سے یہ لوگ مراد ہیں۔ یہ اکثر مفسرین کا قول ہے۔
(تفسیر مظہری، جلد 9، صفحہ 22)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ نجد (ریاض ) کے فتنوں کے حوالے سے قرآن میں بھی ذکر آیا ہے اور پہلے ہی بتا دیاگيا تھا کہ وہاں فتنے سے نمٹنے کے لئے سخت جنگ ہوگی۔ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہی نجد مراد ہے جس کے فتنوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں نشاندہی فرمائي گئی۔


18: گھر کی گواہی 
نجد کو مشرقی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

الریاض، درعیہ، عینیہ اور اسکے آس پاس کے باشندوں کو طیبہ (یعنی مدینہ) میں مشرقی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جیسا کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے استاد شیخ عبداللہ بن ابراہیم کے حالات سے مرکوز ہے کہ وہ نجد کے ایک شہر مجمع، جو کہ عینیہ اور درعیہ کے قریب ہی ہے کہ باشندے تھے، یہ مقام مدینہ طیبہ میں مقیم تھے اور انہیں شیخ مشرقی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
شیخ عثمان بن بشر، عنوان المجد فی تاریخ النجد، ص 17۔

19: خلاصہ مضمون نجد پارٹ ون
حدیث شریف میں آتا ہے کہ  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ!  ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ  (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔" اس حدیث میں تین متعین علاقوں کا ذکر ہے۔ یہاں کسی خطے کا لغوی معنی نہیں لیاگیا لیکن کچھ لوگ لغوی معنی نکال رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ دس ہیں اور حدیث میں بیان کردہ نجد سے مراد عراق ہے اور پھر وہ نجد کے لغوی معنی بیان کرتے ہیں کہ ""نجد زمین کا وہ حصہ ہے جو بلند و بالا، مضبوط و گاڑھا اور اونچائی پر واقع ہو" (لسان العرب:45/14)۔ پھر اسکی حدود کا تعین علامہ طاہر حنفی فتنی کے اس قول سے کرتے ہیں کہ ""ھو اسم خاص لماذون الحجاز ممایلی العراق"  یعنی یہ ایک خاص جگہ کا نام ہے جو حجاز کے علاوہ عراق  کے ساتھ ملتی ہے۔ (مجمع بحار الانوار صفحہ 680، جلد 4)۔۔ اور امام عینی شارح صحیح بخاری اپنی شہرہ آفاق کتاب عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ "علامہ عيني عليہ الرحمہ لکھتے ہيں کہ: قلت النجد الناحيّتہ التي  بين الحجاز والعراق (عمدتہ القاري ص 266/1): ميں کہتا ہوں کہ حجاز و عراق کے درميان کے علاقے کا نام نجد ہے۔علامہ طاہر فتنی اور امام بدرالدین عینی کے مطابق حجاز اور عراق کے درمیان کا نام نجد ہے۔ 
جبکہ علامہ مالکی اس حدیث  کی شرح میں لکھتے ہیں کہ  مشرق سے مراد مدینہ کا مشرق ہے اور وہ نجد ہے، اسی طرح تبوک کے مشرق میں بھی نجد ہی ہے نیز اسکی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیاکہ وہاں سے زلزلے اور فتنے ہونگے اور شیطان کا سینگ وہی سے نکلے گا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ : اے اللہ! مضر کو سختی سے کچل دے اور مضر نجد میں ہے۔. (اکمال المعلم ج 1 ص 159)۔ جبکہ  "عراق کو عراق کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ نجد کی نسبت پست و نشیت علاقہ ہے اور سمندر کے قریب ہے۔  (علامہ یاقوت حموی، معجم البلدان، ص 93) نجد کے لغوی معنی ابھری ہوئی زمین کے ہیں جبکہ عراق کے معنی پست اور نیچی زمین کو کہتے ہیں جو سطح سمندر کے قریب تر ہو۔ سو عراق اور نجد کے لغوی معنی جاننے سے پتہ چلاکہ عراق اور نجد کے معنی ایک دوسرے کے متضاد ہیں، اس لئے عراق کو نجد کہنا کسی صورت مناسب نہیں۔ نجد والوں کو اہل مشرق بھی کہا جاتا ہے جیساکہ "شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے استاد شیخ عبداللہ بن ابراہیم کے حالات سے مرکوز ہے کہ وہ نجد کے ایک شہر مجمع، جو کہ عینیہ اور درعیہ کے قریب ہی ہے کہ باشندے تھے، یہ مقام مدینہ طیبہ میں مقیم تھے اور انہیں شیخ مشرقی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ شیخ عثمان بن بشر، عنوان المجد فی تاریخ النجد، ص 17۔ نجد کا رقبہ تقریبا تیرہ لاکھ نوے ہزار مربع فٹ ہے۔ "نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اہل نجد کے لئے قرن اور اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل مدینہ کے لئے  ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ میں نے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے اور مجھے خبر ملی ہے کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اہل یمن کے لئے یلملم ہے تو عراق کا ذکر ہوا تو انہوں فرمایا کہ اس زمانے میں عراق نہیں تھا۔ (یعنی اس زمانے میں عراق فتح نہیں ہوا تھا)۔صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 1930، حدیث 2200۔
اس حدیث سے وضاحت ہوگئي کہ عراق اس دور میں فتح نہیں ہوا تھا، اور نجد ریاض کے لوگوں کےلئے "قرن" کو میقات مقرر فرمایاگیا۔ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کے خلاف غزوہ بھی لڑا۔ جیساکہ حضرت جابر رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا تھا۔ (صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 1305) اگر یہ غزوہ عراق کے کسی نجد میں وقوع پذیر ہوتا تو کوفہ، بصرہ یا طبرستان کا نام ضرور آتا لیکن نہیں آیا کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے عراق کے خلاف جنگ نہیں کی تھی ۔ اسی طرح تقریبا تئیس غزوات و سریاء اہل نجد کے خلاف لڑے گئے۔ جب کفار مکہ دارالندوہ میں جمع ہوکر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خلاف سازشیں کرنے لگے تو شیطان ایک نجدی شیخ بن کر دارالندوہ میں آیا اور اس نے ابوجہل کی اس بات پر بے انتہا خوشی کا اظہارکیاکہ
ابوجہل نے کہاکہ میری رائے یہ ہے کہ ہم قریش کے ہر ہر قبیلے کا ایک ایک شخص لے لیں جو بہادر اور دلیر ہو، پھر اسے ایک تیز تلوار دے دیں تاکہ یہ سب مل کر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ماریں تاکہ آپ کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے اور بنی عبدمناف کی سمجھ میں بھی نہ آئےگا کہ اسکے بعد وہ کیا کریں۔ وہ  نجدی (ابلیس) کہنے لگاکہ اس نوجوان(ابوجہل) کی خوبی اللہ ہی کےلئے ہے۔ واللہ رائے تو یہی صاحب ہے ورنہ پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفجہ 234)۔ نجد ریاض کے لوگ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کےلئے بہت درشت اور بداخلاق ثابت ہوئے جیساکہ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ "عہدی نبوی میں اس علاقے کے تعلقات اسلام کے ساتھ تقریبا آخر تک کھینچے ہی رہے۔ قبل از ہجرت ایک حج کے موقع پر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب کوئي پندرہ قبائل کے لوگوں سے یکے بعد دیگرے اس کی خواہش کی کہ آپ کو اپنے گھر لے چلیں تو بنو حنیفہ کے نجدی ہی سب سے زیادہ درشت اور بداخلاق ثابت ہوئے تھے۔ (ابن ہشام ص 283)۔ نجد میں رہنے والے دو بڑے قبائل ہیں جن کا نام مضر اور ربیعہ ہے۔ جن کی بہت سی شاخيں ہیں یہ دونوں قبائل قبل از اسلام بہت جنگجو اورفساد بپا کرنے والے تھے جیساکہ تاریخ ابن خلدون میں بیان ہوا ہے کہ " اگرچہ قریش کو مکہ میں ایک حکومت حاصل ہوگئی اور قبائل مضر اطراف و جوانب ممالک کو شام و عراق میں اور کچھ حجاز میں منتشر و متفرق ہوگئے۔ اور بعض ان میں بادیہ نشین و خانہ بدوش ہوگئے، اور بعض اسباب عشرت اور سامان تمدن کی فراہمی میں مصروف ہوئے۔
 کبھی یہ فارس و روم سے عراق و شام میں لڑتے نظر آتے تھے اور کبھی اپنی حدود کی حفاظت کی غرض سے اپنی قوم کو جمع کرکے اہل عراق و شام سے مقابلہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان  لڑائيوں میں اور خون ریزيوں میں کبھی یہ مغلوب ہوکر خراج گزاری پر مجبور ہوجاتے تھے لیکن جب کبھی پھر کوئی موقع ہاتھ آ جاتا تھا تو خراج گزاری، اطاعت شاہی سے منحرف ہوکر مخالفت کربیٹھتے تھے۔
الغرض ٹھنڈے کلیجے  نہ یہ خود پانی پیتے تھے اور نہ پینے دیتے تھے۔ ہمیشہ شاہان عراق  و شام  کو استیصال، فساد و افتاء نیرا فتنہ میں رہنا پڑتا تھا۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد 1، صفحہ 31)۔ بنی مضر کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلاکہ یہ قبیلہ بہت جنگجو اور فتنہ فساد والا تھا جس کی وجہ سے اہل عراق و شام ہمیشہ فتنے میں مبتلاء رہتے تھے۔ بنو مضر والے نہ خود چین سے رہتے تھے اور نہ کسی کو رہنے دیتے تھے۔ یہ بات واضع ہوئی کہ یہ قبیلے نجد میں ہی رہتے تھے اور یہاں سے ہی وہ ااہل عراق اور اہل شام کے خلاف فساد بپاء کئے رہتے تھے کیونکہ نجد کی حدود شام اور عراق کیساتھ لگتی ہیں۔ فتح عراق کے بعد بنو مضر اور ربیعہ کے قبیلوں کی بڑی تعداد عراق میں جابسی تھی۔ بنو مضر نجد میں رہتی تھی جیساکہ حدیث میں قبیلہ قیس کے لوگوں کے حوالے سے آتا ہے کہ " یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! ہم صرف حرمت والے مہینوں میں ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 13) قبیلہ قیس کے لوگ بحرین کے رہنے والے تھے جن کو اہل مشرق میں سے بہترین لوگ کہاگیا ہے جیساکہ فرمایاگیا کہ " اہل مشرق میں سب سے بہترین لوگ بنو عبدالقیس ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد 7، صفحہ 360، حدیث 17983)۔ اسکی شرح میں ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس میں دلیل ہے کہ قبیلہ عبدالقیس قبائل مضر سے پہلے مسلمان ہوا تھا اور عبدالقیس کا علاقہ بحرین اور عراق کی اطراف سے اسکے  ساتھ ملنے والے علاقے تھے(فتح الباری، جلد 1، صفحہ 132)۔ قبیلہ قیس کا علاقہ بحرین تھاجیساکہ " حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مسجد میں جمعہ کی نماز ہونے کے بعد، سب سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کی گئی وہ (مقام) جواثی میں عبدل القیس کی مسجد ہے۔ جواثی بحرین میں ایک جگہ کا نام ہے۔(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 1469، حدیث 1504)۔ قبیلہ مضر کی ایک بڑی شاخ بنو تمیم ہے جس سے پہلا گستاخ رسول ذی الخویصرہ تمیمی نکلا تھا۔ "تمیم بنو مضر کا بہت بڑا قبیلہ ہے، یہ تمیم بن مر بن عدبان بن طبخہ بن الیاس  بن مضر کی طرف منسوب ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 13، صفحہ 104، صفحہ 83 جلد 8)۔ بنوتمیم نجد کی رہنے والی ہے جیساکہ " علامہ بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری خوارج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : یہ (ذوالخویصرہ کی نسل کے) لوگ نجد کے اس مقام سے نکلے جہاں بنو تمیم آباد ہیں۔ (عمدۃ القاری، جلد 24، صفحہ 90)
اب تک کی بحث سے ثابت ہواکہ احادیث سے صرف ایک نجد ثابت ہے۔ اب ہم نجد کے ان قبیلوں کی طرف آتے ہیں جن سے فتنہ نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئی اور جن کو اہل مشرق بھی کہاگیا ہے۔ مشرق کے لئے دعا کی درخواست پر "نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے اور دس میں سے نو فیصد شر یہی ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث 7094، ابن حبان 7301)، یعنی مشرق کی طرف دس میں سے نوفیصد شر ہے۔ اگر کلی مشرق کو اس سے مراد لے لیا جائے تو اس میں پاکستان، انڈیا، چین، ایران اورافغانستان وغیرہ آ جاتے ہیں۔ جبکہ ان ممالک میں کروڑوں محبان رسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم رہتے ہیں۔ پھر مشرق سے کونسا علاقہ مراد ہے؟ تو فرمایاگياکہ "کفر کا مرکز مشرق کی طرف ہے، فخر و تکبر گھوڑے والوں میں اور اونٹ والوں میں ہے جن کے دل سخت ہیں  ""  غرور اور ریاکاری، سخت مزاجی اور بد اخلاقی گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں ہے۔(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 186/187، حدیث 187/188)
ان حدیثوں میں اشارہ  فرمادیاکہ اونٹوں اور گھوڑوں والوں میں کفر ہے۔ کفر کی صورتیں بھی بیان فرمادیں کہ وہ سخت دل ہیں، مغرور ہیں، ریاکار ہیں، سخت مزاج ہیں۔  پھر دوسرے مقام پر کفر کے مرکز اہل مشرق والوں کی پہچان ان الفاظ میں فرما دی کہ "فخرو غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں (یعنی ربیعہ اور مضر)(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 189، حدیث 191)۔ دوسرے مقام پر سنگدل لوگوں کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائي کہ" سختی اور سنگدلی ربیعہ اور مضر اونٹوں والوں میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے ہانکتے چلے جاتے ہیں، جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے یعنی قبیلہ ربیعہ اور مضر۔(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 184، حدیث 183)۔ ۔ پس ثابت ہواکہ جس نجد سے شیطان کے دو سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئی وہ نجد ہے جس کے درمیان میں سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض آباد ہے۔ اسی نجد سے سب سے پہلا گستاخ رسول عبداللہ ذی الخویصرہ التمیمی نکلا تھا۔ اور اسی نجد کے لوگوں نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ظاہری پردہ پوشی کے بعد ارتداد کیا تھا، اور اسی نجد سے مسیلمہ کذاب جو بنو ربیعہ کی ایک شاخ بنو حنیفہ کا تھا نکلا، جسے بعض آئمہ کرام نے شیطان کے ایک سینگ سے تشبیع دی۔ اسکے علاوہ سجاع اور طلیحہ جیسے جھوٹے نبوت کے دعویدار نکلے، اسی نجد سے ابوبلال مرداس جسے خواب میں جہنم میں کتا بنا ہوا دیکھا گیا نکلا جو بنو تمیم کا تھا، خوارج کا ایک فرقہ اباضیہ کا سرخیل عبداللہ بن اباض بھی بنوتمیم کا تھا۔ خوارج کا ایک بڑا سردار نجدہ جو نجد بنوحنیفہ سے تعلق رکھتا تھا نکلا۔ غرض کہ اس نجد سے بےتحاشہ فنتے نکلے ہیں۔ نجد کے فرقہ وہابیہ کے بانی "محمد بن عبدالوہاب" کے بارے میں شیخ احمد بن محمد الصاوی المالکی فرماتے ہیں کہ ""وقيل هذه الآية نزلت في الخوارج الذين يحرّفون تأويل الكتاب والسنة ويستحلون بذلك دماء المسلمين وأموالهم كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون استحوذ عليهم الشيطان فأنساهم ذكر الله أولئك حزب الشيطان ألا إن حزب الشيطان هم الخاسرون نسأل الله الكريم أن يقطع دابرهم". انتهى كلام الشيخ الصاوي المالكي.حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين للفقيه أحمد بن محمد الصاوي المالكي المتوفي 1241 ۔

ترجمہ خط کشیدہ
اُن پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے سو اُس نے انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے، یہی لوگ شیطان کا لشکر ہیں۔ جان لو کہ بیشک شیطانی گروہ کے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں 
نجد پارٹ ون 
ختم شد